ان کے بل کون ادا کرتا ہے؟

سابق صدر زرداری ایک سال سے زائد عرصے پر محیط خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد اپنے نجی طیارے میں کراچی واپس لوٹ آئے ۔ میڈیا میں ان کی سیاسی حکمت ِعملی کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ سیاسی پنڈت آنے والے مہینوں میں ان کی ترجیحات کے بارے میں اندازہ لگانے کی کوشش میں ہیں؛ تاہم میرے پیش ِ نظر معاملہ یہ ہے کہ طیارے کے لیے اخراجات کس نے ادا کیے ؟صرف طیارے کے ہی نہیں، موصوف کے دبئی، لندن اورنیویارک جیسے مہنگے مقامات پر اتنا عرصہ قیام کے لیے رقم کہاں سے آئی ؟
میری اس الجھن کی وجہ یہ ہے کہ زرداری صاحب خود پرکئی عشروںسے لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ تو اگر ، جیسا کہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ہاتھ صاف ہیں تو کیا وہ وضاحت فرما ئیں گے کہ یہ رقم کہاں سے آئی ؟یہ سوال صرف آصف علی زرداری سے نہیں ، زیادہ تر سیاسی طبقے سے ہے جس کے بظاہر ذرائع آمدن کچھ نہیں ہوتے لیکن وہ نہایت شاہانہ گھروں میں رہتے ہیں، مہنگی گاڑیاں چلاتے ہیںاور فرسٹ کلاس میںفضائی سفر کرتے ہیں۔ اُن کے غیر ملکی دورے زندگی کے معمولات میں شامل ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ارکان ِ اسمبلی کو تنخواہ ملتی ہے، اور جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا تو پھر مفت رہائش کی سہولت بھی ملتی ہے ۔ اس کے باوجود اُنھوں نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کا بل پاس کیا ، لیکن یہ اضافہ ان کی شاہانہ زندگی پر اٹھنے والے اخراجات نامی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے ۔ چنانچہ بنیادی سوال اپنی جگہ موجودہیں کہ ان کے بل کون ادا کرتا ہے ؟
ایم کیو ایم کے باس، الطاف حسین کی مثال لے لیں۔ وہ کم و بیش ایک ربع صدی سے لندن میں مقیم ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ میزبان حکومت کی طرف سے ملنے والے الائونس پر گزارا کرتے رہے ہیں۔ لندن پولیس نے اُن کی وسیع وعریض رہائش گاہ سے نصف ملین پائونڈ برآمد کیے تھے ۔ چلیں میں اپنی کم علمی یا سادہ لوحی کا اعتراف کرلیتا ہوں، لیکن کیا ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والا کوئی مجھے بتائے گا کہ اُن کے باس کی شاہانہ زندگی کے لیے رقم کہاں سے آتی ہے؟ ہمارے دیگر سیاسی بقراط بھی مہنگی گاڑیاں چلاتے ہیں، تواتر سے فضائی سفر کرتے ہیں اور ان کے چہرے سے زندگی کے کسی موقع پر آنے والی مالی تنگی کا کوئی شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ ان کے صحت مند، بلکہ فربہ اندام جسم ان کی خوش خوراکی کا برملا اظہار ہیں تو اس زندگی کے اخراجات کون اٹھاتا ہے ؟مولانا ڈیزل اور مولانا سینڈوچ کے القاب سے سرفراز مولانا کے ذرائع آمدنی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔ 
اور پھر وزیر ِاعظم پاکستان، نواز شریف اپنی مثال آپ ہیں۔ آج کل اُن کی ملکیت کے بارے میں کافی ابہام پایا جاتاہے ، لیکن اس بات پر کوئی پیشانی شکن آلود نہیں ہوتی کہ وہ اپنی زندگی گزارتے کس طرح ہیں۔ اس پر بہت کم افراد کو شک ہے کہ جب وہ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں پنجاب کے فنانس منسٹر اور وزیر ِاعلیٰ تھے تو اُنہی ادوار میں ان کے خاندان کے مالی وسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس پر اُن کے حامی کہتے ہیں کہ حکمرانوں کا اتنا اثر تو ہوتا ہی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین، عمران خان اس پرچیلنج کرتے ہوئے بدعنوانی کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن یہی سوال تو اُن کے اپنے بارے میں بھی کھڑا ہوجاتاہے کہ جب وہ گزشتہ دوعشروںسے کرکٹ چھوڑ چکے ، اور وہ کمرشل بنیادوں پر کمنٹری بھی نہیں کرتے تو پھر ان کی شاہانہ زندگی کا بل کون ادا کرتا ہے ؟یاد رہے، میں اُن کے ذاتی کھانے پینے اور دیگر عام ضروریات زندگی کے بل کی ادائیگی کا نہیںکہہ رہا۔ان کے ادا کردہ ہر لفظ اور لگائے گئے ہر پش اپ کی میڈیا کوریج سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد کے مضافات ، بنی گالہ میں ان کی وسیع وعریض رہائش گاہ پر سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کا ہمہ وقت ہجوم رہتا ہے ۔ اسلام آباد کو بند کرنے کی حالیہ دھمکی کے دوران ہم نے دیکھا تھا کہ اُن کے سینکڑوں کارکن بنی گالہ کے احاطے یا اردگرد موجود تھے اور اُن کے لیے کھانے پینے کا اہتمام کیا گیاتھا۔ اچھی بات، لیکن اس پر لاکھوں کا خرچہ آیا ہے۔ تاہم رقم گنتا کون ہے ؟
جاگیردار سیاست دان پرتعیش طرز ِ زندگی رکھتے ہیں۔ انہیں اکثر بنک سے بھاری قرضے بھی مل جاتے ہیں جو اُنھوںنے کبھی ادا نہیں کرنے ہوتے ،کیونکہ اقتدار میں آتے ہی وہ اُنہیں معاف کرالیتے ہیں۔ اس کے بعد لائسنس، پلاٹ، ٹھیکے اور پرمٹ سے اُن کی چاندی ہو تی رہتی ہے ۔اس کے بعد پس ِ منظر میں موجود طاقتیں بھی ان سیاست دانوں کو فنانس کرتی رہتی ہیں۔ روزی روٹی کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ بل کون ادا کرتا ہے ؟یہ صر ف سیاسی طبقے ہی کی بات نہیں جس کی پانچوںگھی میں ہیں، بلوچستان کے فنانس سیکرٹری، مشتاق رئیسانی کو دیکھ لیں ، جن کی کوئٹہ میں رہائش گاہ سے 720 ملین روپے برآمد ہوئے۔ انسداد دہشت گردی کے افسران کو رقم گننے کے لیے مشینیں منگوانی پڑیں۔ یہ کیش تھا، ابھی اس میں خریدے گئے مکانات اور غیر ملکی کرنسی کی صورت بیرونی ممالک میں چھپائی گئی رقم شامل نہیں۔ تاہم یہ بھی کوئی منفرد کیس نہیں۔ رئیسانی صرف اُن چند سرکاری افسر ان میں سے ایک ہیں جو پکڑے گئے ۔ اس کے بعد نیب کے ساتھ پلی بارگین ڈیل کرتے ہوئے اُنھوں نے سرکاری خزانے میں دو بلین روپے جمع کرادیے۔ یہ گمان نہ کریں کہ اُنہیں باقی زندگی دوست احباب سے پیسے مانگ کر بسر کرنی پڑے گی۔ 
بہت سے صنعت کار بدعنوانی کے بارے میں شکایتیں کرتے رہتے ہیں ، لیکن وہ بھی اپنے کام نکالنے کے لیے رشوت دینے ، ٹیکس چوری کرنے اور بنک سے لیے گئے قرضے معاف کرانے یا پرمٹ لینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو یہ کہتے بھی سنائی دیتے ہیں کہ وہ ٹیکس اس لیے ادا نہیں کرتے کیونکہ وہ حکومت کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے ۔ بعض مذہبی رہنما سمگلنگ کا جواز فراہم کرتے ہیں کہ اس کی کوئی ممانعت نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں سے کئی ایک جدید ریاستوں کی سرحدوں کو نہیں مانتے ۔ اس کے بعد ہر سطح پر رشوت دکھائی دیتی ہے ۔ بدعنوانی سے حاصل کیے گئے پرمٹ کا بل پاس کرانے کے لیے پھر رشوت دینی پڑتی ہے ۔ اور تو اور، عام شہریوں کو اپنے جائزکام کرنے کے لیے بھی سرکاری اہل کاروں کوخوش کرنا پڑتا ہے ۔ برس ہا برس تک ملازمت کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کے کاغذات تیار کرانے اور پنشن کا جلد اجرا یقینی بنانے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے ۔ عموما ً ایسی رشو ت کو گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ جب معاشرہ بدعنوانی کے لیے گنجائش پید اکرنے کا ماہر ہو تو ہمیںدیمک زدہ ادارے دیکھ کر حیران نہیں ہونا چاہیے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں