بورس جانسن کی غیر محتاط سفارت کاری

کارڈز کے ہر پیک میں دو جوکر آتے ہیں۔ آج کل عالمی سطح پر یہ کردار ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن ادا کر رہے ہیں۔ جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے تو وہ کسی کو جواب دہ نہیں، لیکن بورس جانسن، جنہیں برطانوی پریس میں 'بوجو‘ (Bo Jo) کے نام سے جانا جاتا ہے، نے البتہ ایک سخت گیر باس کو رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے۔ بریگزٹ کے بعد ڈیوڈ کیمرون اپنے منصب سے الگ ہوئے تو ٹریسا مے نے وزارت عظمیٰ سنبھالی۔ اُس وقت جب بو جو کو سیکرٹری خارجہ نامزد کیا گیا تو کسی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس فیصلے پر طنزیہ فقرے بازی سنائی دی۔ بورس جانسن، جنہوں نے ریفرنڈم کے دوران یورپی یونین سے نکل جانے کے موقف کی حمایت میں بھرپور مہم چلائی تھی، کمیرون کے استعفے کے بعد وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے، لیکن اس مرحلے پر اُن کے اہم اتحادی، مائیکل گوو نے اُن کی ٹانگ کھینچتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ خود بھی اسی عہدے کے امیدوار ہیں۔ اس مضحکہ خیز صورت حال نے مس مے کو اہم ترین امیدوار بن کر ابھرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ 
ٹرمپ اور جانسن میں اپنے چمکدار سنہرے بالوں پر غرور کے علاوہ مشترکہ چیز نتائج کی پروا کیے بغیر الفاظ کی چاند ماری ہے۔ دونوں رہنما جو منہ میں آتا ہے، بے دریغ کہہ ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جانسن بعض مواقع پر مشکلات میں بھی گھِر جاتے ہیں۔ ڈیلی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے اپنے ہفتہ وار کالم میں ایک مرتبہ اُنھوں نے ہلری کلنٹن کو ''پاگل خانے کی اذیت پسند نرس‘‘ قرار دیا تھا۔ طربیہ طبیعت رکھنے والے برطانوی سیکرٹری خارجہ اس مرتبہ پھر مشکل میں ہیں کیونکہ اُنھوں نے مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشمکش میں ایک اہم عرب ملک کے کردار پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کر ڈالا ہے۔ اُنھوں نے اس ملک کی حکومت پر کئی الزامات بھی لگائے۔ ابھی اُنھوں نے روم میں ہونے والی ایک بحث میں ان خیالات کا اظہار کیا ہی تھا کہ برطانوی وزیرِ اعظم کے دفتر کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ یہ مسٹر جانسن کے ذاتی خیالات ہیں، سرکاری موقف نہیں؛ چنانچہ حکومت ان سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے۔ 
جس دوران اُنہیں اس عرب ملک، جو طویل عرصے سے برطانیہ کا اتحادی رہا، کے کردار پر کھل کر بات کرنے اور برطانیہ کی طے شدہ خارجہ پالیسی سے انحراف کی پاداش میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، بہت سے برطانوی شہریوں نے اُن کے دوٹوک موقف کو پسند بھی کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ خارجہ پالیسی جو بھی ہو، کچھ جارحانہ اقدامات پر پارلیمنٹ اور میڈیا میں بھی تنقید کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی فروخت سے برطانیہ کی اسلحہ ساز انڈسٹری متحرک رہتی ہے، ملازمت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور حکومت بھاری نفع کماتی ہے؛ چنانچہ خطے میں جو کچھ ہوتا ہے‘ اس سے اغماض برتا جا سکتا ہے۔ 
دوسری طرف بورس جانسن نے پارلیمنٹ میں بیان دیا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک بارات پر بمباری کی تحقیقات کا وعدہ کیا گیا ہے جس میں ایک سو چالیس افراد ہلاک ہو گئے تھے؛ ایسی کسی انکوائری پر یقین کرنا ایسے ہی ہو گا جیسے یہ تسلیم کرنا کہ آمرانہ ممالک میں جمہوری قدریں رائج ہو چکی ہیں اور وہاں خواتین کو دیگر حقوق کے علاوہ ووٹ دینے کا حق مل گیا ہے۔ اس ویک اینڈ پر بورس جانسن سعودی عرب کے دورے پر ہوں گے تو یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اس گرما گرم بحث کے بعد وہ وہاں کیا کرتے ہیں۔ 
ٹریسا مے نے بریگزٹ پر مذاکرات کرنے کے لیے فارن اور کامن ویلتھ آفس کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس عمل نے بورس جانسن کی اتھارٹی کو کم کر دیا ہے۔ ایک حالیہ فنکشن میں ٹریسا مے نے کہا کہ کنزرویٹو پارٹی کے ایک اہم عہدے دار، مائیکل ہیزلٹائن نے ایک بوڑھے کتے کو ہلاک کر دیا ہے۔ پھر اُنھوں نے بورس جانسن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ ''یاد رکھو بورس، جب ایک کتا مفید نہ رہے تو اُسے ہلاک کرنا ہی پڑتا ہے‘‘۔ بورس جانسن، جو دوسروں کا مذاق اُڑانے کے عادی تھے، اب وہ خود کو مذاق کا نشانہ پاتے ہیں۔ اگر بورس جانسن مذاق کا اسی طرح نشانہ بنتے رہے تو اُن کے لیے بیرونی حکومتوں کے ساتھ بات چیت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ یورپی دارالحکومتوں اور دیگر ریاستوں میں بورس کو سنجیدگی سے کوئی نہیں لیتا۔ اگرچہ اُن کی فطری ظرافت اور لاابالی پن نے برطانوی ووٹروں کو متاثر کیا‘ لیکن سفارتی سطح پر دیگر ریاستوںکے ساتھ یہ رویہ نہیں چل سکتا۔ جب اُنھوں نے ریفرنڈم کے دوران یورپی یونین سے نکل جانے کی بھرپور مہم چلائی ہو تو پھر اُن کے منہ سے ''نرم بریگزٹ‘‘ کی بات کھوکھلی محسوس ہوتی ہے۔ اس مہم کے دوران اُنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلنے کے بے پناہ مالی فوائد حاصل ہوں گے۔ اب یورپی یونین کے افسران نے اُنہیں دوٹوک انداز میں بتا دیا ہے کہ وہ ''نرم بریگزٹ‘‘ کی توقع نہ کریں۔ 
بورس جانسن کو مذکورہ بالا ملک کے حوالے کھل کر موقف کا اظہار کرنے کے بعد احساس ہوا ہو گا کہ جب سرکاری موقف کچھ اور ہو تو پھر ایسے بیانات دینے سے گریز ہی بہتر ہوتا ہے۔ یقینا سفارت کاروں کو سچ بولنے کی تنخواہ نہیں ملتی، اُنھوں نے سرکاری موقف کو ہی آگے بڑھانا ہوتا ہے، چاہے وہ خود اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔ کئی سالوں تک سفارت کار اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے رہے، حالانکہ دنیاکے پاس اس کے برعکس شواہد موجود تھے۔ بورس جانسن بھی سچائی کے بہت بڑے علم بردار نہیں۔ اُنھوںنے بھی بریگزٹ ریفرنڈم کے دوران برطانوی رائے دہندگان سے جھوٹ بولا تھا کہ اگر وہ یونین کے ساتھ رہے تو ترکی سے لاکھوں تارکین وطن کا سیلاب برطانیہ میں داخل ہو جائے گا۔ اُنھوں نے اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ ترکی کسی طور یورپی یونین کا رکن بننے کے قریب نہیں تھا۔ ستم یہ کہ اب بطور سیکرٹری بورس کا موقف ہے کہ وہ ترکی کو یونین کی رکنیت دلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ عالمی سفارت کاری کے آداب اور اصول اپنی جگہ پر، یہ بات طے ہے کہ بورس جانسن کی اور ٹرمپ کی وجہ سے سفارت کاری کے سرد مہر میدان میں بھی شگوفے پھوٹتے رہیں گے۔ عالمی سیاسی حالات نہ تبدیل ہوں‘ تو بھی کچھ بوریت تو دور ہو گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں