انسانی جذبات، کشمکش اور تعلقات کے اظہار کے لیے تھیٹر سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں۔ اچھی ڈائریکشن، اداکاری اور سٹیج پرفارمنس رکھنے والا ایک سٹیج ڈرامہ مختلف کرداروںکے درمیان داخلی اورخارجی کشمکش کوبیان کرتا ہے۔ ڈرامہ نویس اپنے دور کے مسائل اور معاملات سے کہانی اخذ کرتا ہے اور پھر انہیں ڈرامائی انداز میں سٹیج پر دکھایا جاتا ہے۔کہانی میں داخلی اور خارجی دونوں حقیقتوں کو بیان کیا جاتا ہے۔ درحقیقت سٹیج پر ٹی وی اور فلم کی نسبت اداکاری کے زیادہ جوہر دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہاں اداکار ناظرین کے سامنے ہوتے ہیں اورکسی غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی کیمرہ کام آتا ہے۔
مائیکل لانگ ہرسٹ کا ڈرامہ ''They Drink It‘‘ ایسا ہی ایک تھیٹریکل تجربہ ہے جو سیاسی اور استیصالی نظام کی بھیانک شکل کو سٹیج پر پیش کرتا ہے۔ کانگوکے حالات کے پس ِمنظر میں لکھا جانے والا یہ ڈرامہ سیاسی تنائو، جرائم، استیصال، تشدد اور منفی انسانی رویوں کو بیان کرتا ہے۔ اسے دیکھنے کے بعدناظرین ایک دور افتادہ ملک میں پیش آنے والی صورت ِحال کو بھی سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کانگو تشدد اور تاریک دور میں لڑی جانے والی قبائلی جنگوں اور نوآبادیاتی دور کے مظالم کی تاریخ رکھتا ہے۔ بلجیم نے اس افریقی ملک پر قبضہ کرکے بدترین استیصالی نظام قائم کیا۔ سفید فاموں کے جبر تلے لاکھوں افریقی پرتشدد اموات کا شکار ہوئے۔ درحقیقت نو آبادیاتی نظام کی تمام تاریخ کانگو جیسے مظالم کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے (جوزف کونرڈ کا مشہور ناول ''ہارٹ آف ڈارک نیس‘‘ اس کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔) اگرچہ بعد میں بلجیم کی استعماری طاقت کو وہاں سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا لیکن وہ اس کی معدنیات کی دولت سے بھرپور صوبے کاتنگا کو ملک سے الگ کرنے کی کوشش کرتے رہے تاکہ اس کے قدرتی وسائل کو لوٹ سکیں۔ چونکہ بلجیم کی کان کنی کی کمپنیوں کا وہاں مفاد تھا، اس لیے بلجیم نے علیحدگی پسندوں کی بھرپور پشت پناہی کی۔ اگرچہ برس ہا برس کی طویل اور خونی جنگ کے بعد علیحدگی پسندوں کو دبا دیا گیا لیکن ملک بدستور تشدد کی لپیٹ میں رہا۔ جنگجو دستے دیہاتوں میں لوٹ مار کرتے اور ایک ''جنگی حکمت عملی‘‘ کے تحت لڑکیوںکی آبروریزی کی جاتی۔ ہلاکتوں اور شورش کو بڑھانے کی ذمہ داری ہمسایہ ملک روانڈا پر بھی عائد ہوتی ہے۔
ڈرامہ نویس، ایڈم بریس نے لندن میں بڑی تعداد میں کانگو کے مہاجرین کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کانگو میں ''ہارٹ آف ڈارک نیس‘‘ پر روشنی ڈالی۔ ڈرامے کی کہانی کے مطابق کینیا نژاد ایک سفید فام لبرل، سٹیف نے کانگو کی ابتلا کو بیان کرنے کے لیے ایک سالانہ تہوار کا اہتمام کیا۔ ''کانگو وائس‘‘ کہلانے والے اس تہوار میں مختلف گروپس اور این جی اوز کی شرکت متوقع ہے، لیکن یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے کہ کیا کانگو کے تارکین ِوطن بھی اس میں شرکت کریں گے۔ پبلک ریلیشن افسر اور سٹیف کے سابق محبوب نے اس پروگرام میں اس کی معاونت کی ہے۔ جلد ہی سٹیف کو اندازہ ہوا کہ اسے ایک طرف کانگو کے تارکین ِوطن کی باتیں سننا پڑیں گی اوردوسری طرف این جی اوزکی سیاست بھی ہے۔ ایک جنگجو گروہ کی دھمکی کے باوجود اس تہوار کو منسوخ نہیں کیا گیا۔ سٹیف کو اپنے مسائل کا بھی سامنا ہے کیونکہ اس کا تعلق اُن دولت مند سفید فام تارکین ِوطن سے ہے جو کینیا کی معیشت کے بڑے حصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ مدد کے لیے سنجیدہ ہے؛ چنانچہ وہ کانگو کے تارکین ِوطن کی بجائے خود ہی کانگو وائس قائم کرنے کا بیڑا اٹھا لیتی ہے۔
ہم ڈرامے میں کشمکش، انا پرستی اور نظریات کا ٹکرائو دیکھتے ہیں۔ ڈرامے کے آغاز میں ایک مائن کا گرد آلود اور مشکل ماحول دکھایا گیا ہے جہاں مقامی افراد کام کرتے ہیں۔ یہ کانگو کی سرزمین ہے جہاں کان کن معدنیات اور قیمتی پتھر نکالتے ہیں۔ اگلا منظر ایک جھونپڑی کا ہے جہاں ایک نو عمر لڑکی بستر پر لیٹی ہے اور وہ اپنے باپ سے کہانی سننے کے لیے ضد کر رہی ہے کہ اچانک فائرنگ کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ باپ بیٹی سے کہتا ہے کہ وہ بھاگ کر جنگل میں چلی جائے لیکن حملہ آور اُسے پکڑ کر گھسیٹ کر لے جاتے ہیں اور اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بناتے ہیں۔ باپ اُسے بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن کسی تیز دھار آلے سے سر پر لگنے والا گہرا زخم اُسے نیچے گرا دیتا ہے،کبھی نہ اٹھنے کے لیے۔ اگلے منظر میں ایک سفید فام نرس اُس لڑکی کی دیکھ بھال کر رہی ہے کہ سٹیف اندر داخل ہوتی ہے۔ وہ ان حالات سے بہت پریشان ہے۔ وہ اصرار کرتی ہے کہ کانگو وائس کمیٹی کا تیسرا حصہ کانگو کے پناہ گزینوں پر مشتمل ہونا چاہیے، لیکن اُن پر انتہا پسندوں کا دبائو ہے۔ وہ اس دبائو کی وجہ سے ایک ایک کرکے ان کمیٹیوں سے نکل جاتے ہیں۔ اس کے بعد این میری پر حملہ ہوتا ہے اور اُس کی ایک آنکھ ضائع ہوجاتی ہے۔ ایک احمقانہ سے منظر میں انتہا پسند گروہ حکومت مخالف ویڈیو تیار کرتا ہے۔ اس میں اس گروہ کے ارکان صدر کی تصویرکو اپنے بوٹوں تلے روندتے ہیں۔ چونکہ وہ صرف تین ہیں اس لیے وہ بار بار اپنے بوٹ اور ٹرائوزرز تبدیل کرلیتے ہیں تاکہ ویڈیو میں زیادہ افراد کا تاثر دیا جاسکے۔ جس وقت سٹیف وہاں داخل ہوتی ہے تو اُن میں سے دو ٹرائوزرز تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔
سیاسی اختلافات کے باوجو دکانگو کے باشندے ایک احساس ِجرم کو شیئر کرتے ہیں کہ وہ اپنے وطن کو بے یارو مددگار چھوڑکر لندن میں آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نئی نسل کو اپنی شناخت کے کھونے کا بھی احساس ہو رہا ہے۔ یہ مسائل تمام تارکین ِوطن کے مشترکہ ہیں۔ ایڈم بریس ان سنجیدہ مسائل کو بہت احتیاط سے ہنڈل کرتا ہے اور گاہے مزاح بھی پیدا کرتا ہے۔ اس دڑامے میں کانگو کے استیصال کے بہت سے حوالے ہیں۔ اس کی معدنیات کی لوٹ مار جاری ہے۔ اس وقت چین کی نصف کے قریب برآمدات ، جن میں نایاب دھاتیں جیسا کہ ٹینٹالم اور ٹنگسٹن اور جست شامل ہیں، خریدتا ہے۔ یہ تمام میٹریل کمپیوٹر اور موبائل فون سازی کی صنعت میں استعمال ہوتا ہے۔ کانگو میں کی جانے والی تمام کان کنی انسانی ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ اگرچہ وہاں سے نکالا جانے والا میٹریل جدید ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اُن افراد کو جدید مشینوں کی سہولت حاصل نہیں۔ اس وقت کینیڈا کی ایک فرم کان کنی کے علاقوں تک جدید سٹرک تعمیر کر رہی ہے تاکہ وہاں بھاری مشینری پہنچائی جا سکے۔ اس سے جست کی پیداوار میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ تاہم جیسا کہ ڈرامے میں دکھایا گیا ہے، یہ مسئلہ وہاں کی حکمران اشرافیہ کا ہے۔ جب تک وہ اپنے معاملات درست نہیں کرتے، غیر ملکی طاقتیں ان کا استیصال کرتی رہیںگی۔