آرمینیائی باشندوں کا قتل ِعام

ایک صدی گزرنے کے بعد جب وردن اور سومی میں پہلی جنگ ِعظیم کی یاد میں تقریبات کا اہتمام اور اُس ہولناک جنگ میں ہلاک ہونے والے لاکھوں افراد کو یاد کیا گیا، ایسا لگتا ہے کہ دنیا دیگر قتل گاہوںکو بھول چکی ہے، خاص طور پر جن کا تعلق مشرق سے ہے۔ جب برطانوی کمان میں فورسز نے جرمنی، ترکی اور آسٹرو؍ ہنگری امپائر پر مشتمل سنٹرل پاورز پر ایک طرف سے حملہ کرنے کی کوشش میں ترکی کے مشرقی ساحل پر فوجی دستوں کو اتارا تو اُسے شرمناک شکست کے بعد واپس بھاگنا پڑا۔ اس جنگ میں فریقین کو خوفناک حد تک بھاری جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا، لیکن جرمنوں کی مدد سے ترک دستے غالب رہے۔ تاہم جب ترک فوج قدرے مشرق کی طرف بڑھی تو قسمت کی دیوی اُن سے روٹھ گئی۔ وہاں اُن کا سامنا روسی فوج سے ہوگیا۔ ترکی کے وزیر ِجنگ کے انکل، ہلال پاشا نے اپنی فوج کو سخت سردی میں وہاں قیام کرنے کا حکم دیا جس کی وجہ سے فوج کا بھاری جانی نقصان ہوگیا۔ جب ہلال پاشا واپس استنبول آیا تو اُس نے ان نقصانات کا الزام آرمینیا پر لگاتے ہوئے اسے خلافت ِعثمانیہ کا غدار قرار دے دیا۔ 
ہوسکتا ہے کہ اس الزام میںکسی قدر صداقت بھی ہو، لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ ترکوںکو روسیوںکے ہاتھوں شکست ہی ہونی تھی۔ تاہم ''The Ottoman Endgame‘‘کے مصنف، شین میک مین کے مطابق آرمینیا کو روس اور برطانیہ سے ہتھیار اور رقم ضرور ملی تھی اور اُنھوں نے ترک آقائوں کے خلاف بہادری سے جنگ بھی کی تھی۔ اُس وقت کمیٹی آف یونین اینڈ پروگریس کی حکومت نے اناطولیہ اور قدیم آرمینیا سے تمام آرمینیائی آبادی کا انخلا کرکے شام کے صحرا میں جانے کا حکم دیا۔ اس ہجرت کے دوران لاکھوں آرمینیائی باشندے ہلاک ہوگئے۔ یہ 1915ء کی بات ہے اور اسے عرف ِعام میں آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ پہلی جنگ ِعظیم کا سب سے خونی واقعہ ہے۔ آج تک مہاجر ہونے والے آرمینیائی باشندے اور ان کی نسلیں دنیا بھر کی ریاستوں سے اپیل کرتی پھر رہی ہیں کہ اس اقدام کو سرکاری طور پر ترکی کے ہاتھوں ہونے والی نسل کشی تسلیم کیا جائے۔ ترکی اس الزام کو رد کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کیونکہ اسے تسلیم کیے جانے کی صورت میں وہ نازی جرمنی کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔ 
یہ ابھی تک ایک قابل ِ بحث موضوع ہے کہ اس ہجرت کے دوران کتنے آرمینیائی باشندے ہلا ک ہوئے تھے۔ کچھ مبصرین کے مطابق یہ تعداد دس لاکھ کے قریب ہے۔ میک مین کے مطابق جب ترک حکومت نے انخلا کی پالیسی کو سرکاری طور پر نرم کر دیا تو بھی مقامی جنونی افسران اس پر شدت سے عمل کراتے رہے۔ ہلاکتوںکی جتنی بھی تعداد ہو، آرمینیائی باشندوں سے اُن کا تمام مال اسباب چھین کر اُنہیں بے سروسامانی کے عالم میں اُن کے گھروںسے نکال دیا گیا تھا۔ شام تک جانے والے طویل اور دشوارگزار سفرکے دوران زیادہ تر افراد بھوک، پیاس اور تھکاوٹ کی وجہ سے مرگئے۔ جو ان تینوں مصیبتوں سے بچ نکلے، وہ آگے چل کر صحرا کی حدت کی نذر ہوگئے۔ یہ بات قابل ِفہم ہے کہ یہ خونی ہجرت آرمینیائی آبادی کی اجتماعی یادداشت کا ناقابل ِفراموش حصہ ہے۔
اس کا بدلہ لینے کے لیے حالیہ عشروںکے دوران آرمینیا کی سیکرٹ آرمی نے بہت سی ریاستوں میں ترک اہداف کو نشانہ بنایا۔ اس نے 1970ء اور 1990ئکی دہائیوں میں اکیس ممالک میں ترکی کے بیالیس کے قریب سفارتکاروں کو ہلاک کیا۔ 
نسل کشی کا مطلب عام طور پر کسی قوم یا گروہ کو مکمل طور پر ختم کردینا لیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں داعش نے یزدی قبیلے کی تمام آبادی ختم کردینے کی کوشش کی، اور قریب تھا کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتے اگر امریکی فضائیہ اورکرد دستے بر وقت حرکت میں نہ آتے۔ تاہم یزدی اتنے کمزور ہیںکہ وہ اپنی ہلاکتوںکا انتقام نہیں لے سکتے، لیکن آرمینیائی باشندے مغربی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ اور خوشحال اقلیت ہیں؛ چنانچہ وہ ترکی کے خلاف لابنگ کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ اسے بھی نازی جرمنی کی طرح جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔
آرمینیائی باشندوں کے ساتھ ہمدردی اپنی جگہ پر لیکن یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ اُس وقت ترکی کی عثمانی سلطنت جنگ ِعظیم لڑ رہی تھی اور اس میں شکست اس کی قسمت کا فیصلہ کردیتی، ہم جانتے ہیںکہ بعد میں ایسا ہی ہوا۔ دنیا آج تک اُن خونی واقعات کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد بلقان اور مشرق ِوسطیٰ کا نیا نقشہ تشکیل دیا گیا، نئے بارڈر اور ریاستیں قائم کی گئیں۔ ان کی وجہ سے بھی بہت سا خون بہا اور دشمنیاں پیداہوئیں۔ اس پس ِمنظر میں اُس وقت ترکی کی سخت پالیسی اگر قابل ِ معافی نہیں تو بھی قابل ِفہم ضرور ہے۔ آج بھی بہت سے مبصرین عثمانی سلطنت کی غیر مسلم رعایا کے لیے تحمل اور برداشت کی پالیسی کو سراہتے ہیں، لیکن یہ تحمل بہرحال یونانیوں اور آرمینیائی باشندوں کے لیے دکھائی نہیں دیتا۔
ترکی نے آرمینیا کو 1555ء میں فتح کیا تھا، لیکن اس کے باشندے ترک معاشرے میں ثقافتی، لسانی اور سماجی طور پر الگ ہی رہے۔ وہ آرتھوڈاکس چرچ کے ساتھ وابستہ تھے۔ وہ معاشی طور پر غریب اور پسماندہ تھے اور ترک اشرافیہ اُنہیں اپنے شہروں میں الگ مقامات پر رہنے کی اجازت دیتی تھی۔ یہ صدیوں سے جاری اسی جبر کا نتیجہ تھا کہ ترکی اور روس کی جنگ کے دوران آرمینیا نے موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنا حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔ استنبول میں امریکی سفارت کار، ہنری مورگنتھو (Henry Morgenthau) نے مئی 2015ء میں لکھا: ''ایسا لگتا ہے کہ آرمینیا نے مشرقی ترکی کے ضلع وان میں بغاوت کرتے ہوئے روسیوں کا ساتھ دیا تھا تاکہ ترکی کو شکست دی جاسکے۔ یہ کوشش گوریلا بغاوت کی صورت تھی۔ وان میں ان کے خلاف باقاعدہ فوجی آپریشن کرنا انتہائی مشکل تھا۔ اس گوریلا جنگ میں حصہ لینے والے آرمینیائی دستوں کی تعداد نامعلوم ہے، لیکن اندازہ ہے کہ دس ہزار سے پچیس ہزار کے درمیان ہوگی‘‘۔ آگے چل کر ہنری مورگنتھو لکھتے ہیں: '' بہت سے آرمینیائی رضاکاروں نے بعد میں روسی فوج میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ کچھ نے وان میں انقلابی تحریک چلانے کی کوشش بھی کی اور جب روسیوں نے حملہ کیا تو اُنھوں نے اُن کی مدد کی‘‘۔
اس وقت ترکی کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن ہم بھول جاتے ہیںکہ ان میں سے بہت سے مسائل کا تعلق اس کے ماضی سے ہے۔ مثال کے طور پرکرد مسئلہ اور یہ ہمارے سامنے ایک زندہ مثال ہے کہ کس طرح ایک ریاست ایک بڑی آبادی کو اُس کی مرضی کے خلاف، ہر قیمت پر اپنے ساتھ رکھنے پر تلی ہوئی ہے۔ جہاں تک آرمینیائی باشندوں کا تعلق ہے تو وہ اُس نسل کشی کو نہ کبھی بھولیں گے اور نہ معاف کریںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں