بحیرۂِ انصاف کی ’’برمودا تکون‘‘

جمہوری ادوار ہماری عدلیہ کیلئے سنگلاخ کوہ وبیاباں کا درجہ رکھتے ہیں جن سے وہ سیلِ تندرو کی طرح ٹکراتی رہتی ہے لیکن جوں ہی اس کا سامنا آئین شکن آمروں سے ہوتا ہے‘ وہ یکایک '' جُوئے نغمہ خواں‘‘ کا روپ دھار لیتی ہے۔ آمروں کو اپنی مرضی کا آئین لکھنے اور انہیں صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے اس کا چہرہ بشاشت سے گلنار ہوجاتا ہے لیکن کروڑوں عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کے کسی قانون کو حقارت سے پائوں تلے روندتے ہوئے اس کی پیشانی پہ عرقِ ندامت کا ایک قطرہ تک نہیں ابھرتا۔ کم نصیبوں کی طرح ہم امید لگائے رکھتے ہیں کہ فلاں کا دور تمام ہوا تو سوا نیزے پہ کھڑا سورج ڈھلنے لگے گا لیکن ایک دریا کے پار اترتے ہیں تو ایک اور بپھرا ہوا دریا سامنے آجاتا ہے۔ عالی مرتبت ثاقب نثار گئے تو عزت مآب آصف سعید کھوسہ مقدر ٹھہرے۔ وہ رخصت ہوئے تو جلیل القدر گلزار احمد کا چمنستان کھِلا۔ وہ خزاں نصیب ہوئے تو نابغۂ عصر عمر عطا بندیال طلوع ہوئے‘ لیکن سات برس سے ایک ہی موسمِ بے آب ورنگ پنجے گاڑے بیٹھا ہے۔ رسمی طورپر یہ سات برس عہدِجمہوریت میں گنے جاتے ہیں اس لیے چاروں ''قاضی القفاۃ‘‘ پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کیلئے شمشیرِ برہنہ بنے رہے۔ آج لوگ‘ جسٹس بندیال کا باقی ماندہ یک ماہی عرصہ‘ دہکتی گرمیوں کے روزوں کی طرح گن گن کر گزار رہے ہیں اور اُن کی رخصتی کے دن کا ''یومِ عید‘‘ کی طرح انتظار کررہے ہیں۔
ثاقب نثار سے عمر عطا بندیال تک پونے سات سال کا عرصہ‘ بے لاگ انصاف کے حوالے سے بالعموم بانجھ خیال کیاجاتا ہے۔ اس عہد کے بیشتر عدالتی فیصلوں پر گہری نظر ڈالی جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سنہری گوٹے والی سیاہ ریشمی عبائوں کی آستینوں سے کیسے کیسے طلسمی کبوتر برآمد ہوئے اور عدل جیسے پیغمبرانہ وظیفے کو کس طرح کوچہ وبازار کا مداری تماشا بناتے رہے۔
دسمبر2016ء میں جسٹس (ر) ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تو ''پراجیکٹ عمران خان‘‘ زوروں پہ تھا۔ ایک ماہ پہلے آرمی چیف بننے والے قمر جاوید باجوہ اس پراجیکٹ کو گود لے چکے تھے۔ ثاقب نثار بھی والہانہ گرم جوشی اور فدویانہ خود سپردگی کے ساتھ اس انقلابی رتھ پر سوار ہوگئے۔ اُن کے برسرِ مسندِ انصاف آتے ہی نوازشریف کے خلاف زہرناک فیصلوں کی ایسی منہ زور آندھی چلی کہ آج تک تھمنے میں نہیں آئی۔ گزشتہ ہفتے ''سہ رُکنی عدالتی مثلث‘‘ کی طرف سے سنایا جانے والا تازہ فیصلہ‘ اُسی آندھی کا ایک تھپیڑا ہے۔ قرار پایا ہے کہ ''سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023ء آئین سے متصادم ہے‘ لہٰذا اسے کالعدم ٹھہرایا جاتا ہے۔ ثاقب نثار عہد میں پانامہ فیصلہ سنانے والے بینچ میں شامل ایک انصاف پرور جج‘ جنہوں نے مانیٹرنگ جج کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہوئے احتساب عدالت سے مطلوبہ فیصلہ کشید کیا‘ تازہ فیصلہ سنانے والی تکون کا بھی حصہ ہیں جو انصاف کے دُخانی جہازوں اور بادبا نی کشتیوں کیلئے ''برمودا تکون‘‘ بن چکی ہے۔ کم ازکم نوازشریف کے حوالے سے ثاقب نثار کا نظریۂِ انصاف‘ آج بھی پوری طرح کارفرما ہے۔
کالعدم قرار دیا جانے والا قانون کیا تھا؟ انصاف کے بنیادی تقاضوں پر مبنی ایک سادہ سی گنجائش کہ سپریم کورٹ کے از خود اختیارِ سماعت کے تحت سزا پانے والوں کو بھی اپیل کا ایک حق دیا جائے۔ یہ محض حکومتی نہیں پاکستان بھر کی وکلا تنظیموں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ 184(3) کے بے تحاشا اور غیرمنصفانہ استعمال کے سامنے بند باندھنے کیلئے ضروری قانون سازی کی جائے تاکہ کسی شہری کو بغض وعناد کے سبب نمونۂ عبرت نہ بنایا جاسکے۔ عمومی دستور یہ ہے کہ مقدمہ سیشن عدالت میں چلتا ہے۔ یہ فیصلہ ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجاسکتا ہے لیکن جب سب سے بڑی عدالت‘ سپریم کورٹ‘ ہی پہلی اور آخری عدالت کے طورپر سزا سنا دے تو سزا یافتہ شخص کے پاس ایک بھی اپیل کا حق باقی نہیں رہتا۔ 2017ء میں نوازشریف کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں وہ خائن قرار پائے اور نہ صرف وزارتِ عظمی بلکہ عمر بھر کیلئے سیاست سے بھی بے دخل کردئیے گئے۔ اسی ''پراجیکٹ عمران‘‘ کے تحت (نوازشریف سے کہیں بڑے جرم کے باوجود) جب عمران خان کو امانت ودیانت کی خلعتِ فاخرہ پہنانا اور میزانِ عدل کا توازن قائم رکھنا ضروری ٹھہرا تو جہانگیر ترین کو بے لباس کرکے ''ازخود‘‘ نیزے میں پرو دیاگیا۔
تازہ ترین شاہکار فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ 1980ء میں‘ سپریم کورٹ کے اپنے بنائے گئے رُولز (ضوابط) پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون پر فوقیت رکھتے ہیں لہٰذا جب بھی پارلیمنٹ کی منظوری اور صدارتی توثیق سے بننے والے قانون کا سامنا عدلیہ کے تینتالیس سالہ پرانے ضابطے سے ہوگا تو پارلیمانی قانون (ضابطے کی شان میں گستاخی کے سبب) کالعدم ٹھہرے گا۔ یہ افلاطونی دلیل بھی دی گئی کہ اگر 184(3) کے تحت اپیل ضروری تھی تو صاحبانِ عقل ودانش آئین سازوں نے 1973ء کے آئین میں اس کی گنجائش کیوں نہیں رکھی۔ ''عزت مآب!‘‘ اس لئے کہ اُن کی عقل ودانش کی رسائی اس بیگانہ انصاف تصور تک نہ تھی کہ آنے والے وقت میں یہ آئینی شق مخصوص عزائم رکھنے والے منصفوں کا ہتھیار بھی بن سکتی ہے اور یہ کہ انصاف کی مسندوں پر کچھ ایسی ''انصاف پرور‘‘ شخصیات بھی جلوہ گر ہوسکتی ہیں۔ اُن عالی دماغوں کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا تو وہ اس شق ہی کو اڑا دیتے۔ کیا ستم ہے کہ جو شق مفادِ عامہ اور بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے آئین کا حصہ بنی اُسے بنیادی حقوق کچلنے اور ناپسندیدہ لوگوں کی گردنیں اڑانے کیلئے استعمال کیاجارہا ہے۔ اگر آئین سازوں کا اتنا ہی احترام ہے اور آئین کی ہر شق آپ کیلئے اتنی ہی مقدس ہے تو آرٹیکل 63-A میں کہاں لکھا ہے کہ پارٹی ہدایات کے برعکس ووٹ دینے والے ارکان کے ووٹ بھی نہیں گنے جائیں گے؟ وہاں تو تسکینِ قلب کیلئے اور نوازدشمنی میں آپ نے آئین بھی خود ہی لکھ لیا۔ کس آئین ساز نے کون سی شق میں لکھا ہے کہ کسی شہری کو عمر بھر کیلئے سیاست بدر بھی کیا جاسکتا ہے؟ اور آمروں کو خلعتِ جواز پہنانے‘ اپنی مرضی کا آئین لکھنے اور وردی سمیت انتخابات لڑنے کی اجازت‘ آپ کس آئینی شق سے اخذ کرتے ہیں؟
''بحیرۂ انصاف کی یہی برمودا تکون‘‘ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کو بھی معطّل کر چکی ہے۔ پارلیمنٹ کے پیٹ میں ''اسقاطِ قانون‘‘ کی ایسی عجوبۂ روزگار مثال شاید ہی دنیا کے کسی اور مہذب ملک میں ملے۔ کبھی عدالتی فعالیت (Judicial Activism) کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان دنوں عدالتی رعونت (Judicial Chauvinism) کا طوطی بولتا ہے۔ عدلیہ کی تکونی فکر نے مقننہ کو گھر کی خادمہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ کوئی ریاست اس بے ڈھنگے انداز سے نہیں چل سکتی۔
'برمودا تکون‘ کا یہ فیصلہ وارداتی انداز میں سامنے آیا ہے۔ کامل ترپن دنوں تک انتظار کیاگیا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہوجائے تو ہم یہ شیش ناگ اپنی پٹاری سے نکالیں۔ اعلیٰ معززومحترم عہدوں پر فائز اور عدل و انصاف کی نگہبان شخصیات کے ''انصاف‘‘ سے واردات کی بُو آنے لگے تو عالمی انڈیکس میں پست ترین سطح پہ آجانا کون سی اچنبھے کی بات ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں