پرویز مشرف وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو جانا ہے۔ وہ منزل جسے کوچِ نقارہ بجنے اور لاد چلنے سے پہلے ہر بنجارہ بھلائے رکھتا ہے۔ بے جان بدن کاٹھ کے کسی بوسیدہ تختے پر میلی سی چادر میں ہو یا قومی پرچم سے آراستہ آبنوسی تابوت کے اندر خوشبوئوں میں بسے کفن میں لپٹا ہو‘ دونوں منوں مٹی تلے دفن ہو جاتے ہیں۔ آگے کا سفر بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ دنیا کے سب ٹھاٹ باٹ یہیں رہ جاتے ہیں۔ نامۂ اعمال کے نیک و بد کی نشاندہی کرنے والے فرشتوں کے لیے کوئی پی سی او جاری نہیں کیا جا سکتا۔ مرضی کے فیصلوں کے لیے کوئی ارشاد حسن خان تراشا جا سکتا ہے نہ عبدالحمید ڈوگر۔ قدرت کے دائمی اور لازوال آئین کو کاغذ کا حقیر پرزہ قرار دے کر ہوا میں اڑایا نہیں جا سکتا۔ لق و دق صحرا کے اس نامہرباں سفر میں نہ سر پر کوئی سائباں ہوتا ہے نہ سایۂ ابرِ رواں۔ مرعوب کرنے کے لیے نہ کندھے پہ سنہری پھول ہوتے ہیں نہ چھاتی پہ رنگا رنگ تمغوں کی قطاریں‘ نہ سر پر کلاۂ تفاخر نہ بغل میں چھڑی۔ نت نئے پینترے سکھانے والا بازی گر‘ نہ آئین و قانون کو مسخ کرنے والا جدہ کا جادوگر۔ نہ اللہ کی عدالت سے چھپنے کے لیے کوئی عالی مرتبت شفاخانہ‘ نہ کوئی فارم ہائوس۔ نہ کسی کو مُکّے دکھائے جا سکتے ہیں نہ کسی کو بارود سے اُڑایا جا سکتا ہے۔ وہاں کی لغت میں صرف دو الفاظ ہیں۔ جزا یا سزا۔ اور ان دونوں کا انحصار بیاضِ عمل پر ہے۔
عہدِ مشرف کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ کارِ لاحاصل ہے۔ اُنہوں نے ایک ایسے عمل کا ارتکاب کیا‘ کوئی بھی کارنامہ جس کی تلافی نہیں کر سکتا۔ اپنے تین پیش رو آمروں کی طرح اُنہوں نے اپنے اللہ سے باندھا گیا عہد توڑا۔ اُس آئین کو پامال کیا جس کی پاسداری کی قسم کھائی تھی۔ دفاعِ وطن کے لیے دی گئی بندوق کے زور پر منتخب وزیراعظم کو معزول کرکے حوالۂ زنداں کیا جس نے انہیں اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے برطرف کیا تھا۔ اوّل و آخر یہی مشرف کا گناہِ کبیرہ تھا۔ آئین‘ پارلیمان‘ جمہوریت‘ سیاستدانوں‘ عدالتوں اور ججوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور کامل نو برس تک ہوتا رہا‘ وہ سب اسی کے ذیلی مکروہات تھے۔
مشرف کا عہد ایسے مکروہات‘ منکرات اور لغویات سے بھرا پڑا ہے۔ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد وہ آئین و قانون ہی نہیں‘ اخلاقیات کو بھی پائوں کی ٹھوکر پہ رکھتے‘ آمرانہ یلغار کرتے کُشتوں کے پشتے لگاتے‘ درجاتِ بلند کی سیڑھیاں پھلانگتے چلے گئے۔ ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا پُر فریب جُبّہ پہنے‘ وہ اپنی ذات کے گرد جھومر ڈالتے رہے۔ اپنے بت کی پرستش کرتے رہے۔ اقتدار کی مضبوطی اور طوالت کے منصوبے بناتے رہے۔ وہ جب بھی کسی سرکاری دستاویز پر دستخط ثبت کرتے تو نیچے اُن کے سارے عہدے اہتمام سے لکھے جاتے۔ جنرل‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ چیف ایگزیکٹو‘ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ بے مہار اقتدار کی خواہش نے اُنہیں کبھی چین نہ لینے دیا۔ ان کی حرص و ہوس کا ظرف کبھی بھر نے نہ پایا۔ ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے فریب کار لبادے تلے یہ سب کچھ کرتے ہوئے کبھی اُن کے ضمیر نے جھرجھری لی نہ ماتھے پر عرقِ ندامت کا کوئی قطرہ جھلملایا‘ نہ رسوائی اور جگ ہنسائی کے احساس نے کروٹ لی۔
اقتدار سے رخصت ہوئے تو بھی کمال جاہ و جلال سے۔ وردی اُتر جانے اور آبنوسی چھڑی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد ہو جانے کے باوجود کوئی اُن کا بال بِیکا نہ کر سکا۔ خصوصی عدالت کو فردِ جرم عائد کرنے کے لیے جانے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے۔ ضمانت منسوخ ہوئی تو ایکڑوں میں پھیلا اُن کا پُرتعیش فارم ہائوس‘ اُن کی جیل قرار پایا۔ عدالت سے گریز ناگزیر ہوگیا تو سائرن بجاتی گاڑیوں کے جلو میں راولپنڈی کے ہسپتال پہنچ گئے جو کسی عام اتھارٹی کی دسترس میں نہ تھا۔ اپنی بیماریاں‘ اپنے ڈاکٹرز‘ اپنی لیبارٹریز‘ اپنے نسخے‘ اپنے ٹیسٹس‘ اپنی رپورٹیں‘ اپنے اعلامیے۔
نصف درجن مقدمے چلتے رہے۔ کسی عدالت کا کوئی پروانہ‘ اُن کے کسی قلعے کی کسی دیوار کے اُس طرف جھانک نہ سکا۔ یہ نواز شریف نامی شخص کا حوصلہ تھا کہ کرسی کے تقاضوں اور سود و زیاں کے کھاتوں سے بے نیاز ہوکر پہلی بار آئین کی شق 6 کو حرکت میں لائے۔ اپنے اور پرائے سمجھاتے رہے کہ زیاں کاری اور سود فراموشی کی اس راہِ پُرخطر پہ مت چلو۔ وہ ڈٹے رہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے گرد شکنجہ کس لیا گیا اور مشرف کی راہیں کشادہ کردی گئیں۔ اُنہیں موت کی سزا سنائی گئی تو وہ ملکی سرحدوں سے دُور اپنے عافیت کدوں تک پہنچ چکے تھے۔ سزائیں بھگتنے کے لیے وزیراعظم پیچھے رہ گیا۔ سو آج تک بھگت رہا ہے۔
سیاست دانوں کی چھوٹی چھوٹی بقچیوں اور جیبوں تک کو ادھیڑ ڈالنے‘ چہروں پر کالک تھوپنے اور جیلوں میں ٹھونسنے والے اس نظام قانون و انصاف کے کَل پُرزوں میں سے کسی کو یارا نہ تھا کہ وہ مشرف کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ انصار عباسی نے پچھلے دنوں پھر اُس کے کھاتوں کی تفصیل بیان کی ہے لیکن سیاست دانوں پر جھپٹنے والے نیب نے کبھی کوئی چھان بین نہ کی۔ اب تک سامنے آنے والی تفصیل کے مطابق متحدہ عرب امارات کے آٹھ بینکوں میں اُن کے تقریباً تیس لاکھ ڈالر اور لگ بھگ پانچ کروڑ درہم پڑے ہیں۔ کوئی حساب لگالے کہ آج کے نرخ پر یہ رقم کتنے ارب روپے بنتی ہے۔ لندن میں نواز شریف سے منسوب ایون فیلڈ سے کہیں زیادہ مہنگے فلیٹ کے علاوہ پاکستان میں جائیدادوں کا وسیع سلسلہ‘ کسی منی ٹریل کا متقاضی نہیں۔
کوئی قدغن نہیں کہ اُنہیں چاہنے والے‘ یا کسی طور اُن کے مرہونِ احسان‘ اُن کے لیے دعا کریں‘ قل کرائیں‘ سوئم منائیں‘ ماتم کریں‘ شامِ غریباں کا اہتمام فرمائیں‘ ریفرنس آراستہ کریں‘ اُن کی آخری آرام گاہ کو مقبرے میں بدل کر آستانہ عالیہ کے مجاور بن جائیں لیکن مشرف نے جو کیا اس کا ازالہ کسی طرح ممکن نہیں۔
اُنہوں نے مارشل لاء کے ارتکاب کے بعد پہلے خطاب کا آغاز ''قومی ترانے‘‘ سے کیا۔ تقریباً ساڑھے تئیس برس بعد اُن کا تابوت 'قومی پرچم‘ میں لپیٹ کر قبر میں اتار دیاگیا۔ قومی ترانے سے قومی پرچم تک کی یہ کہانی ہماری بے چہرگی کی بے ننگ وناموس داستان ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا نے اپنی عصمت دری کرنے والے شخص کے لیے دستِ دعا اٹھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے آیاتِ قرآنی سے مزّین ہال میں آویزاں قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کے لبوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ دیکھی۔ یہ صبحِ کاذب ہی سہی لیکن آفتابِ تازہ کی نوید بھی ہے۔ کوئی آمر کچھ بھی کرلے‘ اُس کا اولیں گناہِ عظیم کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔