جس کا کام اُسی کو ساجھے

دو روز قبل دفتر سے گھر جاتے ہوئے ایک ناکے پر ٹارچ بردار پولیس اہلکار نے گاڑی روکی اور سڑک کے کنارے کھڑی کرنے کا اشارہ کیا تو میں اور میرا ڈرائیور ذہنی طور پر گاڑی کی تلاشی اور مخصوص سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ وزنی توند ہلاتا سنتری بادشاہ گاڑی کے قریب آیا تو میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور پوچھا '' کیوں جناب ہم اپنے گھر جاسکتے ہیں ‘‘ پولیس اہلکار میرے اس بے تکلفانہ انداز پر گڑ بڑایا اور بولا '' کیوں نہیں سرکار ! بس سلام کرنا تھا۔‘‘ میں سمجھ تو گیا کہ '' سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست‘‘ پھر بھی پوچھ ڈالا '' صرف اس لیے روکا تھا؟‘‘ ''سردی بہت ہے میں نے سوچا صاحب جی کو سلام کرلوں ‘‘جواب ملا ۔مٹھی گرم کرنے کے حوالے سے سردی کاذکر خوب تھا۔
عاشورہ محرم ، عید بقرعید اور ربیع الاول میں دہشت گردی کا اندیشہ بڑھتا ہے تو ملک کے دوسرے حصوں کی طرح لاہور میں بھی داخلی اور خارجی راستوں پر قائم حفاظتی ناکوں پر پولیس کی نفری بڑھا دی جاتی ہے ۔چیکنگ سخت اور گشت میں اضافہ بھی ہمیشہ کا معمول ہے۔ جس ناکے پر باوردی سنتری بادشاہ کو رات نو بجے سردی لگ رہی تھی وہ اہم مقام پر واقع مستقل ناکہ ہے اور اہلکار یہاں پر گاڑی کو ہلکی ٹارچ کی روشنی میں چیک کرکے آگے جانے دیتے ہیں۔
میں کئی لوگوں سے پوچھ چکا کہ یہ جادوئی ٹارچ ہے ؟ امریکہ سے درآمدہ سراغ رسانی کے جدید نظام سے منسلک چہرہ شناس آلہ یا ہرگاڑی اور اس کے ڈرائیور اور سواروں کی اندرونی کیفیت کو فوری طور پر جانچنے کی ڈیوائس مگر مجھے کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ گاڑیوں اور مسافروں کی جانچ پڑتال اور مشکوک افراد کی گرفتاری میں یہ ٹارچ کس قدر مددگار ثابت ہوتی ہے ،یہ بھی ایک ایسا قومی راز ہے جو میری طرح کے عامیوں پر کبھی منکشف نہیں ہوا۔
جگہ جگہ ناکوں ، ٹارچ بردار پولیس اہلکاروں اور چھوٹی گاڑیوں ، موٹرسائیکل سواروں کی تلاشی کے باوجود لاہور اور ملک کے دیگر شہروں میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں ماند پڑی ہیں نہ کوئی بڑا دہشت گرد پکڑا گیا ہے۔ دہشت گرد، خودکش بمبار جب اور جہاں چاہیں کارروائی کرگزرتے ہیں اور روک تھام کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
گزشتہ روز واہگہ بارڈر پر جو المناک اورروح فرسا واقعہ پیش آیا ،وہ ان دعوئوں کی نفی ہے جو آپریشن ضرب عضب کے بعد تسلسل سے کیے جارہے تھے ۔ چند روز قبل یہ وارننگ مل چکی تھی کہ قوم کے جذبوں اور ولولوں میں اضافہ کرنے والی یہ پریڈ نشانہ بن سکتی ہے اور ٹرینڈ دہشت گرد لاہور میں داخل ہوچکے ہیں جن کا ہدف عزاداری کے جلوس بھی ہیں مگر اس سانحے کی روک تھام میں ناکے کام آئے نہ خفیہ اداروں کی وارننگ اور پانچ درجن افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
آپریشن ضرب عضب کے فوری بعد ہر سو خاموشی چھا گئی اور کوئی منفی ری ایکشن عسکریت پسندوں کی طرف سے سامنے نہ آیا تو جہاں حکومتی عہدیداروں نے سکون کا سانس لیا ،وہاں بعض سنجیدہ فکر حلقوں نے تشویش بھی ظاہر کی کہ کہیں یہ دہشت گردوں کی کوئی چال ہی نہ ہو۔ یہ چند روزہ پھرتیوں کے بعد خواب خرگوش کے مزے لینے کی عادی پولیس ، انتظامیہ اور حکومت کو ایک بار پھر غفلت اور لاپروائی میں مبتلا کرکے کاری ضرب لگانے کی کوئی مفسدانہ تدبیر بھی ہوسکتی ہے ۔
حد تویہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنی ساری توانائیاں لانگ مارچ ، دھرنوں کی روک تھام اور جملہ انتظامی صلاحیتیں عمران خان کی سیاسی بیخ کنی کے لیے وقف کردیں ۔آرمی چیف سے میٹنگ کا ایجنڈا اور کابینہ کے اجلاسوں ، پارلیمنٹ کی نشستوں میں تقریروں کا ہدف صرف اور صرف سیاسی مخالفین یا ان سازشی تھیوریوں کی تکرار جو حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے خود ہی پھیلاکر ان کا توڑ کیاگیا۔ حرام ہے کہ ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے کوئی سنجیدہ سرگرمی نظر آئی ہو ایک حفاظتی ناکے کا حال آپ کے سامنے ہے۔
کہنے کو واہگہ کا یہ علاقہ رینجرز کے زیر کنٹرول ہے، سکیورٹی کے انتظامات بھی رینجرز کرتی ہے اور پریڈ میں شرکت کرنے والوں کی چیکنگ بھی اس کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن خودکش حملہ آور اس چیک پوسٹ پر اُگا ہوگا، نہ اسے جیکٹ موقع پر پہنائی گئی۔ کسی دوسرے علاقے سے گھومتے پھرتے ، کئی ناکوں کو عبور کرتے ، ناکوں پر موجود اہلکاروں کے سلام کا جواب دیتے اور سردی کی شکایت سن کر مٹھی گرم کرتے یہاں پہنچا اور بے گناہ شہریوں کے لیے پیغام اجل بن گیا۔ راستے میں کسی نے چیک کیا، روکا ،نہ اس وارننگ کو درخور اعتنا سمجھا کہ دہشت گرد پریڈ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
پاکستان 1981ء سے کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردی کا شکار ہے۔جنرل ضیاء الحق ، محترمہ بے نظیر بھٹو ، میاں نوازشریف ، آصف علی زرداری اور پرویز مشرف کے ادوار میں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہوئے مگر اس عفریت کو قابو کرنے کے لیے کسی دور میں سنجیدگی نظر آئی نہ موثر اقدامات۔ پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو وہ انسداد دہشت گردی فورس کی تشکیل، تربیت، ہتھیاروں ،شہروں اور اداروں کے حفاظتی انتظامات کے لیے امریکہ اور یورپ سے بے حدو حساب سرمایہ حاصل کرسکتا تھا۔ بڑے شہروں کے داخلی راستوں پر سکینرنصب کیے جاسکتے تھے مگر اسے اپنے اقتدار کے جواز کی فکر تھی جبکہ بعد میں آنے والوں نے بھی زبانی کلامی دعوے بہت کیے ،عملاً کچھ بھی نہیں ہوا۔
وجوہات کئی ہیں۔ گشت اور نگرانی کے لیے مطلوبہ تعداد سے کم نفری، اچھی خاصی نفری اہم شخصیات کی حفاظت اور پروٹوکول پر مامور ، جدید تربیتی سہولتوں کا فقدان اور معمولی جرائم کی روک تھام کے علاوہ محض روزگار کی نیت سے سفارشی بھرتی کو خودکش بمباروں کے سامنے لاکھڑا کرنا وغیرہ ۔سب سے بڑا ظلم پولیس کے ساتھ 1985ء سے لے کر اب تک برسراقتدار آنے والی سول اور فوجی حکومتوں نے سیاسی بنیادوں پر نااہل ،نکمے ، کام چور اور رشوت خور افراد کو اس اہم فورس کا حصہ بناکر کیا۔ سابق آئی جی پنجاب عباس خان اوربطور وزیراعلیٰ میاں نوازشریف کے سیکرٹری مہر جیون خان کی شہادت اس باب میں چشم کشا ہے۔
سیاسی اور سفارشی طور پر بھرتی ہونے والے افراد کو اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس ،نہ کسی پیشہ ورانہ جذبے سے سرشار۔ جن کی سوچ ناکوں پر ڈیوٹی اور گشت کے دوران مال پانی بنانے تک محدود ہو خودکش حملہ آوروں کو کہاں روکیں گے اور کیوں نبردآزما ہوں گے۔ تربیت ، خواہش نہ شوق۔
پرویز مشرف کے دور سے اب تک دعوے بہت ہوئے ۔ فنڈز بھی بٹورے گئے۔ کاغذی منصوبے بنے مگر سب زبانی جمع خرچ تھی۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے چین کے کسی کباڑئیے سے سکینر خریدے۔ اربوں روپے ادا کردیئے مگر یہ ناقابل استعمال تھے ۔ اب تک اسلام آباد کے کسی کباڑخانے میں پڑے ہیں ۔موجودہ وزیر داخلہ نے آج تک رحمن ملک سے پوچھنا گوارا نہیں کیا ،حضور ! یہ ظلم آپ نے اس غریب عوام کے ساتھ کیوں کر ڈالا۔نثار علی خان نے ایک سال کے دوران نئی فورس بنانے اور اسے جدید تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنے کے جو دعوے کیے ،وہ سراب ثابت ہوچکے ۔دہشت گرد ضرب عضب کے باوجود یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ وہ رکے ہیں نہ تھکے اور نہ پیچھے ہٹے ہیں۔ یہ سول اداروں کی واضح ناکامی ہے مگر کوئی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں۔
فوج نے شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی میں آپریشن کے ذریعے اپنے حصے کا کام کردیا ہے۔ سول ادارے مگر مسلسل ناکامی کا تاثر گہرا کرنے میں مصروف ہیں۔ میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کا جتنا وقت اپنی مدت پوری کرنے ، سیاسی چالیں چلنے اور سیاسی مخالفین کو ناک آئوٹ کرنے میں صرف ہوا،اس کا عشر عشیر بھی اگر وہ دہشت گردی کے خاتمے کی منصوبہ بندی کے لیے وقف کرتے تو کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ ضرور نکلتا۔ میاں شہبازشریف نے 1997ء میں ایلیٹ فورس بنائی تھی جو عمدہ کاوش تھی مگر اب وہ بھی پروٹوکول ڈیوٹی کررہی ہے اور دہشت گردوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔
حکمران اور فیصلہ ساز سنجیدہ اور یکسو، سول ادارے مستعد اور معاشرہ بیدار ہو تو دہشت گردی کا خاتمہ مشکل نہیں، بشرطیکہ یہ ریاست، معاشرے اور حکومت کی ترجیح اول ہو ۔مگر ہم ہر مسئلہ کاوقتی اور آسان حل ڈھونڈ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ جیسے محرم الحرام کے ایام میں ڈبل سواری پر پابندی، موبائل فون سروس کی بندش اور ناکوں پر ٹارچ بردار پولیس اہلکارتعینات۔ لاپروائی ، غفلت اور مانگنے کی عادی فورس سے دہشت گردوں کی سرکوبی کا کام لینا زیادتی ہے ۔جس کا کام اسی کو ساجھے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں