برطانوی ریفرنڈم میں صدراوباما کی مداخلت

جب امریکی صدر، بارک اوباما ملکہ کو90 ویں سالگرہ کی مبارک باد دینے برطانیہ گئے تو عمومی تاثر یہی تھا کہ وہ برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دیں گے۔ تاہم زیادہ ترافراد یہ توقع کررہے تھے کہ مشورہ دیتے ہوئے سفارت کاری کی روایت کو ملحوظ ِ خاطر رکھا جائے گا تاکہ برطانیہ کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا تاثر نہ ابھرے ۔ تاہم دیکھنے میں یہ آیا کہ صدر صاحب نے سفارت کاری کے آداب اُٹھا کر ایک طرف رکھے اور Brexit(یورپی یونین سے نکل جانے)کے حامیوں پرچڑھائی کردی۔ 
ڈیلی ٹیلی گراف میں بہت فصیح انداز میں لکھے ہوئے مضمون میں اُنھوں نے اہل ِ برطانیہ کو جذباتی ہوکر یورپی یونین سے اخراج چاہنے والوں کو مسترد کرنے کا کہا ۔اُنھوں نے ایک ماہر وکیل کی طرح اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یورپی یونین میں رہنے کے کیا فوائد ہوسکتے ہیں۔ تاہم اُنھوں نے کھلے دل سے اعتراف بھی کیا کہ اس میں اُن کا (امریکہ کا ) مفاد بھی ہے ، کیونکہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے امریکی اور عالمی معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔ اس کے علاوہ عالمی معاملات میں امریکہ کو برطانیہ کی صورت میں ایک طاقت ور حلیف کی ضرورت رہتی ہے ، لیکن یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد وہ ایک نسبتاً کمزور ریاست بن جائے گا۔ 
اگلے دن وزیر ِ اعظم ، ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ پریس کانفرنس کے موقع پر صدر اوباما کا لہجہ مزید دوٹوک تھا۔ اگر ٹیلی گراف کے مضمون میں اُنھوں نے یورپی یونین میں رہنے کے فوائد بتا کر برطانوی رائے دہندگان کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی تو پریس کانفر نس میں انھوں نے اس سے نکل جانے کے منفی اثرات سے 
ڈرایا۔ یورپی یونین سے نکلنے جانے کے موقف کی وکالت کرنے یہ کہہ چکے تھے کہ اُن معاہدوں پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے جو برطانیہ نے بطور یورپی یونین کی رکن ریاست کیے تھے ، اور ممکن ہے کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک اور ٹریڈنگ بلاکس کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کیے جائیں۔ تاہم صدر اوباما نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ امریکہ کی ترجیح یورپی یونین کے ساتھ ''ٹی ٹی آئی پی ‘‘ (ٹرانس اٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ پارٹنر شپ) ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین مجموعی طور پر پانچ سوملین افراد کی مارکیٹ ہے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر برطانیہ نے یورپی یونین سے نکل جانے کا فیصلہ کرہی لیا تو شاید امریکہ کو اس کے ساتھ ایک الگ سے ڈیل کرنی پڑے لیکن ایسی صورت میں اسے خاصا انتظار کرنا پڑے گا، کیونکہ وہ قطار میں کافی پیچھے ہوگا۔ 
اس سے یونین چھوڑنے والی کی مہم پر ایک پتھر سا گرتا دکھائی دیا ۔ ان کا موقف تھا کہ اخراج کا کوئی نقصان نہیں ہوگااور نہ ہی تجارتی معروضات پر کوئی فرق پڑے گا ۔ کہا جاتا تھا کہ دوسال کی درمیانی مدت میں وہ بتدریج معاہدوں کو تبدیل کرتے جائیں اور یوں معیشت کو کوئی جھٹکا نہیں لگے گا۔ تاہم صدر اوباما کی طرف سے اُن کی خوش فہمی کے خواب پر ٹھنڈا پانی گرانے سے وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے ۔ پہلے تو سٹپٹائے لیکن پھر اخراج کی مہم چلانے والے رہنما ،جیسا کہ بورس جانسن، مائیکل گروو، اپنے حواس بحال کرتے ہوئے کہتے سنائی دیے کہ صدر اوباما کے الفاظ کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود اقتدار میں چند ماہ تک ہیں۔ اس کے بعد وائٹ ہائوس میںکوئی اور ہوگا۔ 
لند ن کے پرعزم میئر ، جانسن جو ڈیلی ٹیلی گراف میں ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں(ڈیلی ٹیلی گراف اُنہیں 250,000 پائونڈ سالانہ ادا کرتا ہے ۔۔۔ ایڈیٹرز ، پلیز نوٹ کریں )نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ صدر اوباما کینیا کا پس ِ منظر رکھنے کی وجہ سے برطانیہ کے مخالف ہیں۔ اگرچہ مسٹر جانسن کے کے اس جملے میں انتہائی نسل پرستی کی بو آتی ہے ، لیکن اخراج کی حمایت کرنے والے ہر ممبر کا موقف یہی ہے کہ صدر اوباما کو اُن کے بیچ ٹانگ نہیں اَڑانی چاہیے تھی کیونکہ یہ کوئی عالمی نہیں، خالصتاً برطانیہ کا داخلی معاملہ ہے ۔ اس میں بہرحال دوآرا نہیں کہ صدر اوباما برطانیہ میں مجموعی طور پر ایک مقبول شخصیت ہیں۔ بہت سے شہریوں کا خیال ہے کہ بورس جانسن اور اُن کے ہم خیال دیگر سیاست دانوں کا رویہ برطانیہ کے ایک دوست سے توہین آمیز حد تک گستاخانہ ہے۔ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ صدر اوباما کے الفاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ یورپی یونین میں رہنے اور اس سے نکل جانے کی حمایت کرنے والے گروہ عوام کو بے حد کنفیوژن کا شکار کرچکے ہیں۔ مثال کے طور پر حکومت نے حال ہی میں ایک کتابچہ شائع کیا جسے ہر گھر تک پہنچایا گیا ۔ اس میں انتہائی پیچیدہ اور ادق الجبرے کے فارمولوں سے عام شہریوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر یورپی یونین سے نکلنے کافیصلہ کرلیا گیا تو 2030 ء تک ہر گھر 4,300 پائونڈ کے خسارے میں چلا جائے گا۔ اس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اگلے چار ماہ کا تو اندازہ لگا نہیں سکتی ، اس نے اگلے پندرہ برس کا معاشی تخمینہ کیوں کر لگالیا؟
اگرچہ صدر اوباما کی نصیحت نے یورپی یونین کے حوالے سے ہونے والی بحث کوتیز کردیا ہے لیکن جب سے ریفرنڈم کی تاریخ کا اعلان(دوماہ قبل ) ہوا ہے ، یہ بحث جاری تھی ۔ ابھی23 جون آنے میں مزید دوماہ ہیں، چنانچہ بحث میں تیزی اور تندی کے علاوہ تلخی بھی آئے گی۔ اس وقت تک کنزرویٹو پارٹی اس موضوع پر مکمل طور پر بٹی ہوئی ہے ۔ بہت سے سینئر ممبران اخراج کی حمایت کررہے ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون کو خاص طور پر مائیکل گووو کے اخراج کی حمایت کرنے والوں کی صفوں میں شامل ہونے کا شدید دھچکا پہنچا کیونکہ اُن کا شمار وزیر ِاعظم کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ اس سے پہلے آئن ڈنکن سمتھ ، جو پنشن اینڈ ورکس سیکرٹری ہیں، نے اخراجات میں کٹوتی کرنے پر استعفا دے دیا تھا۔ اس سے بھی حکومت کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔ اس وقت برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے علاوہ ڈیوڈ کیمرون کے مستقبل کا دارومدار لیبر پارٹی پر ہے ۔ کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد اس کے لیڈر جرمی کوربائن نے اخراج کی مخالف کی ہے ۔ اگرچہ مسٹر کوربائن کے ذاتی نظریات خاصے مبہم ہیں ، لیکن بطور سیاست دان وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اُنھوں نے اخراج کی حمایت کردی تو لیبر پارٹی تقسیم ہوجائے گی اورزیادہ تر ممبران یورپی یونین میں ٹھہرنے کی حمایت کریں گے ۔ 
وہ دھڑے جو اخراج کے موقف کی حمایت کرتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ یورپی یونین میں رہنے کی وجہ سے برطانیہ کے آئینی اداروں کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے کیونکہ برسلز کے افسران، جو منتخب شدہ نہیں ہیں، برطانوی اداروں کے فیصلوں کو بلڈوز کرتے رہتے ہیں۔بورس جانسن کا کہنا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والی ساٹھ فیصدقانون سازی میں دراصل برسلز کی مرضی شامل ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ برطانیہ کو بڑی تعداد میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے شہریوں کو اپنے ہاں قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت ان کی برطانیہ میں تعداد تین ملین کے قریب ہے ۔ 
دوسری طرف نوجوان افراد ، جنہوں نے شروع سے ہی اپنے ملک کو یورپی یونین کا لازمی حصہ سمجھا ہے ،اور وہ اپنے والدین کی نسبت برطانیہ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی رہائش رکھتے ہیں، کے لیے واپس برطانیہ میںسمٹ آنا دشوار ہوگا۔ اسی طرح پیشہ ور افراد، جو کام یا تفریح کے سلسلے میں مختلف ریاستوں میں بلاویزہ سفر کیا کرتے تھے، کے لیے بھی مشکل ہوگی۔ ہونے والے ریفرنڈم میں ٹرن آئوٹ کا بھی سوال ہوگا۔ اس وقت جو افراد اخراج چاہتے ہیں، وہ جذباتی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ مقررہ تاریخ کو ترجیحی بنیادوںپر گھر سے نکل کر ووٹ ڈالیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے زیادہ جذباتی تحریک نہ محسوس کریں۔ بہرحال یہ کئی عشروں میں رونما ہونے والے اہم ترین واقعات میں ایک ہوگا۔ اگر اہل برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر اُنہیں بے روزگاری، معاشی جمود اور کساد بازاری کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں