برانڈ مینجمنٹ

فوجی طاقت کااندازہ لگانا آسان ہوتا ہے ۔ اس کے لیے فوجی دستوں ، ٹینکوں، طیاروں، بحری جہازوں اور دیگر ہتھیاروںکو گننے کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح زر ِ مبادلہ ، کرنسی کی قدر، جی ڈی پی اور شرح ِ نمو کو دیکھ کر معاشی طاقت کی جانچ کی جاسکتی ہے ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر درست، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نرم طاقت کا اندازہ کیسے لگایا جائے ؟نرم طاقت سے مرادکسی ریاست کا بیرونی دنیا پر اثر ہے جس کااظہار اس کی ثقافتی، سائنسی اورکھیل کود کی سرگرمیوں اور کچھ دیگر عوامل کے ذریعے ہوتا ہے ۔ایک ریاست کا بیرونی دنیا کے نزدیک تاثر ٹھوس باڈی نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا احساس ہوتا ہے جو آسانی سے تباہ بھی ہوسکتا ہے ، جیسا کہ ایک کارساز کسی ایک غلطی کی وجہ سے اپنا برانڈ تباہ کرسکتا ہے ۔ حالیہ دنوں ولکس ویگن کی ساکھ کو زک پہنچی جب پتہ چلا کہ اس نے گیسوں کے اخراج کا ڈیٹابتانے میں غلط بیانی سے کام لیا تھا ۔
چونکہ ریاست کی نرم طاقت غیر مرئی ہوتی ہے ، اس لیے ہمارے فوجی اور سویلین حکمرانوں نے کبھی بھی اس کی حقیقی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ حالیہ دنوں ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ ، جس سے سول ملٹری تنائو کا اظہار ہوتا ہے ، اس تاثر کو گہرا کرتی ہے کہ موجودہ حکمران اشرافیہ کو ملک کی نرم طاقت کو پہنچنے والی زک کا کوئی احساس نہیں۔ پہلے فوج نے خبر افشا ہونے پر اپنے غصے کااظہار کیا، اس کے بعد سویلین حکومت نے اخبار کے صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور سویلین قیادت یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ جب یہ واقعہ عالمی میڈیا میں رپورٹ ہوگا تو یہ ملک کے بارے میں غلط تاثر کو اجاگر کرے گا۔ اس ردِعمل نے ایک خالصتاً داخلی معاملے کو خواہ مخواہ فوج اور سویلین قیادت کے تنائو کی سنسنی خیز کہانی بنا کر عالمی میڈیا کی زنیت بنا دیا۔ 
اس موضوع کا انتخاب کرنے کا مقصد پاکستان کو عالمی تنہائی سے دوچار کرنے کے بھارت کے علانیہ عزائم ہیں۔ تاہم وزیر ِاعظم نریندر مودی بے کار کوشش کررہے ہیں کیونکہ ہم خود بھی عالمی برادری کی نظروں میں ملک کا منفی تاثر اجاگر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ کئی برسوں سے پاکستان کو عالمی جہاد کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ تاثر ہے کہ غیر ملکی انتہا پسند مسلمان ہمارے ہاں جہاد کی تربیت حاصل کرتے ہیں، اور یہاں نوجوانوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے ۔ اسلام آباد میٹنگ میں یہی چیز زیر ِ بحث آئی تھی، اسی کی وجہ سے اتنا ہنگامہ بپا ہوا۔اخبار کی رپورٹ کے مطابق سویلین رہنمائوں نے اسٹیبلشمنٹ کو جہادیوں کی پشت پناہی سے باز رہنے کا کہا کیونکہ اس کی وجہ سے ملک عالمی تنہائی سے دوچار ہورہا ہے ۔ سیکرٹری خارجہ نے وضاحت کی جب بھی ہمارے سفارت کار بیرونی دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے ہیں، اُنہیں آگے سے انتہا پسندوں کی حمایت کرنے پر لیکچرز سننے پڑتے ہیں۔ 
یہ وہ مسئلہ ہے جسے عسکری ذہنیت سمجھنے سے گریزاں ہے۔ دنیا افغانستان اور کشمیر میں جہادی اپریٹس کے استعمال کو کسی طور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا کے سیاست دان، مبصرین اور ذی فہم افراد ہماری تردید نہیں سنتے ۔ اُنہیں یقین ہے کہ ہم جہادیوں کو پال اور استعمال کررہے ہیں۔ چنانچہ جب ہم منہ بنا کر دنیا کے سامنے کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہیں، تو ہمیں بتایا جاتاہے کہ پھر دہشت گردوں کو پالنا بند کریں۔ 
تاہم دہشت گردی کی حمایت کی طویل چارج شیٹ کے باوجود ہم مختلف عقائد اور تصورات کی بابت عدم برداشت رکھتے ہیں۔ ہم اپنے سے مختلف طرز ِزندگی کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی دنیا میں جب پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیںتو میڈیا اُنہیں خوب اچھالتا ہے ۔ تاہم اس کاموقع اسے ہم ہی فراہم کرتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ بیرونی دنیا میں ہماری ساکھ داغدار ہے ۔ اس لیے ہماری نرم طاقت کوئی وجود نہیں رکھتی۔ ہم جتنی چاہے آنکھیں بند رکھیں، اب پاکستان کو دنیا کی بساط پر ایک مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ کوئی بیس سال پہلے سابق امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ، میڈلین البرائٹ نے پاکستان کو ایک ''عالمی درد ِسر‘‘ قرار دیا تھا۔ 
یہ صورت ِحال پاکستان کے لیے کسی طور خوشگوار نہیں۔ مجھے بھی یہ کالم لکھتے ہوئے خوشی نہیں ہورہی ، لیکن مسائل حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے انہیں تسلیم تو کریں۔ سرل المیڈا کی کہانی پر بپا ہونے والے حالیہ ہنگامے کے دوران میں نے ایک مشہور ٹی وی اینکر کو دھاڑتے ہوئے سنا کہ ''اس کہانی کی غیر ملکی کوریج کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔‘‘ جب تک ہم سازش کی تھیوریوں سے جان نہیں چھڑاتے، یقین کرلیں ہم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اگر ایک ٹی وی اینکر ہی عالمی میڈیا کی فعالیت سے بے خبر ہے تو پھر جیسے جیفری چوسر نے کہا تھا۔۔۔''اگر سونے کو بھی زنگ لگ جائے تو لوہے کا کیا بنے گا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ صحافیوں، خاص طور پر وہ جو انگریزی اخبارات کے لیے کام کرتے ہیں، کو عالمی میڈیا کی رسائی کا علم ہونا چاہیے ۔ چنانچہ جب سرل المیڈا کو ہدف بنایا گیا توپاکستان اور دیگر دنیا کے صحافیوں کے دل میں اس کے لیے ہمدری پیدا ہونا لازمی تھی۔ چنانچہ ڈئیر اینکرز، اس میں کوئی سازش نہیں ہے ۔ 
کئی برسوںسے ہم نے بہت سے سیاست دانوں کو شکایت کرتے سنا ہے کہ ہمارے سفارت کار بیرونی دنیا میں پاکستان کا بہتر تاثر ابھارنے میں ناکام رہے ۔ اسی طرح ہمارے جنرل بھی ہماری فارن سروس کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے خارجہ پالیسی اپنے ہاتھ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم سیاست دان اور جنرل، دونوں ایک بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیںہمارے سمندر پار مشنز بھارت کی نرم طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بھارتی موسیقی،فلمیں، ڈرامے ، خوراک اور فیشن اب مغربی دنیا کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ اب تو پاکستانیوں نے بھی اپنے ریستورانوں پر ''انڈین‘‘ لکھنا شروع کردیا ہے تاکہ گاہک اُن پر اعتبار کریں۔ چنانچہ یہ اس کی نرم طاقت کا اثر ہے کہ ہندو انتہا پسندی اور دلت برادری کے ساتھ روارکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کے باوجود انڈیا کو ''گاندھی کے عدم تشدد کے نظریات ‘‘ کے تسلسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ جب تک ہم اپنے بیرونی تاثر کو تبدیل نہیں کرتے ، کوئی ہماری بات نہیں سنے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں