طالبان لیڈر کی ڈرون سے ہلاکت

حالیہ ڈرون حملے کے نتیجے میں طالبان لیڈر ، ملاّ منصور کی ہلاکت سے ایک مرتبہ پھر یہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ عمران خان ڈرونز سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔ ملاّ منصور پر ڈرون کیا برسا ‘میڈیا کا پرنالہ پاناما انکشافات سے ہٹ گیا ۔ ایک طرف طالبان لیڈر سے زندگی روٹھی تو دوسری طرف ہم نے اُس کی ہلاکت کے موضوع میں ایک جان سی ڈال دی۔ وفور ِ جوش سے مغلوب ، اسی تناسب سے ہوش سے دست کش، ٹی وی ٹاک شوز کے اینکرز اور مہمانوںاورسیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی پر قابل ِفہم احتجاج شروع ہوگیا۔ پھر کیا تھا،پاناما کے تنبو لپیٹ کر قومی سلامتی کا دسترخوان بچھا دیا گیا۔ لیکن ٹھہریں، شاید نہیں ، ہماری قوت ِشامہ قومی سلامتی سے بھی آگے کی بو سونگھ رہی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ ملاّ منصور کی ہلاکت نے پرامن مذاکرات کا خون کردیا ہے ۔ سیاسی پنڈتوں سے لے کر سرتاج عزیز، وزیر ِاعظم کے مشیر برائے خارجہ امور، تک ہرکوئی اس حملے سے سیاسی تصفیے کو پہنچنے والے عظیم نقصان کا جائزہ لے کر آہ و بکا میں مصروف ہے۔ 
ویسے یہ بقراط کس پُرامن عمل کی بات کررہے ہیں؟ کئی برسوںسے طالبان یہ دوٹوک موقف رکھتے چلے آئے ہیں کہ وہ امریکی فورسز کی اپنے ملک میں موجودگی تک افغان حکومت سے کوئی بات نہیں کریں گے ۔ اگرچہ سرتاج عزیز نے حالیہ دنوں امریکہ میں دعویٰ کیا کہ حکومت ِ پاکستان کوئٹہ میں طالبان کی
قیادت کے ساتھ رابطے میں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے کبھی بھی سنجیدگی سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ تاہم ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ پاکستان نے سرکاری طور پرتسلیم کیا کہ اُس نے طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں دے رکھی ہیں۔اس کے علاوہ جب سے ملاّعمر کے بعد طالبان کی قیادت ملاّ منصور نے سنبھالی تھی، افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں اور خونریزی میں اضافہ ہو ا تھا۔ یقینا ملاّ منصور کی بلوچستان میں ڈرون حملے میں ہلاکت پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ ناقدین الزام لگاتے رہے ہیں کہ پاکستان ایسے گروہوںکو پناہ دئیے ہوئے ہے جو ہمسایہ ملک، افغانستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں، تو کیا ان الزامات میں واقعی کچھ جان تھی؟
ڈرون حملے کے بعد اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ ملاّ منصور پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا حامل تھا۔ اس سے اس الزام کو تقویت ملتی محسوس ہوتی ہے کہ طالبان قیادت اسلام آباد کی سرپرستی میں کام کرتی ہے ۔ ملاّ منصور کے کراچی سے دوبئی تک کے متعدد سفر اور حالیہ ایران کا سفر بہت سے پریشان کن سوالات اٹھاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خفیہ ادارے پس ِ پردہ رہ کر کام کرتے ہیں ، اور اُن کے چیفس سے بھی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی ، لیکن یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ ملاّ منصور نے پاکستان کا شناختی کارڈ کس طرح حاصل کیا اوروہ کس طرح ہمارے خفیہ اداروں کی نظروںسے بچ کر ہماری سرزمین سے غیر ملکی سفر اختیار کرنے کے قابل ہوا؟
ہم نے ایک معمول سا بنا رکھا ہے کہ جب بھی کوئی ڈرون حملہ ہوتا ہے ، ہم قومی خودمختاری کی پامالی کا واویلا شروع کر دیتے ہیں، لیکن اگر ہم اپنی سرزمین پر عملداری کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں اس کا ثبوت بھی دینا چاہیے۔ فی الحال ہم اپنے قبائلی علاقوں میں عملداری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کئی عشروںسے افغان سرحد کے قریبی علاقوں سے سرحد پار کارروائیوں کا سلسلہ بلاروک ٹوک جاری ہے ، لیکن مجال ہے جو کبھی ہماری خود مختاری مجروح ہوئی ہو،لیکن ناہنجار ڈرون کی جھلک دیکھتے ہی عفیفہ پامال ہوجاتی ہے ۔ یہ مسئلہ نائن الیون کے بعد شدت اختیار کرگیا۔اس کے بعد اگرچہ 33 بلین ڈالر ہمارے خزانے میں آئے لیکن ہم اس کے عوض غیر تحریری معاہدہ پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو کہ اپنی سرزمین پر طالبان کو پناہ گاہیں فراہم نہ کرنا تھا تاکہ وہ یہاںسے نکل کر افغانستان میں حملے کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں اور فوجی دبائواُنہیں مذاکرات پر مجبور کردے ۔ اگرچہ اس دوران ہم نے غیر اعلانیہ طور پر امریکیوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ قبائلی علاقوں میں طالبان کو نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن بلوچستان یقینا ڈرونز کے لیے ''نوگوایریا‘‘ تھا۔
تاہم یہ فرض کرنا کہ ہماری کھینچی گئی سرخ لکیر ملاّ منصور کوہمیشہ تحفظ فراہم کرے گی جبکہ اُس کے جنگجو افغان اور امریکی فورسز پر حملے کرتے رہیں گے ، خوش فہمی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک فریق تھپڑ مارتا رہے اوردوسرا مسکراتے ہوئے گال آگے کرتا رہے ۔ جس طرح ہم اپنی سرحدوں پر بہت کم کنٹرول رکھتے ہیں، اسی طرح ہمارا شناختی کارڈاور پاسپورٹ بنانے والا نظام بھی ناقص ہے ۔ 1979 ء میں سوویت یونین کے حملے کے بعد پاکستان میں لاکھوں افغانوں نے پاکستان کو اپنا گھر بنالیا اور اُن میں سے ہزاروں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بنا لیے۔ تاہم یہ سوال کہ کیا ملاّ منصور نے یہ سہولت سرکاری افسران کی حمایت سے حاصل کی یا معمول کے ایجنٹوں کے ذریعے جو نادرا دفاتر میں فعال ہوتے ہیں؟ میں ذاتی طو رپر یقین نہیں کرسکتا کہ ہمارے افسران ملاّ منصور کے سفری شیڈول سے ناواقف ہوںگے ۔ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکیوں کو ملاّ منصور کے موجودہ سفر کی اطلاع کس نے دی؟ پاک امریکہ تعلقات میں حالیہ تنائو اور طالبان کو مذاکرات کے لیے قائل کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے دبائو کو دیکھتے ہوئے خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کو خارج ازامکان قرار نہیںدیا جاسکتا۔ 
اگرچہ ہم مسلسل شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہم امریکہ کے دہرے پن کا شکار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی صدر بش کے دور سے ڈرون حملوں میں تعاون کرتی رہی ہے ، تاہم عوامی سطح پر ہم اس کے خلاف شور مچاتے رہے ہیں۔ صدر مشرف نے اپنے دور میں بلوچستان میں ایک ائیربیس امریکیوں کے حوالے کیا تھا جہاں سے ڈرون پرواز کرتے تھے۔ وکی لیکس کے مطابق اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان نے امریکی سفیر کو بتایا کہ اُن کی حکومت ڈرون حملوں پر بظاہر احتجاج کرتی رہے گی لیکن وہ (امریکی ) اپنا کام جاری رکھیں اور طالبان کو نشانہ بناتے رہیں۔ یقینا ہمارا، امریکیوں اور افغانوں کا مفاد اسی میں ہے کہ طالبان کی عسکری طاقت ختم ہوجائے ۔ گزشتہ کئی برسوںسے اُنھوں نے ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا ہے ۔چنانچہ اُنہیںپناہ فراہم کرنے کی بجائے ہمیں اُن کے خطرے کا تدارک کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ کھل کر تعاون کرناچاہیے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں