ٹائیں ٹائیں فش

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے نواسے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے لخت جگر بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ دوسری بار ہاتھ ہو گیا۔ ڈیڑھ دو سال قبل بلاول نے پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی‘ اپنی ٹیم بنانے کی کوشش کی اور نوازشریف کے علاوہ الطاف حسین کو للکارا تو جیالے خوش ہوئے‘ پارٹی کی جان میں جان آئی اور ''طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کی علمبردار جماعت کو حقیقی اپوزیشن کے رُوپ میں ڈھلتے دیکھ کر زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی کے زخم خوردہ اور مایوس وپژمردہ لیڈروں کے چہرے کھل اُٹھے مگر اچانک بلاول بیرون ملک چلے گئے اور والد گرامی نے اعلان کیا کہ بلاول ابھی بچہ اور ناپختہ ہے‘ اُسے سیاسی تربیت کی ضرورت ہے‘ اس بیان کے بعد باپ بیٹے میں دوریوں کی اطلاعات گشت کرنے لگیں۔ برسی سے بلاول کی غیر حاضری پر چہ میگوئیاں ہوئیں اور پارٹی پر غنودگی طاری ہو گئی۔
پچھلے ماہ بلاول نے لاہور میں ایک ہفتہ گزارا‘ صوبائی لیڈروں اور کارکنوں سے ملے۔ 27 دسمبر تک ضلع اور تحصیل کی سطح پر تنظیم مکمل کر کے‘ ڈویژنل سطح پر کنونشن منعقد کرنے کا اعلان کیا اور حکومت کے سامنے چار مطالبات رکھے جنہیں نہ ماننے کی صورت میں سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی۔ اخبار نویسوں نے جب بھی پوچھا کہ پارٹی اب حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی یا دوبارہ مفاہمتی پالیسی کی طرف لوٹ جائیگی تو نوجوان نے دو ٹوک الفاظ میں مفاہمتی پالیسی کو رد کیا اور ایک ملاقات میں جب اخبار نویس نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات آپ کس پروگرام پر لڑیں گے؟ تو بلاول نے کہا 2018ء کیوں 2017ء کیوں نہیں؟ مگر 18 دسمبر کو جب زرداری صاحب نے اچانک وطن واپسی کا پروگرام بنایا تو بلاول کی ساری سرگر میاں ماند پڑ گئیں‘ ضلعی سطح پر تنظیم سازی کا عمل رُک گیا اور ''ایک زرداری ‘‘ایک بار پھر پوری پارٹی کے علاوہ بلاول پر بھاری پڑ گئے۔ 23 دسمبر کو واپسی پر زرداری صاحب کی تقریر نے عوام کو مایوس کیا تو 27 دسمبر کو یہ مایوسی پارٹی کی گرم جوش قیادت اور بلاول کے حصے میں آئی۔ پختہ کار اور تیزطرار سیاست دان نے بلاول کی ساری ریاضت پر پانی پھیر دیا‘ خوشخبری یہ سنائی کہ وہ اپنے صاحبزادے کے ساتھ میدان کا نہیں‘ ایوان کا رُخ کریں گے اور وہاں بھی میاں صاحب کی کُرسی کھینچنے کے بجائے انہیں سمجھائیں گے۔ 27 دسمبر کو تقریر سُن کر میاں صاحب کو قرار آیا ہو گا کہ اب زرداری جانیں اور عمران خان۔ 
تجزیہ کار پیپلز پارٹی کی اس قلابازی پر حیران اور پریشان ہیں مگر اس قلب ماہیت کی وجہ مخفی نہیں‘ پارٹی کے اندر واضح گروپ بندی موجود ہے۔ ایک گروپ احتجاجی سیاست کے ذریعے عمران خان کو پیچھے دھکیلنے اور حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر مُصر ہے تو دوسرے اور سینئر گروپ کی سوچ یہ ہے کہ نوازشریف کے مقابلے میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے یا اس کی طرح احتجاجی سیاست کرنے کے نتیجے میں ایک تو مسلم لیگ نون میں نثار علی خان گروپ مضبوط ہو گا‘ جو میگا کرپشن سکینڈلز کی آڑ میں پارٹی لیڈر شپ کو رگڑا لگانے کے درپے ہے۔ دوسرے جمہوریت بھی ڈی ریل ہو سکتی ہے۔ جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کی تھیوری اس قدر مقبول ہے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لیڈر اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں‘ اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو ساتھ ملائے رکھنے اور عوام و میڈیا کو بہلانے کے لیے بھی یہ خوب کام دیتی ہے۔ ذرا سا راج سنگھاسن ڈولا کہ جمہوریت ڈی ریل ہونے کا شور مچا۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ یہ نگوڑی جمہوریت بھی عجیب متلون مزاج واقع ہوئی ہے کبھی اس قدر نرم و نازک کہ کوئی اس کی خرابی بیان کرے تو ڈگمگانے لگتی ہے، گاہے اتنی زیادہ ڈھیٹ کہ زہریلی شراب پی کر چالیس چالیس افراد اگلے جہاں سدھار جائیں اور پتہ چلے کہ پولیس‘ شراب کی فراہمی میں ملوث تھی تو اس کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ جعلی اور ناقص ادویات کے طفیل سو‘ ڈیڑھ سو افراد جاں بحق ہوں‘ اس کی بلا سے‘ اور فوڈ اتھارٹی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق‘ مضر صحت بلکہ زہریلا دودھ برینڈ ناموں سے فروخت ہو یا گھی‘ تیل اور چپس سرعام بکے‘ جمہوریت اور جمہوری حکومتیں ایسے واقعات کو جُوتے کی نوک پر رکھتی ہیں‘ کبھی موثر کارروائی نہیں ہوتی‘ حد یہ ہے کہ پورے ملک میں زہر بک رہا ہے مگر کسی حکومت اور اس کے ادارے نے کبھی سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں انکشاف نہ ہوتا یا چند روز قبل فوڈ اتھارٹی بعض خوردنی اشیاء کے حوالے سے اشتہار شائع نہ کرتی تو لوگ خوشی سے یہ زہر کھا پی رہے تھے۔ عام آدمی تو لاعلم ہے مگر جنہیں علم ہے یا ہونا چاہیے‘ وہ پاکستانی مصنوعات استعمال کرنے کے عادی نہیں۔غیر ملکی خوراک‘ ادویات اور مصنوعات استعمال کرنے والوں کو زہریلے دودھ اور خوردنی تیل کی فروخت پر اعتراض کیونکر ہو۔
گدھے‘ کتے اور مردہ جانوروں کا گوشت‘ سیوریج کے پانی سے دُھلی سبزیاں کھا کر عوام بھی مست ملنگ ہو گئے ہیں‘ انہیں بھی خواب فروش‘ مکاّر 
اور بڑبولے لیڈر پسند ہیں جو تین تین‘ چار چار‘ باریاں لے کر نئے وعدے کرتے اور ووٹ بٹور لیتے ہیں۔ کسی مہذب ریاست میں حکمرانوں کی یہ غفلت‘ بے عملی‘ نااہلی اور لوٹ مار سامنے آئے تو وہ الزام لگنے پر ہی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے‘ مگر یہاں عوام کا بنیادی ایشو خالص خوراک‘ ادویات‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار‘ رہنے ہی نہیں دیا گیا۔ حکمرانوں کا خیال ہے کہ اگر عوام کو بجلی اور سڑک مل جائے تو بیمار‘ مُردار خور‘ بے روزگار‘ ناخواندہ اور اپنے بنیادی حقوق کے شعور سے محروم عوام پاکستان کو ہمدوشِ ثریا کر دیں گے۔ چند برسوں میں امریکی ہمارے ہاں گیس سٹیشنوں پر ملازمت کرتے نظر آئیں گے اور برطانوی مہنگے علاقوں کے فیشن ایبل سٹوروں میں سیلز مین کی ڈیوٹی دے رہے ہونگے۔ پنجاب اور لاہور میں تو پھر بھی غنیمت ہے‘ چھاپے پڑتے ہیں اور نمائشی کارروائیاں بھی ہوتی ہیں‘ اگرچہ بعدازاں اس کی قیمت عائشہ ممتاز کو معطلی کی صورتِ میں بھگتنا پڑتی ہے مگر دیگر شہروں اور صوبوں کا بُرا حال ہے۔ حکمران اشرافیہ کا بنیادی مسئلہ صرف اور صرف فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں پر بالادستی حاصل کرنا اور ہر الیکشن دھن‘ دھونس‘ دھاندلی سے جیتنا رہ گیا ہے۔ بجا کہ پاناما سکینڈل اور دہشت گردوں کی مدد کا الزام کسی سیاستدان‘ حکمران اور اس کے دوست احباب‘ اہل خانہ پر ثابت نہیں ہوا مگر ملک بھر میں جعلی ادویات‘ مضر صحت پانی‘ دودھ اور غیر معیاری خوردنی تیل‘ بُرادہ ملی چائے و مصالحہ جات کی فروخت تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہے اور مستند لیبارٹریز نے بین الاقوامی شہرت کی مصنوعات کے حوالے سے رپورٹیں دی ہیں، کسی سرکاری افسر‘ حکمران اور نگران کو کبھی ندامت محسوس نہیں ہوئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے ہیں۔ جمہوریت کو کبھی شرم آئی نہ ''جمہوریوں‘‘ کو حیائ۔
پیپلز پارٹی کے احیاء کی توقعات‘ بلاول بھٹو سے وابستہ تھیں مگر زرداری صاحب نے واپس آ کر ان توقعات پر پانی پھیر دیا اور میاں نواز شریف کا زرداری کی واپسی پر اظہار مسرّت بارآور ثابت ہوا۔ زرداری اور بلاول اگر واقعی ضمنی انتخاب جیت کر ایوان میں قدم رنجہ فرماتے ہیں تو وہ دوچار ماہ کے لیے یہ شوق پورا نہیں کریں گے‘ اس اعلان سے یہ تاثر پختہ ہو گا کہ وہ 2018ء تک موجودہ حکومت کو برقرار رکھنے اور قبل از وقت انتخابات کا راستہ روکنے کے لیے واپس تشریف لائے ‘جس کا فائدہ میاں صاحب کو ہوا اور نقصان بلاول بھٹو کو۔ نوجوان سیاست دان کی ساری محنت اکارت گئی اور وہ اب کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کہ ان کا راستہ والد گرامی نے کاٹا ہے۔ لاہور میں ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ نہ لگتا اور تخت لاہور کو اکھاڑ پھینکنے کے دعوے نہ ہوتے تو شاید زرداری صاحب کو واپسی کی نہ سوجھتی مگر اب تو جو ہونا تھا ہو چکا۔ ٹائیں ٹائیں فش شاید ایسے موقعوں پر بولتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں