کھلا دروازہ

تو کیا نریندر مودی پاکستان کو عالمی طور پر تنہاکرنا چاہتے ہیں؟ کسی کو اُن کے گوش گزار کرنا چاہیے کہ اُنہیں مزید کوشش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ فریضہ ہم خود سرانجام دیتے رہے ہیں۔ بھارتی کیمپ اُڑی پر ہونے والے موجودہ حملے کا ہماری تنہائی سے کوئی تعلق نہیں، ہم نے گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان کو دنیا کے لیے ایک ناپسندیدہ ملک بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہر حکومت نے سرکاری سطح پر پاکستان کا امیج بہتر بنانے کی اپنے تئیں کوشش کی لیکن ملک کا منفی تاثر زائل نہ ہوا، دنیا کے پاس اسے ایک پرتشدد ملک سمجھنے کی وجہ کا تدارک نہ کیا جا سکا۔
ہم تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور جہادی میڈیا جان لے کہ اب اس کا سامنا کیے بغیر چارہ نہیں۔ برس ہا برس سے جاری جارحانہ پالیسی، دیگر اقوام سے نفرت اور اُن کے خوف اور مذہبی انتہاپسندی نے ہمیں مہذب دنیا کے لیے ایک اجبنی ریاست بنا دیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہم خود کو دہشت گردی کا شکار تصور کریں لیکن باقی دنیا ہمیں عالمی جہاد کا مرکز مانتی ہے ۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اُڑی حملے میں سرکاری طور پر پاکستان کا کوئی ہاتھ نہ ہو، لیکن کیا کریں، باقی دنیا تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حال ہی میں نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں ہمارے بے گناہی کے دعوے کو مسترد کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی دہشت گرد ی کی کارروائیوں، جیسا کہ ممبئی حملے ،کے بعد بھی ہم نے ان میں ملوث ہونے کی تردید کی، لیکن پھر ان میں کسی پاکستانی گروہ کے ملوث ہونے کے ناقابل ِتردید ثبوت مل گئے ۔ اب ہم دنیا کو اپنی بات کا یقین کیسے دلائیں؟
چونکہ میں عالمی میڈیا پر نظر رکھنے والوں میں سے ایک ہوں، چنانچہ میںاپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ عالمی میڈیا نے پاکستان کی کوریج کس طرح کی ہے۔ چند دن پہلے دی گارڈین نے رپورٹ شائع کی کہ کس طرح ہرسال پاکستان میںسینکڑوں مشتبہ افراد کو دہشت گرد یا جرائم پیشہ قرار دے کر پولیس مقابلوں میں ہلاک کردیا جاتا ہے ۔ مہذب دنیا اسے ماورائے عدالت قتل مانتی ہے ۔ اسی اخبار نے ایک پاکستانی نژاد اداکار مارک انور کی کہانی شائع کی جس نے ٹوئٹر پر بھارت کے لیے قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے تھے ۔ اس کی پاداش میں اُسے ایک مقبول اوپیرا سے نکال دیا گیا۔ اب اسے کہیں اور ایکٹنگ کا کام نہیں ملے گا۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ مارک انور کے اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کا کشمیریوں کو کیا فائدہ ہوا؟
احمد خان رحمانی ایک دہشت گرد تھا جو نیویارک اور نیوجرسی میں بم نصب کرنے کے الزام میں گرفتار ہوا۔ اگرچہ وہ ایک افغان باشندہ تھا لیکن تفتیش کے دوران پتا چلا کہ اُس نے تین ہفتے بلوچستان کے ایک مدرسے میں گزارے تھے ۔مغرب آنے والے انتہا پسند مسلمان نوجوان انہی جانی پہچانی راہوں پر چل کر آتے ہیں۔ چنانچہ مغرب میں یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کی تعلیم اور جہاد کی تربیت دینے والے ادارے عام ہیں۔ ان اداروں کو پنپنے کی اجازت دینے کی پالیسی نے وطن کے لیے نیک نامی نہیں کمائی ۔ حکومت اور انتہائی حب الوطن میڈیا نے اس تاثر کو گہرا کیا ہے کہ چین ہمارا قابل ِاعتماد دوست ہے اور یہ بات درست بھی ہے ۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاک چین تعلقات میں گہرائی آئی ہے ، لیکن شاید ہم یہ بات سننا گوارا نہ کریں کہ جب بھی کشمیر کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو چین ایک طرف ہوکر، ہم سے قدرے فاصلہ پیدا کرتے ہوئے ہمیں تحمل سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ جب حال ہی میں وزیر ِاعظم نواز شریف کے دوخصوصی نمائندے بیجنگ گئے تو اُن سے ملاقات کے دوران جہاں چینی نائب وزیر ِخارجہ نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تنازعات بات چیت اور سفارتی ذریعے سے حل کرے ، وہاں اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ چین کشمیر پر پاکستان کے موقف کی 'قدر‘ (valued) کرتا ہے ۔ اُنھوں نے نہایت محتاط رہتے ہوئے لفظ'حمایت‘ (support) سے گریز کیا۔ 
امریکہ میں پاکستان کو ملنے والی امداد کی معطلی پر بحث کے دوران پاکستان کی حمایت میں بولنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ اب چونکہ بھارت امریکہ کے قریب ہوگیا ہے ، اس لیے واشنگٹن میں ہماری حمایت کا بستر گول سمجھیں۔ اگرچہ الفاظ کی حد تک واشنگٹن کا موقف ہے کہ ایک ملک (انڈیا) کے قریب ہونے کا مطلب دوسرے (پاکستان) سے دوری نہیں، لیکن حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جب چین کو محدود کرنے کے لیے امریکہ ایشیا پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے تو بھارت بھی سوویت قربت کے اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑ کرامریکہ کا ہاتھ تھام چکا ہے ۔ اس دوران امریکی میڈیا بھی پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ایک منفی کردار کی حامل ریاست کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ برس ہا برس سے پاکستان کو حقانی اور افغان طالبان کو پناہ دیتے دیکھ کر اب وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم اُنہیں بے وقوف بناتے ( یا سمجھتے ) رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت دنیا میں اپنی عقربی موجودگی کا توانا احساس دلاتا ہے ۔ ایک تو یہ دنیا کے برآمدکنندگان کے لیے بہت بڑی مارکیٹ ہے اور دوسرے یہ سافٹ ویئر کی صنعت فروغ پاتی ہوئی صنعت رکھتا ہے ۔ سالانہ آٹھ ملین سیاح اس کی سیاحتی صنعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ یہاں سے جانے والے زیادہ تر اپنے ساتھ بھارتی معاشرے کی خوشنما کہانیاں اور دلربا تاثر لے جاتے ہیں۔ چنانچہ دنیا بھول جاتی ہے کہ یہاں دلت اور اقلیتوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔ 
معاشی اور سفارتی میدان کے علاوہ بھی ہم دنیا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے نرم اور لچکدار رویوں کی اہمیت کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ زیادہ بھارتی تارکین ِوطن جس ملک میں جاتے ہیں، میزبان ملک کو اپنی خوراک، موسیقی اور کلچر کا گرویدہ بنالیتے ہیں۔ اگرچہ مذہبی انتہا پسندی کے باوجود پاکستان بھی تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے فنکاروں سے مالا مال ملک ہے، لیکن ہم بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ اس کے علاوہ ایک برادر عرب ملک سے پھیلنے والا انتہاپسند مسلک بھی پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے ۔ چنانچہ دنیا تمام پاکستانیوں کو اسی مسلک کا پیروکار سمجھتی ہے ۔ کوئی معمولی سی بات ہو تو مذہبی جنونی گروہ گلیوں اور سڑکوں پر طوفان برپا کردیتے ہیں۔ دنیا ان واقعات کی کوریج دیکھتی ہے ۔ان واقعات کی گرد میں پاکستان کا ادب، موسیقی، کلچر اور جغرافیائی حسن دب کر رہ جاتا ہے ۔ اس پس ِ منظر کو دیکھتے ہوئے ہمیں زیادہ امید نہیں کرنی چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر دنیا میںکوئی ہمارے ساتھ کھڑا ہوگا۔ دنیا اس مسئلے کو کسی اور نظر سے دیکھتی ہے جس کا ذکر ہمیں پسند نہیں آئے گا ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں