امریکہ کے کمزور ہوتے ایشیائی الائنس

زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور تھا اور دنیا بھر میں اس کی عملداری تسلیم کی جاتی تھی، یا یوں کہہ لیں گن پوائنٹ پر تسلیم کرائی جاتی تھی۔ اس کی جنگی مشین کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔واشنگٹن دنیا کے ہر کونے میں نرم یا سخت پاور استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ درحقیقت سوویت یونین کے انہدام ، جس کی وجہ اس کی اپنے حریف سے مسابقت کی کوشش تھی، کے بعد زیادہ تر لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرچکے تھے کہ آنے والے طویل وقت تک امریکہ کی عالمی حکمرانی کے سامنے سر خم کیے بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا۔ 
تاہم اگر تاریخ ہمیں کچھ سکھاتی ہے تو یہ کہ کچھ بھی مستقل نہیں، اور یہ کہ دنیا میں تغیر ہی کو دوام حاصل ہے ۔ نوّے کی دہائی سے کئی ایک علاقائی طاقتوں اور غیر ریاستی عناصر نے واشنگٹن کو چیلنج کیا۔اگرچہ امریکی فورسز روایتی چیلنجز سے نبر د آزما ہونے کی بے حد صلاحیت رکھتی تھیں لیکن واقعات نے ثابت کیا کہ اُنہیں افغانستان اور عراق میں جس قسم کی صورت ِحال کا سامنا تھا،وہ اس کے لیے تربیت یا تیار ی نہیں رکھتی تھیں۔ درحقیقت امریکی فوجی مہموں کے نتیجے میں بے پناہ مزاحمت شروع ہوئی اور افراتفری پھیلی۔ ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے امریکیوں نے ایسے اقدامات اٹھائے جن سے ان میں اضافہ ہوتا گیا۔ مشرق میں چین اور مغرب میں روس مختلف قسم کی سیاسی پیچیدگی کے حامل مسائل کے ساتھ امریکہ کے سامنے کھڑے ہوگئے ۔ 
اس وقت جبکہ امریکی غیر ملکی محاذوں کے الجھائو سے تنگ آچکے ہیں، واشنگٹن بے تابی سے کوشش کررہا ہے کہ اس کے اتحادی عالمی پولیس مین بننے کے اس کے خبط کا کچھ بوجھ اٹھا لیں۔ تاہم اس کے لیے موجودہ تعلقات کو قائم رکھنا بھی مشکل ثابت ہورہا ہے ۔ ایک اہم عرب کی مثال لے لیں، کئی سالوں سے آمرانہ رویوں کی حامل اس مملکت نے لابنگ اور امریکی سیاست دانوں کو رام کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کیے ۔ اس نے اربوں ڈالر کا امریکی اسلحہ خریدا جسے درست طریقے سے استعمال کرنا بھی اس کے بس سے باہر ہے ۔ اس فیاضی(جسے اس کے ناقدین رشوت قرار دیتے ہیں) کے نتیجے میں اس ملک کو امریکہ کی سفارتی اور عسکری پشت پناہی حاصل رہی۔ اس دوران امریکہ بھی اس ملک کی طرف سے اسلامی دنیا میں اپنے جہادی مسلک کے پھیلائو پر خاموش رہا۔ تاہم جب امریکی توانائی کے معاملے میں خود کفیل ہوگئے تو واشنگٹن کو اس عرب ریاست کے تیل کی ضرورت نہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ریاض اور تل ابیب کے مشورے کو مسترد کرتے ہوئے ایران پر بمباری نہ کی ۔ اس کی بجائے واشنگٹن نے تہران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرلیا۔ اس پر عرب دوست بھنا اُٹھے اور واشنگٹن سے پیچھے ہٹنے لگے ۔ چنانچہ اُنھوںنے امریکہ کے ساتھ مل کر داعش پر بمباری کرنے کی بجائے ایک کمزور سی ریاست، یمن پر بمباری شروع کردی۔ 
امریکہ کا ایک اور قریبی اتحادی، ترکی بھی روس کے قریب آتا جارہا ہے ۔ اس طرح امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ، جان کیری کو ایسا کولیشن ترتیب دینے میں دشواری کا سامنا ہے جو شام میں انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیارہو۔ امریکہ سے عشروں تک سالانہ دوبلین ڈالر وصول کرنے والے مصر نے حال ہی اقوام ِ متحدہ میں روسی قرار داد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس پر مصر نے امریکیوں کو ناراض کردیا ۔ ان تبدیلیوںکے نتیجے میں اب امریکی مشرق ِوسطیٰ کا تھانیدار نہیں رہا ، اب شام میں روس کا حکم چلتا دکھائی دیتا ہے ۔ مشرق میں چین بھی جنوبی سمندر میں اپنے بازوں کی طاقت دکھانے پر آمادہ ہے ۔ وہ چھوٹے چھوٹے جزیروں پر اپنے بیس قائم کرکے سمندر کے بڑے حصے کو اپنی حدود میں شامل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جاپان، فلپائن ، ملائیشیا اور ویت نام کا تعاون حاصل کرتے ہوئے واشنگٹن چین کی پیش قدم کو روکنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔ تاہم حال ہی میں فلپائن کے صدر روڈریگو ڈیوٹرٹ نے ایک معاہدے کے تحت چین سے اجازت لی کہ وہ متنازع ساحلوں کے قریب اُس کے ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے کی اجازت دے دے۔ اس معاہدے نے اس علاقے پر ایک طرح سے چینی تسلط کو تسلیم کرلیا ۔ اس پیش رفت نے امریکی موقف اور کوشش کو کمزور کردیا ہے ۔ درحقیقت عالمی عدالت نے چین کے دعوے کو جھٹلا دیا تھا لیکن چین نے فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ فلپائنی صدر نے بیجنگ کے ساتھ چوبیس بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت چین فلپائن میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کرے گا۔ اس کا صاف مطلب فلپائن اور امریکہ کے طویل تعلقات کا اختتام ہے ۔ اس سے پہلے مسٹر ڈیوٹرٹ کے منہ سے صدر اوباما کے لیے نازیبا جملہ بھی سنائی دیا تھا۔ امریکہ اور فلپائن کے درمیان اس تنائو کی ایک وجہ صدر ڈیوٹرٹ کی منشیات کے عادی افراد اور سمگلروں کو ماورائے عدالت ہلاک کرنے کی پالیسی ہے جس کا امریکہ شدید ناقد ہے ۔ چین کو ظاہر ہے کہ اس پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں۔ 
کچھ رپورٹس کے مطابق ملائیشیا بھی اپنے الائنس پر نظر ِ ثانی کرنے کا سوچ رہا ہے ۔ اس کی وجہ ہے کہ واشنگٹن ملائیشیا کے وزیر ِاعظم، نجیب رازق کے خلاف ایک بلین ڈالر مالیت کے اسکینڈل کی تحقیقات کررہا ہے۔ اس پر مسٹر رازق سخت غصے میں ہیں۔درحقیقت چند ماہ پہلے سامنے آنے والے اس سکینڈل نے ملائیشیا کو ہلاکررکھ دیا تھا۔ نجیب رازق کی پرزور تردید کے باوجود رقم کا کھوج لگایا جارہا ہے ۔ امریکہ پر عدم اعتماد کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ وہ جغرافیائی طورپر ان ممالک سے بہت دور ، جبکہ چین بہت قریب ہے ۔ درحقیقت ان چھوٹی ریاستوں کے بلاک میں چین عقربی جسامت والا ایک دیوہیکل ملک ہے ، چنانچہ علاقائی ریاستیںبیجنگ کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اس کے علاوہ چین ان ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کی پالیسی رکھتا ہے ۔
صدر اوباما کی مشہور پالیسی''ایشیا کی طرف جھکائو‘‘ کے باوجود امریکہ کے ایشیائی حلیفوںسے روابط کمزور تر ہوتے جارہے ہیں ۔ ایک حوالے سے اس سے چین اور روس کے عالمی طاقتیں بن کر ابھرنے اور خطے میںامریکہ کو چیلنج کرنے کا واضح ثبوت ملتا ہے ۔ اگرچہ یہ دونوں مل کر بھی فی الحال امریکہ کی فوجی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتیں لیکن تزویراتی طور پر وہ واشنگٹن کے مطالبات کو خاطر میں لاتی دکھائی نہیں دیتیں۔ جزوی طور پر اس سے امریکہ کی کمزور ہوتی ہوئی معاشی طاقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ اگرچہ وہ ابھی بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے ، لیکن چین تیزی سے اس کے مقابلے پرکھڑا ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ مسلسل پندرہ سالوں سے جاری فاصلاتی جنگوں نے اس کے عوام کو زچ کردیا ہے ۔ اب وہ مزید بیرونی محاذ کھولنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان جنگوں سے امریکی خزانے خالی کرنے کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔ 
اگرچہ یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ بطور ایک سپرپاور، امریکہ کے دن گنے جاچکے ، لیکن عالمی طاقت کی تقسیم کا واضح رجحان دکھائی دیتاہے ۔ سرد جنگ کے دوران قائم ہونے والا دوعالمی طاقتوں کے درمیان توازن کی فضا کا زمانہ لد چکا، اب ہم طاقت کو خطرناک طریقے سے تحلیل ہوتے اور مختلف ہاتھوں میں جاتے دیکھ رہے ہیں۔ مستقبل کے استحکام کا دارومدار اس بات پرہوگا کہ دنیا اس نئی حقیقت کے ساتھ کس طرح سمجھوتہ کرتی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں