گلوبلائزیشن کا اختتام؟

اب جبکہ بریگزٹ سے اٹھنے والی گرد بیٹھ رہی ہے، بہت سی غم زدہ آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔۔۔'' ہم نے تمہیں بتا دیا تھا‘‘۔ برطانوی معیشت کے بہت سے سیکٹرز آنے والے معاشی بحران کی نشاندہی کررہے ہیں، جبکہ پائونڈ کی گراوٹ کا عمل جاری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں دکھائی دینے والا اضافہ پائونڈ کے نرخ کم ہونے کی وجہ سے ہے۔ پائونڈ سستا ہونے کی وجہ سے غیر ملکی لندن سٹاک مارکیٹ کے شیئرخرید رہے ہیں۔ ائیرلائنز سے لے کر کار ساز صنعتیںکم منافع اور ملازمت کے سکڑتے ہوئے خدشات سے خبردار کررہی ہیں۔ برطانیہ کے نکل جانے کے بعد یورپی یونین میں بھی معاشی بحران کے سائے منڈلارہے ہیں۔ اس وقت برطانیہ کی نصف برآمدات یورپی یونین کے تجارتی پارٹنرز کو جارہی ہیں۔ اس کے مینوفیکچرر سپیئرپارٹس کی ایک بڑی مقدار یورپ سے ہی خریدتے ہیں۔ کاشتکار اور ہوٹل اور ریستوران چلانے والے بھی فری ٹریول کی سہولت ختم ہونے کے مضمرات سے پریشان ہیں کیونکہ ان کے کھیتوں اور باورچی خانوں میں یورپی یونین کے شہری کام کرتے تھے ۔ 
یہ بحث کہ بریگزٹ کے اثرات یورپی یونین کی نسبت برطانیہ زیادہ محسوس کرے گا، ایک طویل کہانی کا چھوٹا ساحصہ ہے ۔فرانس کی دائیں بازو کی جماعت، نیشنل فرنٹ کی رہنما ، مارین لی پن نے برطانیہ میں یورپی یونین سے نکل جانے والوں کی جیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اکثریت کا فیصلہ ہے ۔ اسی طرح رپبلکن کے امیدوار، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسے ویلکم کہا ۔ یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ زیادہ تر صنعتی دنیا میںعالمی تجارتی معاہدوں اور گلوبلائزیشن کے تصور کے خلاف مزاحمت ابھر رہی ہے ۔ چونکہ یورپی یونین دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک ہے ، اس لیے قوم پرست اسے خصوصی طور پر اپنا ہدف بنائیں گے ۔ حتی کہ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے برنی سندرس نے بھی گلوبلائزیشن کی مخالفت کی ہے ۔چنانچہ اس ایشو پر دایاں اور بایاں بازو متحد دکھائی دیتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر ملکی مہاجرین کی آمد کی وجہ سے مقامی باشندے اپنے لیے ملازمت کے کم ہوتے ہوئے مواقع دیکھتے ہیں۔ مسابقت بڑھنے کی وجہ سے اجرت میں بھی کمی آتی ہے ۔ لی پن اور بورس جانسن جیسے سیاست دان اس بات پر شاکی رہتے ہیں کہ منتخب نمائندوں کا اختیار برسلز کے غیر منتخب شدہ نمائندوں کو منتقل ہورہا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپی یونین میں دیگر ریاست کے شہریوں کی فری نقل وحرکت سے قوم پرست سخت نالاں ہیں۔یہ تصور تحمل مزاج افراد کو بھی تائو دلادیتا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو بھی کنٹرول کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ پر ، بریگزٹ عدم مساوات کے خلاف ووٹنگ تھی۔ اس صدی میں مغرب میں اجرت میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا، جبکہ بنکاروںاور مالیاتی اداروں کے افسران کی تنخواہیں ہوشربا حد تک بلند ہوگئیں۔ انہیں بھاری تنخواہوں کے علاوہ بہت زیادہ بونس بھی ملتے دکھائی دیے ۔ اس عدم مساوات نے یقینا محنت کش طبقے کو تائو دلادیا۔ حال ہی میں روچر شرما نے دی گارڈین میں لکھا۔۔۔''عوام کی پریشان کو بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات نے دوچند کردیا۔ عالمی معاشی انحطاط کو روکنے کے لیے مرکزی بنک بھاری رقوم جاری کررہے تھے۔ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے اور حقیقی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بجائے زیادہ تر رقم کا رخ مالیاتی اثاثوں، جیسا کہ سٹاک ایکس چینج، بانڈز، ہائوسنگ وغیرہ کی طرف ہوگیا۔ اس کی وجہ سے اشیا کی قیمت میں گرانی آتی گئی۔ چونکہ یہ چیزیں زیادہ تر دولت مند افراد کے پاس ہوتی ہیں، اس لیے معاشرے میں دولت کی ناہمواری اپنی حدوں کو چھونے لگی۔ یہ دیکھا جانے لگا کہ دولت لندن اور نیویارک جیسے شہروں کا رخ کررہی ہے ۔ 2007ء سے لے کر 2015 ء کے مختصر سے دور میں دنیا میں ارب پتیوں کی تعداد دوگنی ہوکر 1,800 تک پہنچ گئی۔ ان میں سے ستر سے زائد ارب پتی لندن میں رہتے ہیں، اور یہ دنیا میں ارب پتیوں کا سب سے زیادہ ارتکاز رکھنے والا شہر ہے ۔ ایک حوالے سے بریگزٹ لندن اور اس کی اشرافیہ کے خلاف ووٹنگ تھی ، اور یہ اشرافیہ آزاد تجارت اور کھلی سرحدوں کی حامی ہے ۔ ‘‘
جس دوران مینوفیکچرنگ اور آئی ٹی کی صنعت نے چین، انڈیا اور دیگر ممالک کے لاکھوں افراد کو ملازمتیں فراہم کرکے غربت کی دلدل سے نکالا، مغرب کا محنت کش اور ہنر مند طبقہ دیکھتا رہا ہے کہ اُن کے حصے کی ملازمتیں کم تنخواہوں پر ایشیا اور لاطینی امریکہ کے باشندوں کو دی جارہی ہیں۔ چنانچہ اب یہ خطرہ پیدا ہوچلا ہے کہ دیگر امیر ریاستیں بھی اپنی دیواریں اونچی کرکے اپنی ملازمتوں کو غیر ملکی افراد کے ہاتھ لگنے سے بچائیں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا عالمی معاہدوں اور عالمی اداروں کی پہنچ سے دور ہونے والی ہے ۔ گلوبلائزیشن کا عشرہ لد چکا، اب دیواریں اونچی کرنے کا زمانہ آچکا ۔ 
غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والے رہنمائوں کی پولینڈ اور ہنگری میں کامیابی ، اور میرین لی پن اور ٹرمپ کی اپنے اپنے ملک میں مقبولیت بتاتی ہے کہ لبرل عالمی سوچ کا زمانہ لد چکا۔ چنانچہ اس سوچ کے تحت وجود میں آنے والے اداے، جنہوں نے دنیا میں امن قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا، بھی خطرے سے دوچار ہوچکے ہیں۔ اگر یورپ بھی ماضی کی طرح باہم جنگ و جدل میں مصروف ہوگیا تو آج مشرق ِوسطیٰ میں ہونے والی خونریزی گڈے گڑیا کا کھیل دکھائی دے گی۔ مغربی یورپ کی دونسلوں ، جنھوں نے غیر معمولی خوشحالی اور امن کو دیکھا ہے، کے لیے یہ ایک ڈرائونا خواب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر نوجوان نسل نے بریگزٹ کی مخالفت کی تھی۔ ایک پارٹی میں میرے قریب بیٹھی ہوئی ایک دوست نے کہا کہ اُس کے بچے یورپی یونین سے نکلنے کے تصور پر مشتعل ہیں، تو میں نے پوچھا۔۔۔''کیا آپ اُن بچوں کو مورد ِ الزام ٹھہرا سکتی ہیں؟‘‘یقینا نوجوان فری ٹریول اور مختلف ریاستوں میں بلاروک ٹوک جاکر کام کرنے کے مواقع سے محروم ہوجائیں گے ۔ اُنہیں تو ایسا لگے گا جیسے دنیا یک لخت سمٹ گئی ہے ۔ 
دی اکانومسٹ نے اپنے اداریے میں حالہ دنوں گلوبلائزیشن کے حق میں ایک نصیحت کی ہے ۔۔۔''تجارت میں بہت سوں کو خسارہ بھی ہوتا ہے ، اور تیزی سے ہونے والی ہجرت میزبان قوم کو پریشانی کا شکار کردیتی ہے ، لیکن ان سے نمٹنے کا بہترین طریقہ بیریئر لگانا نہیں، اس کے لیے دلیرانہ پالیسیاں درکار ہیں، جو فوائد کو محفوظ کریں اور ان کے مضر اثرات کو کم کریں۔ ‘‘اچھی بات ہے لیکن آج کے تلخ ہوتے ہوئے ماحول، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت میں ایسی نصیحت سنے گا کون؟برطانوی شہری تو یہی کہیں گے کہ ، بس بہت ہوگئی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں