پاکستانی کرکٹ ٹیم اپنے دورہ ٔ انگلینڈ کا آغازکیا چاہتی ہے ۔ میں حیران ہوں کہ کیا حال ہی میں فوجی ٹریننگ کیمپ میں تربیت لینے سے اُن کی فٹنس کا معیار بہتر ہوجائے گا ؟یہ بات برمحل ہے کیونکہ اس موسم ِ گرما میں فوجی ٹرینرز نے ہمارے کھلاڑیوں کو ایبٹ آباد میں جسمانی مشقیںکرائی ہیںلہٰذا بہتری کی امیدلگائی جانی چاہیے۔ خیر یہ تو کھلاڑیوں کے میدان میں اترنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کیا ان مشقوںسے اُن کی جسمانی کارکردگی میں کچھ بہتری آئی ہے یا نہیں ، لیکن تربیت کے اس پروگرام سے ایک مرتبہ پھر دیکھنے میں آیا کہ سویلینز نے ایک اور کام دفاعی ادارے کے سپرد کر دیا۔ پلیز میری بات کا غلط مطلب نہ لیں، مجھے کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے پیشہ ور فٹنس ماہرین سے کوئی مسئلہ نہیں، چاہے وہ وردی میں ہوں یا بغیر وردی کے ۔ تاہم کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے فوجی ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ایک منفرد تجربہ ہے ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے رکھے گئے کوچز نے ٹیم کی جسمانی فٹنس پر توجہ کیوں نہیں دی؟کیا اُنھوں نے بھاری مشاہرہ لے کر اپنی ذمہ داریوںسے پہلو تہی نہیں کی؟کیا اصل قصور ہمارے کھلاڑیوں کا ہے ، جن میں سے اکثر ڈسپلن کو ناروا بوجھ سمجھنے کی شہرت رکھتے ہیں ؟ کیا کھلاڑیوں نے جسمانی فٹنس کو بھی ڈسپلن کی طرح غیر ضروری سمجھا تھا؟ایک اور مسئلہ جس کی طرف کرکٹ بورڈ کے چیف شہریار خان نے توجہ دلائی کہ ہمارے بہت کم کھلاڑی تعلیم یافتہ ہیں، چنانچہ وہ غیر ملکی کوچز کی ہدایات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ تاہم یہاں قابل ِ غوروسیع تر نکتہ یہ ہے کہ اُس کام کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو سویلینز کے کرنے کا تھا۔ بار ہا یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جب امن و امان برقرار رکھناپولیس کی ذمہ داری تھی تو فوج کو بلا لیا گیا، لیکن کم از اس کی پھر بھی سمجھ آتی ہے کیونکہ ہماری پولیس کے پاس وسائل اور تربیت کی کمی ہے، لیکن عقل کو مائوف کردینے والی بات حساس ادارے کے تربیت یافتہ جوانوں کو بجلی کے میٹروں کی ریڈنگ لینے کے لیے استعمال کرنے کی پالیسی تھی، جیسا کہ نوّے کی دہائی میں نوازشریف صاحب کے دور میں دیکھنے میں آیا۔ شاید اُنہیں میٹرریڈرز پر اعتماد نہ تھاکہ اُنہیں فیکٹریوں اور بااثر افراد کے گھروں اور فارم ہائوسز میں داخلے ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی،چنانچہ حکومت نے فوجیوں کو میٹر ریڈنگ کے فرائض سونپ دیے ۔
الیکشن کے مواقع پر دھاندلی روکنے کے لیے بڑی تعداد میں فوجی دستے تعینات کیے جاتے ہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتیں پولیس پر اعتماد نہیں کرتیں۔ ستم یہ ہے کہ سیاسی بحران کے مواقع پر (اور خدا جانتا ہے کہ ان کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں)اپوزیشن رہنما کسی ''تھرڈ امپائر ‘‘ سے مداخلت کی اپیل کررہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اکثر فوجی مداخلت کی شکایت رہتی ہے، صرف شکایت ہی نہیں عملی طور پر بھی طویل عرصے تک فوجی حکومت قائم رہتی ہیں۔ تاہم اُن کے خاتمے کے لیے احتجاج اور دعائیں کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ کچھ سیاست دان ہی جنرلوں کو مداخلت کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ شب خون اُنہیں فائدہ پہنچائے گا ۔ اور سچی بات یہ ہے کہ طالع آزما جنرلوں ایسے سیاست دانوں کو کچھ دانا ڈالتے بھی رہتے ہیں تاکہ دونوں کا کام چلتا رہے ۔
چنانچہ جب ہم سول ملٹری تعلقات کی بات کرتے ہیںتو ہمیں مفاد پرست اور بے اصول سیاست دانوں اور نااہل حکمرانوں کے کردار کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنھوں نے فوجی مداخلت کو دعوت دی۔ اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ طالع آزما جنرل ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ِ فردا رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے ، وہ بھی کمزور کردار کے مالک سیاست دانوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح ہماری اہم ترین خفیہ ایجنسی بھی سیاست دانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی ماہرہے ۔ جہاں تک فوجیوں کا تعلق ہے تو وہ خو د کو تنظیمی مہارت کی بنیاد پر سویلینز سے بالا ترسمجھتے ہیں۔ چنانچہ وہ نہایت '' کامیابی‘‘ سے ہائوسنگ سکیمیں، فیکٹریاں اور فارم ہائوسز چلارہے ہیں۔ اُنہیں نہایت آسانی سے لائسنس بھی مل جاتے ہیں اور مالیاتی سہولیات بھی، تو پھر کمی کس چیز کی ہے ؟
جب میں نے اور میرے بیچ کے دیگر ساتھیوں نے پچا س کی دہائی میں سول سروس کیریئر کا آغاز کیا تو ہمیں دوماہ کے لیے مختلف آرمی یونٹس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ شاید کسی جنرل نے سوچا ہوگا کہ سویلین بیوروکریٹس کو بھی فوجی نظم و نسق سے آشنا ہونا چاہیے ۔ چنانچہ میں نے اٹھائیسویں پنجاب رجمنٹ، جو کوئٹہ میں تعینات تھی، کے ساتھ ''فوجی مشقوں ‘‘ میں حصہ لیا۔ شام کو فوجی میس میں، میں کتابیں اپنے ساتھ رکھتا جو میں نے بیس کی لائبریری سے حاصل کی ہوتی تھیں۔ نوجوان افسران مجھ سے پوچھتے کہ کیا میں کسی امتحان کی تیاری کررہا ہوں۔ اگرچہ اُن مشقوں نے میری فائرنگ کی مہارت کو قدرے بہتر کردیا لیکن اس کا مجھے کبھی عملی فائدہ نہ ہوا۔ اس دوران جھے عسکری بصیرت کے ایک پہلو کا بھی علم ہو ا۔ ہمارے ایک افسر جو بہت ذہین لیفٹیننٹ کرنل تھے، ہمیں یقین دلایا کرتے تھے کہ ایک مسلمان سپاہی دس ہندو دشمنوں پر بھاری ہوتا ہے ۔ ملک بھر کے فوجی میسوں میں پائے جانے والے ان جذبات میں ایک غیر معمولی ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ تمام سیاست دان بدعنوان ، جبکہ سرکاری افسران نااہل اور مکار ہوتے ہیں۔
تاہم فوج کی بہترکارکردگی اور تنظیم کی دیومالائی کہانیوں کی ایک حقیقت تو ہم سب جانتے ہیں۔ ہم نے طویل عرصے تک جاری رہنے والی فوجی حکومتوں کے دوران کچھ بھی بہتری نہیں دیکھی۔ ہمارے نظم کے مارے آمر وقت پر گاڑیاں بھی نہ چلا سکے، نہ ہی اُن کے دور میں ٹیکسیوں میں میٹر نصب دکھائی دیے ۔ جہاں تک ایک مسلمان سپاہی کے دس ہندوفوجیوں پر بھاری پڑنے کی خوش گمانی کا تعلق ہے تو ہم نے بھارت سے لڑی جانے والی ہر جنگ میں شکست کھائی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی یا سویلین، ان دونوں کا خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہے ، یہ دونوں ہی ایک گلے سڑے نظام کی پیداوار ہیں۔