اگر کوا کالا ہوسکتا ہے تو تیتر کیوں نہیں؟

امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات نے واشنگٹن میں تھرتھلی مچا دی۔ ٹیکساس سے ریپبلکن کے نمائندے اور ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے چیئرمین، مائیکل میک کال نے گرجتے ہوئے کہا۔۔۔''ہم غیر ملکی حکومتوں کو اپنی جمہوریت میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتے ۔‘‘ایک اور ری پبلکن سینٹر، چارلس سکمیر (Charles Schumer)نے دہائی دی۔۔۔''کسی بھی ملک کی ہمارے انتخابی عمل میں مداخلت دونوں سیاسی جماعتوں کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دے گی ۔‘‘
صدر اوباما نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ایجنسیوںکو ایک دوسرے کے معاملات میں تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔ کانگرس کے نگران کمیشن کی تحقیقات کی بھی بات ہورہی ہے ۔ اگرچہ روسیوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ٹرمپ کی کامیابی چاہتے تھے کیونکہ ہلری کلنٹن ولادیمر پیوٹن کے لیے دشمنی کے جذبات ضرور رکھتی ہیں۔ روس اور امریکی رقابت کے اس تازہ ترین واقعے کے پیچھے جو بھی حقیقت ہو، اس میں ایک لذیذ ستم ظریفی ضرور ہے ۔ امریکہ عشروںسے دنیا بھر میں سیاسی مداخلت کا ارتکاب کرتا رہا ہے ، جس میں نہایت سفاک اور عوام دشمن بادشاہوں اور آمروں کی پشت پناہی کرنا، منتخب حکومتوں کو گرانا اور سیاست دانوں کی وفاداری خریدنا شامل ہے ۔ 
اب اچانک کسی اور نے سی آئی اے کا شروع کردہ کھیل کھیلا تو چیخ و پکار شروع ہوگئی ۔ کالم میں جگہ کی قلت کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں امریکہ کی دیگر ممالک میں کی جانے والی مداخلت کی پوری تفصیل بیان کرتا۔ بیرونی ممالک میں سی آئی اے کا مشکوک کرداربھی ڈاکومنٹ کیا گیا ہے ۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسے خفیہ آپریشنز کے ناپسندیدہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ امریکہ کی ایران، کانگو اور چلّی میں مداخلت کے نتائج کی تمازت آج عشروں بعد بھی محسوس کی جارہی ہے ۔ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کی جانے والی مداخلت کی وجہ سے پورا خطہ عدم استحکام سے دوچار ہوااور ان ممالک کا سیاسی عمل پٹری سے اتر گیا۔ 
شاید سب سے بدنام مداخلت ایران میں دیکھنے میں آئی جب 1953 ء میں ایک مقبول منتخب شدہ وزیر ِاعظم، محمد مصدق کو سی آئی اے کی شہ پر مارے جانے والے شب خون کے نتیجے میں ہٹایا گیا۔ اس سے رضا شاہ پہلوی کا طویل اور اذیت ناک اقتدارشروع ہوا۔ رضا پہلوی کا جابرانہ دور آخر کار 1979 ء کے اسلامی انقلاب کے ہاتھوں انجام کو پہنچا۔ اگر امریکی، جنہیں اس کاوش میں برطانیہ کا تعاون بھی حاصل تھا، ایک مقبول لیڈر کو منصب سے نہ ہٹاتے تو آج نہ صرف ایران ایک جمہوری ملک ہوتا بلکہ خطے کی تاریخ بھی مختلف ہوتی ۔ اسی طرح سی آئی اے نے چلی میں جنرل آگسٹو پنوشے کو 1973ء میں شب خون کے ذریعے منصب سے ہٹا کر ہلاک کرا دیا۔ اس کے نتیجے چلّی میں ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے ۔ بہت سے دیگر کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ 1961 ء میں کانگو کے پیٹرک لوممبا کو اقتدار سے ہٹانے اور ہلاک کرنے کی کارروائی کے پیچھے سی آئی اے کا واضح ہاتھ تھا۔ 
کئی عشروں تک سرد جنگ کوجواز بنا کر ایسی مداخلتوں کی وکالت کی جاتی رہی ۔امریکہ کے کمیونسٹ مخالف ایجنڈے کوآگے بڑھانے کے لیے پاکستان میں ایوب خان، جنرل ضیا اور یحییٰ خان جیسے آمروں کو سہارا دیا گیا۔ سوویت یونین کے انہدم کے بعد ''دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘ دیگر ممالک میںامریکی مداخلت کو جواز فراہم کرنے لگی ۔ حکومت کا تختہ الٹ کر اپنے پٹھوئوں کی حکومت قائم کرنے کے علاوہ امریکیوں نے دنیا بھر میں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا بھی خود پر فرض کرلیا۔ تاہم 
اس میدان میں وہ اکیلے نہ تھے۔ علم ِ سیاسیات کے ایک دانشور، ڈولیون کے مطابق 1946ء سے لے کر2000ء کے درمیان سوویت یونین (بعد میں روس) اور امریکہ دنیا بھر میں ہونے والے کم از کم 117 انتخابات پر اثر انداز ہوئے ۔ یہ اوسط ہر نو میں سے ایک اہم الیکشن بنتی ہے ۔ ایسا صرف تیسری دنیا میں ہونے والے انتخابات میں ہی نہیں ہوا،1948 ء میں نئی تخلیق شدہ سی آئی اے نے اپنا پورا وزن مسیحی ڈیموکریٹس کے پلڑے میں ڈال کر بائیں بازو کے اتحاد کے لیے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ناممکن بنا دیا۔ اس مقصد کے لیے سی آئی اے نے اتحادیوں کو کئی ملین ڈالر فراہم کیے ۔ 
واشنگٹن پوسٹ میں احسان تھرور لکھتے ہیں۔۔۔''سی آئی اے کے ایجنٹ، ایڈورڈ جی لینسڈلے ، جنھوں نے اپنی بدنام زمانہ کوششوں کے ذریعے شمالی ویت نام کی حکومت کو گرایا تھا، نے فلپائنی صدر، رامن موگسیسے (Ramon Magsaysay) کو جیتنے میں مدد فراہم کی۔ جاپان میں مرکزی دھارے کی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کو بھی امریکی سی آئی اے کی طرف سے 1950-60ء کی دہائیوں میں بھاری فنڈزملے ۔ امریکی حکومت اور امریکی آئل کارپوریشنز نے لبنان میں مسیحی پارٹیوں کی 1957ء کے اہم انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنایا۔ اس مقصد کے لیے اُن کی تجوریوں کو ڈالروں سے بھر دیا گیا۔ ہنری کسنجر سے منسوب ایک بیان بہت مشہور ہوا تھا۔۔۔''میں نہیں سمجھتا کہ کسی ملک کے عوام کی حماقت کی وجہ سے اس کو کمیونسٹ حلقے میں جاتے دیکھ کر ہمیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ‘‘چلّی میں ہونے والے انتخابات میں سی آئی اے کی طرف سے چارملین ڈالر خرچ کرکے الندے (Allende) کا راستہ روکنے کے پیچھے اسی سوچ کی کارفرمائی تھی ۔ وہ ایک مقبول سوشلسٹ لیڈر تھے اور امریکہ کو اُن کی کامیابی کسی طور پر گوارا نہ تھی۔ 
جب چینی حکومت پر نوّے کی دہائی میں امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام لگا تو ایک امریکی دانشور ، پیٹر کرونبلے نے کہا تھا۔۔۔''اگر چینیوں نے واقعی انتخابات میں مداخلت کی ہے تو اس کامطلب ہے کہ امریکیوں نے اپنی تیار کردہ دوائی ہی چکھی ہے ۔ چین نے صرف امریکہ کی دیرینہ روارکھی گئی پالیسی کی مہذب انداز میں نقل کی ہے ‘‘۔2000 ء میں الگور صرف چند سوووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے ۔یہ فرق فلوریڈا میں پڑا تھا جہاں جارج ڈبلیو بش کے بھائی ، جیب بش گورنر تھے ۔ وہاں الیکشن سے پہلے ووٹوں کی گنتی کرنے والی 83 مشینیں اچانک خراب ہوگئی تھیں۔ چنانچہ روس پر انتخابات میں مداخلت کا الزام سن کر عقل حیران ہے کہ جو چیز ایک فریق کے لیے درست ہے ، وہ دوسرے کے لیے کیوں نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں