عمران خان صاحب کی سیاست کچھ ایسے کیمیائی اور طبیعاتی عناصر کا مرکب ہے جو ہماری نہایت ہی مشّاق سیاسی تجربہ گاہ کے لیے بھی عجوبے سے کم نہیں۔
جمہوری سیاست بالعموم فراخ قلبی‘ کشادہ ظرفی‘ نرم خوئی اور ایثار کیشی کا تقاضا کرتی ہے۔ تحمل‘ لچک‘ مفاہمت‘ مصلحت‘ مروّت‘ بردباری‘ رواداری اور خوئے دلنوازی اس کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ عمران خان کی لغتِ سیاست ان الفاظ وتراکیب سے ناآشنا ہے۔ عمران خان کی افتادِ طبع میں ''یا اپنا گریباں چاک‘ یا دامنِ یزداں چاک‘‘کا ایک ایسا خودکار میکانکی نظام کارفرما ہے جو ٹھہرائو کے ایک خاص درجۂ سکوں تک پہنچتے ہی متحرک ہوجاتا اور اُن کے لہو کو گرم رکھنے کا کوئی بہانہ دے جاتا ہے۔ خان صاحب کے بقول تقریباً پونے چار برس کی حکمرانی‘ اُن کی چھبیس سالہ طویل اور صبرآزما جدوجہد کا ثمرتھی۔ تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی۔ اُن کی چھبیس سالہ سیاست میں ہمیں طوالت تو نظرآتی ہے لیکن صبرآزمائی اور جُہدِ مسلسل نام کی کوئی شے نہیں ملتی۔ اپریل 1996ء میں انہوں نے تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی۔ اگلے ہی برس 1997ء میں انتخابات کا نقارہ بجا۔ عمران خان اکھاڑے میں اترے۔ خود بھی ہار گئے اور پارٹی کے تمام نامزد امیدوار بھی۔ پہلا ہی تجربہ منہ کا ذائقہ خراب کرگیا۔ پارٹی کی عمر صرف تین سال تھی جب 1999ء میں خان صاحب کا پالا پہلے بڑے امتحان سے پڑا۔ پرویز مشرف نے آئین توڑ ا‘ حکومت کا تختہ اُلٹا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ عمران خان نے آئو دیکھا نہ تائو‘ اپنی نوزائیدہ انقلابی جماعت کا توشہ خانہ اٹھایا اور آمر کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ اُن کی ''طویل اور صبرآزما‘‘ جدوجہد کا پہلا سنگِ میل تھا۔ جمہوری تاخت و تاراج کے اس سارے عہدِ نامراد میں پرویز مشرف کی بلائیں لیتے ہوئے عمران خان کی پیشانی پر عرقِ ندامت کی نمی تک نہ آئی۔ وہ حریصانہ اور والہانہ خودسپردگی کے ساتھ مشرف کے کانوں میں رس گھولتے اور اپنی کشتِ آرزو کو آمریت نوازی کے آبِ زر سے سینچتے رہے۔
2002ء میں‘ ریفرنڈم کی مشقِ ملامت‘ ایوب خان اور ضیا الحق سے ہوتی ہوئی‘ مشرف تک پہنچی تو وہ بے حجاب ہی نہیں‘ مکمل طور پر بے لباس بھی ہوچکی تھی۔ یہ ہماری تاریخ کا نہایت ہی مضحکہ خیز تماشا تھا۔ اس تماشے کے سرخیلوں میں دو کردار سب سے نمایاں تھے۔ ایک حضرت علامہ طاہرالقادری‘ اور دوسرے عمران خان۔ دونوں کے دل میں درجاتِ بلند کا جوالا مکھی دہک رہا تھا۔ دونوں انتخابی ناکامی کے تلخ تجربے سے گزر چکے تھے۔ اس ''صبرآزما اور طویل جدوجہد‘‘ کا ثمر یہ ملا کہ دونوں قومی اسمبلی کے ایوان میں داخل ہوگئے۔
یہاں سے خان صاحب کی پارلیمانی زندگی کا آغاز ہوا۔ اسمبلی میں نووارد ہونے کے باوجود وہ کوئی نوخیز نہ تھے۔ پچاس برس کی عمر پاچکے تھے۔ چھ برس سے جماعت کی قیادت کررہے تھے۔ اپنی سیاسی زنبیل میں دعووں‘ وعدوں‘ نعروں‘ نظریوں اور اصولوں کا اچھا خاصا اثاثہ اٹھائے پھرتے تھے۔ سیاست کا کوئی طالب علم چاہے تو میں پارلیمنٹ ہائوس کی لائبریریوں اور ریکارڈ تک رسائی میں اُس کی مدد کرسکتا ہوں۔ وہ ساری دستاویزات کھنگال کر دیکھے کہ 2002ء سے 2007 ء تک خان صاحب‘ کتنی بار ایوان میں آئے‘ کس کس قانون سازی میں حصہ لیا‘ اہم قومی موضوعات کے مباحثوں میں کتنی بار شرکت کی‘ کتنی بار ایسی تقاریر کیں جو یادگار سمجھی جاتیں۔ کم لوگوں کو علم ہوگا کہ عمران خان کو قومی اسمبلی کی دونہایت اہم قائمہ کمیٹیوں کی رکنیت سونپی گئی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی اور کشمیر کمیٹی۔ دیکھنا چاہئے کہ خان صاحب کتنی بار پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں گئے؟ کس کے احتساب کیلئے کیا کردار ادا کیا؟ کرپشن کے سدباب کیلئے کتنی مؤثررہنمائی فرمائی؟ اور ان ارفع مقاصد کیلئے کتنے بِل پیش کئے۔ کشمیر کمیٹی کا احوال اس سے بھی گیاگزرا ہے۔ کم وبیش پانچ سال تک ایوان ہو یا قائمہ کمیٹی یا کوئی اور پارلیمانی وظیفہ‘ خان صاحب نے کسی کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی۔ یہ بے آب ورنگ سے خرخشے ان کی خوئے پیکار کو جچتے ہی نہ تھے۔ سو! 2002ء میں حلف اٹھانے اور 2007ء میں مستعفی ہوجانے کے درمیانی عرصے میں تنخواہوں اور مراعات کے حصول کے سوا اُن کا اور کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ اُن کا کمالِ فن یہ ہے کہ اب تک وہ تین بار قومی اسمبلی کے رکن چنے گئے‘ تینوں بار جلد یا بدیر مستعفی ہوکر سڑکوں اور چوراہوں میں آگئے۔
2008ء کے انتخابات میں انہوں نے حصہ ہی نہ لیا۔ بس یہ آس لگا کر بیٹھ گئے کہ کبھی تو کوئی گھٹا اُن کی کشتِ ویراں کا رُخ کرے گی۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن خان صاحب بنی گالہ کی پہاڑی چوٹی پر اپنے گھر کے کشادہ لان میں دھوپ سینک رہے تھے۔ موسموں کو اپنی مرضی کا پیرہن پہنانے اور خیابانِ سیاست میں مرضی کے لالہ وگل کھلانے والی چنچل ہوائیں پائلیں چھنکاتیں پہاڑی شادابیوں سے کھیل رہی تھیں کہ اُن کی نظر خان صاحب پر پڑی۔ یکایک دل دے بیٹھیں۔ 2011ء کے لاہوری جلسے سے 2018ء میں 'آرٹی ایس‘ کی مرگِ ناگہانی تک کی داستان‘ خان صاحب کی ''صبرآزما جدوجہد‘‘ کی کہانی نہیں‘ اُنہی شوخ ہوائوں کی فتنہ سامانی تھی۔ نواز شریف سے بیر رکھنے والوں کا قبیلہ اُن ہوائوں میں خوشبوئیں بھرنے لگا۔ دانشوروں کی فریفتگی‘ کالم نگاروں کی شیفتگی اور ابنائے وقت کی وارفتگی جذبِ فراواں سے چھلکنے لگی۔ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ پارلیمانی زبان میں اُنہیں قائد ِایوان‘ چُن لیاگیا۔ 1996ء سے 2018ء تک کے بائیس برسوں میں اُن کی ''صبرآزما جدوجہد‘‘نے ابتلاوآزمائش‘ گرفتاریوں‘ تھانوں‘ کچہریوں‘ عدالتوں‘ زندانوں اور جلاوطنیوں کا کوئی مرحلہ نہیں دیکھا۔ اپریل 2022ء میں ایک جمہوری آئینی مشق کے ذریعے ایوان کی قیادت سے محروم ہونے اور وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد ان پر ''ماہیِ بے آب‘‘ کی کیفیت طاری ہے۔ ایوان موجود ہے۔ پارلیمان کام کررہی ہے لیکن پارلیمانی کردار‘ اُن کے دستور سیاست سے خارج ہے۔ سو! وہ جلسوں‘ جلوسوں‘ تقریروں اور لانگ مارچوں سے ہوتے ہوئے خودشکنی کے ایک نئے سنگِ میل تک آپہنچے ہیں۔
استاد ذوق نے کہا تھا ؎
ہم سے بھی اس بساط میں کم ہوں گے بَدقمار
جو چال ہم چلے‘ سو نہایت بُری چلے
قمار خانوں کی روایت رہی ہے کہ ہارنے والا بدقمار اپنی ہار اور بدقماری کے اسباب پر غور کرنے کے بجائے گھر کی آخری جمع پونجی بھی قمار خانے میں اٹھالاتا ہے۔ سو! خان صاحب‘ تمام پتے کھیلنے اور ہارجانے کے بعد اپنی بچی کھچی دواسمبلیاں بھی دائو پر لگانے سرِبساط لے آئے۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ عمران خان کا واحد مطلوب ومقصود وزارتِ عظمیٰ ہے۔ اُن کا ہیجان پارلیمان کی چاردیواری میں سما ہی نہیں سکتا۔ آنے والے انتخابات میں وہ جیت گئے تو اسمبلیاں ایک بار پھر توڑنے کیلئے اپنی آستین سے کوئی نیا جادوئی کبوتر نکال لیں گے اور اگر ہار گئے تو یقینا دھاندلی ہوگی‘ کیونکہ عمران خان‘ کسی صورت ہار نہیں سکتے۔ یہ انہونی ہوگئی تو اُن کا ''قافلہ سخت جاں‘‘ چھبیس سالہ ''صبرآزما سیاسی جدوجہد‘‘ کے ایک نئے مرحلہ ٔشوق میں داخل ہوجائے گا۔ اُدھر خان صاحب پر مرمٹنے والی دل پھینک ہوائیں‘ کلائی کی چوڑیاں توڑ کر‘ بال بکھیرے‘ مانگ میں راکھ بھرے‘ حنائی ہاتھ ملتے ہوئے عشقِ جواں مرگ کا ماتم کررہی ہیں۔ دسمبر کے المیوں کا زخم خوردہ پاکستان دھڑکتے دل کے ساتھ 23 دسمبر پر نظریں جمائے بیٹھا ہے کہ اس کی کوکھ سے جانے اب کون سا فتنہ جنم لینے کو ہے۔