طیب اردوان کا نئی سلطنت عثمانیہ قائم کرنے کا خواب

ترک ایئر لائن کی ایک حالیہ فلائٹ میں مجھے دو انگریزی اخبار پڑھنے کا موقع ملا جو فلائٹ کے دوران مہیا کیے گئے تھے۔ دونوں اخبارات کے کالموں میں فتح اﷲ گولن کو ملامت کیا گیا تھا۔ گولن ترکی اور بیرونی ممالک میں تعلیمی اور دیگر سماجی بہبود کے اداروں کے ایک وسیع نیٹ ورک کی سر پرستی کرتے ہیں۔ ان پر حکومت کی جانب سے فوج کو حالیہ بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے اور اُنہیں ایک دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ جب باغی دستے شہریوں کے سامنے کمزور پڑے تو کئی ہزار فوجیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ ہزاروں سرکاری ملازمین اور اساتذہ کو برطرف اور کئی میڈیا ہائوسز کو بند کر دیا گیا۔
اب ترکی، امریکہ سے مفرور افراد کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اگرچہ رسمی طور پر حوالگی کی درخواست دی جاچکی ہے، لیکن عدالت کی جانب سے دستاویزات کی مکمل چھان بین ہونے تک امریکہ اس معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے جبکہ ترک صدر طیب اردوان نے ناکام بغاوت کو اپوزیشن کے سامنے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ داعش کو کچلنے کی مہم میں شامل ہو کر موصل کو آزاد کرانا ان کا ایک متنازعہ فیصلہ تھا۔ عراق نے ترکی کی دخل اندازی پر احتجاج کیا اور اس بات پر تشویش بڑھ رہی ہے کہ ترک سنی دستوں کی موجودگی فرقہ وارانہ تنائو کو مزید شدید کرے گی۔ یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ داعش کو موصل سے نکالا گیا تو عراقی 
دستوں اور شیعہ جنگجو ئوں کا ٹکرائو بڑی تعداد میں موجود سنی سویلینز کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ترکی کی جانب سے مزید سنی دستوں کے آنے سے یہ خدشہ بڑھ جائے گا۔ کرد جنگجوئوں کی دھمکیوںکی وجہ سے کچھ ماہرین اس بات کا اشارہ بھی دے رہے ہیں کہ موجودہ عراق قدیم عثمانیہ دور کی طرح کردش، شیعہ اور سنی صوبوں میں بٹ جائے گا۔ صدر اردوان نے ایک ریلی کے دوران ایک ایسا اشارہ بھی دیا تھا جب انہوں نے ہجوم کو یاد دلایا کہ موصل اور کوکک ماضی میں ہمارے علاقے تھے۔ ان کے لیے یہ صرف ترکی کی دخل اندازی کا ایک جواز تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سنطلت عثمانیہ 20 ملین مربع کلومیٹر سے سکڑ کر صرف 780,000 مربع کلومیٹر رہ گئی ہے جو موجودہ دور کاترکی ہے۔
طیب اردوان نسلی کشیدگی کا عنصر استعمال کرتے ہوئے عراق اور شام میں مداخلت کا جواز پیش کرتے ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ وہ ترکمان اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ان کی موجودگی کو جواز بنا کر کردوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ وہ ترک فوج کی موجودگی بڑھاتے ہوئے پی کے کے اوراس کی ذیلی شاخوں کو کمزور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ درحقیقت اُنھوں نے حال ہی میں نام نہاد 'نیشنل پیکٹ‘ کا اعلان کیا ہے جو ترکی کو جنوبی ہمسایہ ملکوں میں مداخلت کی اجازت دیتا ہے۔ یہ معاہدہ 1918ء میںکئے گئے ایک معاہدے کی یاد دلاتا ہے جب ترکی اور فاتح قوتوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ اُس وقت حلب اور موصل ترکی کا حصہ تھے، لیکن 1923ء میں ہونے والی Treaty of Lausanne نے عثمانی سلطنت کو تحلیل کردیا تھا اور اسی معاہدے کے تحت موصل کو عراق کے حوالے کردیا گیا تھا۔ اس وقت ترکی حلب کے گرد و نواح کے علاقے شام کے حوالے کرنے پرتیار ہوگیا تھا۔ 
یہ معاہدے اُس وقت طے پائے تھے جب ترکی شکست خوردہ اور کئی سالوں کی جنگ کے بعد نڈھال ہو چکا تھا۔ جدید ترکی کے بانی، مصطفی کمال ایک عملیت پسند رہنما تھے۔ وہ زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اُن کا ملک ان علاقوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے مزید جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت اُن کی پالیسی یہ تھی کہ ''گھر میں امن ہوگا تو باہربھی امن ہوگا‘‘۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر ملک کے داخلی معاملات درست ہیں تو اسے بیرونی محاذوں پر بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم اب طیب اردوان اپنی پالیسیوں سے اتاترک (مصطفی کمال) کی بصیرت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک محب ِوطن لیڈرکو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اُن حالات میں جنگ کرنی چاہیے تھی۔ قومی حلف کا بھی یہی تقاضا ہے۔ تو گویا طیب اردوان کے نزدیک مصطفی کمال نے امن معاہدہ کرکے حب الوطنی کو مشکوک بنادیا تھا؛ تاہم بات چونکہ اتاترک کی تھی، اس لیے ترک صدر نے کھلے الفاظ استعمال نہ کیے۔ 
ترکی میں اتاترک کے مجسمے اور تصاویر پورے ملک میںعوامی مقامات پر جا بجا ملتی ہیں۔ سکول کی ٹیکسٹ بکس ان کی تعریف سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ مصطفی کمال تھے جنھوں نے ترک آئین کو سیکولر بنایا۔ آج طیب اردوان اسے دوبارہ ''مشرف بہ اسلام ‘‘ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اُنھوں نے زندگی کے ہر شعبے کو اسلام کے رنگ میں رنگنا شروع کردیا ہے ۔ اس طرح اتاترک کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے طیب اردوان اُن کے سیکولر تصورات کی بیخ کنی چاہتے ہیں۔ اس وقت ترک سیاست کی یہ اہم ترین فالٹ لائن ہے۔ چونکہ خطے میں ترکی کے لیے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور اس کے دیرینہ امریکی اتحادیوں نے شامی کردوں کے حوالے سے ترکی کی پالیسی سے خود کو دور رکھنا شروع کردیا ہے، تو اس وقت طیب اردوان روس، اسرائیل اور مصرکے ساتھ روابط بڑھانے کی سعی میں ہیں۔ خاص طور پر ترکی واشنگٹن کے ساتھ ناراض ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ گزشتہ شب خون میں گولن کا ہاتھ تھا اور امریکہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 
پی کے کے اور داعش کے خلاف جاری مہم کے دوران ترکی نے اپنی پالیسی کی قیمت کو اجاگر کردیا ہے۔ اگرچہ پی کے کے نے پولیس اور فوجی اہل کاروں پر حملے کیے ہیں، داعش کے حملوں کا کوئی مخصوص ہدف نہیں ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں ترکی میں سیاحوں کی آمد کم ہوچکی ہے؛ چنانچہ اس کے محصولات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اگرچہ یہ ایک عارضی مسئلہ ہے اور اس پر قابو پایا جاسکتا ہے، تاہم حقیقی مسئلہ ترکی کے سیاسی اہداف ہیں۔ اردوان انقرہ میں ایک ہزار کمروں کے محل سے خود کو عثمانی دور کا پاشا سمجھتے ہیں۔ اُن کی آمرانہ اقدامات کسی طور پر جمہوریت سے لگا نہیں کھاتے۔ کبھی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بننے کا حقدار اور اسلامی دنیا کے لیے جمہوریت کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا، لیکن اب یہ ملک تیزی سے جابرانہ آمریت کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ افسوس، طیب اردوان اس تاثر کو بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں