پاکستان کو دس ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی دھمکی‘ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی گیدڑ بھبکی سہی‘ مگر اس دھمکی کے مضمرات پر سنجیدگی سے غور کرنے میں کیا حرج ہے۔
دسمبر کے یہی دن تھے‘1971ء کا سال‘ سیاسی محاذ آرائی کا کم و بیش ایسا ہی ماحول ‘بھارت کی طرف سے باغیوں‘ علیحدگی پسندوں اور تخریب کاروں کی بھر پور حوصلہ افزائی و اعانت جاری اور ہماری حکمران اشرافیہ خرمستیوں میں مشغول‘ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان دولخت ہوگیا۔ مسجدوں کی سرزمین ڈھاکہ میں بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑا فاتح کے طور پر داخل ہوا تو بنگالی عوام نے اس پر پھول نچھاور کئے۔
عرصہ دراز تک مشرقی پاکستان کی طرح باقی ماندہ پاکستان کے عوام کے کانوں میں زہر گھولا گیاکہ اردو زبان کی ترویج‘ مغربی پاکستان کے اقتصادی و سیاسی استحصال‘ ایوب خان‘ یحییٰ خان اور بھٹو کی ہوس اقتدار نے سقوط ڈھاکہ کی راہ ہموار کی۔ گویامشرقی حصہ میں بھارتی اثر و نفوذ‘ متشدد لسانی تحریک‘ ہندو اساتذہ کی تعلیمی ریشہ دوانیوں کا کوئی عمل دخل تھانہ عوامی لیگ کے بھارت سے تربیت یافتہ غنڈوں کی طرف سے محب وطن بنگالی و غیر بنگالی باشندوں کی نسل کشی ‘ مکتی باہنی کے روپ میں بھارتی حکومت کی کھلی مداخلت اور فوج کشی فیصلہ کن عنصر۔ 1960ء کے عشرے میں شیخ مجیب الرحمن کے بھارت سے گٹھ جوڑ اور پاکستان سے علیحدگی کی سازش بالخصوص اگرتلہ سازش کیس کو حکومت پاکستان کا سیاسی سٹنٹ قرار دیا گیا مگر بالآخر رازافشا ہوا۔ شرمیلا بوس‘ دالیم شریف الحق اور دیگر بنگالی ‘ بھارتی مصنفین نے دستاویزی شواہد سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اصل داستان بیان کی۔ نریندر مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر واشگاف الفاظ میں پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کے قائدانہ کردار کا اعتراف کر لیا جبکہ فروری2011ء میں ڈپٹی سپیکر شوکت علی نے بنگلہ دیشی پارلیمنٹ میں فخریہ بتایا کہ اگرتلہ سازش کیس میں لگائے گئے جملہ الزامات درست تھے۔ شیخ مجیب الرحمن کی سربراہی میں ایک شنگرام پرشاد(ایکشن کمیٹی) تشکیل دی گئی جس کا مقصد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کرنا تھا‘ طفیل احمد نے شوکت علی کی تائید کی۔اس کے باوجود پاکستان میں محمود اچکزئی‘ عاصمہ جہانگیر اور ان کے دیگر ہمنوا سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کو قرار دے کر شیخ مجیب کی حب الوطنی کا راگ الاپتے ہیں‘ شائد الطاف حسین‘ براہمداغ بگتی‘ مُلاّ فضل اللہ‘ حیر بیار مری اور دیگر علیحدگی پسندوں اور بھارتی ایجنٹوں کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ موثر ہتھیار ہے۔
اگرتلہ سازش کیس کے شریک ملزم بنگالی نژاد پاکستانی بیورو کریٹ روح القدس کے بھتیجے موسیٰ صادق کا ایک مضمون 25مارچ(2016ء) کو بنگلہ دیش کے روزنامہ ''سن‘‘ میں شائع ہوا جس میں شیخ مجیب الرحمن اور روح القدس کی زبانی‘ علیحدگی کی کہانی بیان ہوئی۔ یہ مضمون روح القدس کے طویل انٹرویو پر مبنی ہے ۔ترجمہ عبدالحفیظ ظفر کی دماغ سوزی کا نتیجہ ہے ۔موسیٰ صادق لکھتے ہیں:
''آزادی کی لڑائی کے دوران میں نے بنگالی قوم کی طرف سے ایک تاریخی ذمہ داری نبھائی۔ یہ جنرل مانک شاکا انٹرویو تھا جو بعد میں فیلڈ مارشل بنے۔ مانک شا اس وقت بھارت، بنگلہ دیش کی اتحادی فوجوں کا سپریم کمانڈر تھا۔ میں نے یہ انٹرویو دسمبر 1971ء کولیا۔ اس نے واضح الفاظ میں کہا کہ'' 1971ء کی جنگ جیتنے میں مکتی باہنی نے سب سے اہم کردار ادا کیا‘‘۔ مانک شا نے کہا کہ اگرمیرے جرنیلوں نے اپنی آنکھوں سے خود نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی یہ یقین نہ کرتا کہ لوگ اپنی سرزمین کو آزادی دلانے کیلئے بلاتامل اتنی قربانیاں دے سکتے ہیں۔ اپنے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی پکار پر بنگالی حریت پسند اپنے دشمن پر مشین گنوں اور توپ کے گولوں سے حملے کر رہے تھے۔شیخ مجیب الرحمان سے بنگالی عوام کی محبت کے قصے عام تھے اور بنگ بندھو کے قابل اعتماد ساتھی روح القدس کو بھی ان تمام کے بارے میں علم تھا‘‘۔
''روح القدس پاکستان کی اعلیٰ سول سروس کا رکن تھا۔ اگرتلہ کیس میں روح القدس کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بنگ بندھو اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا۔ روح القدس کولکتہ پریذیڈنسی کا ایک شاندار طالب علم تھا۔ اس نے ایم اے میں فسٹ کلاس کی ڈگری حاصل کی۔ ایڈیشنل سیکرٹری (بجٹ) کی حیثیت سے وہ مشرقی پاکستان کے معاشی استحصال کو بغوردیکھتا رہا تھا اور اگرتلہ سازش کیس میں وہ شریک جرم کے طور پر ملوث تھا۔
ہو یہ رہا تھا کہ بجٹ کا بڑا حصہ مغربی پاکستان کے 44فیصد لوگوں پر اس بہانے سے خرچ کیا جا رہا تھا کہ پاکستان کے پانچوں صوبوں کیلئے برابری کی بنیاد پر فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ بنگ بندھو کی ہدایات پر روح القدس نے بنگلہ دیش کے عوام کیلئے چھ پوائنٹ تیار کیے۔ چونکہ میںروح القدس کا بھتیجا تھا اس لیے وہ گلشن میںاپنی رہائش گاہ پر انٹرویو کے دوران مجھے خفیہ اطلاعات دینے کیلئے تیار ہوگئے‘‘۔
''ڈھاکہ چھائونی میں بنگ بندھو کو موت کا خوف لاحق تھا۔اس لیے انہوں نے کئی اہم راز افشا کیے۔ ان کے خدشات درست ثابت ہوئے کیونکہ ان جیسی شکل و شباہت رکھنے والے سارجنٹ ظہور الحق کو گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔ انہوں نے قدس سے کہا کہ اگر میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں مارا جائوں تو یہ سب کو بتا دینا کہ کُھدی رام ‘اسوریا سین اور سبھاش چندر بوس کی طرح میں نے بھی نوآبادیاتی راج سے بنگالیوں کو آزاد کرانے کا خواب دیکھا تھا۔ میں جیل میں رہوںیا جیل سے باہر، ''سونار بنگلہ‘‘ میری وجودکا لازمی حصہ رہے گا‘‘۔
''یہ میری حیات کا وہ عہد ہے جو ایک طویل عرصے سے میرے ساتھ چل رہا ہے، اور بچوں کو جوان ہوتے دیکھوں۔ میں اس وقت یہاں موجود نہیں ہوسکتا ‘جب رتیو(بیگم فضیلت النسا مجیب) ہمارے بچوں کی بیماری کے دوران دیکھ بھال کر رہی ہوں گی۔ اگر اللہ نے چاہا تو میرا مقدر بے آسرا بنگالیوں کے ساتھ بندھا رہے گا۔ میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اتنی طاقت دے کہ میں بنگالیوں کی راہ میں بچھی تمام رکاوٹوں کا مقابلہ کرسکوں‘‘۔
''19فروری 1969ء کو ہمارے لوگوں نے ایوب خان کے خلاف بغاوت کردی۔ اس کی قیادت ‘پُرجوش طلباء رہنما کر رہے تھے جن میں طفیل، رزاق اورمونی شامل تھے۔ یہ اگرتلہ سازش کیس کا ردعمل تھا جو بعدازاں تحلیل ہوگیا۔ بنگ بندھو روح القدس کے ساتھ گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے اسلام آباد روانہ ہوگیا۔روح القدس بنگ بندھو سے یہ جاننا چاہتا تھا کہ بنگ بندھو کی ہلاکت کے بعدانہیںکیا حاصل ہوگا۔''اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ظاہر ہے خانہ جنگی ہو جائے گی۔ مشرقی پاکستان پر کمیونسٹ گرفت حاصل کرلیں گے۔ کیا امریکہ اس امرکی اجازت دے گا؟ کیا ایوب خان سیٹو کے رکن کی حیثیت سے امریکہ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں‘‘۔ بنگ بندھو نے بتایا''سیٹو کے بہت سے رکن ممالک نے بہت خونریزی کی ہے اور امریکہ نے چپ سادھ لی تھی۔‘‘
مسٹر قدس یہ جاننا چاہتا تھا کہ اگر ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں سیٹو اورسینٹو کی مدد سے قتل عام شروع کر دیا تو کیا اس صورت میں اسے (بنگ بندھو) کو برما اور بھارت کی طرف سے یقین دہانی کرادی گئی ہے؟ اس پر بنگ بندھو نے جواب دیا''ہاں یقینا! اگر میں ڈھاکہ واپس آنے میں ناکام رہتا ہوں تو تمہیں ساشنکا سے خفیہ ملاقاتیں کرنی چاہئیں‘‘۔ اگلے دن جب وہ ایوب خان اور دوسروں سے ملاقات کے بعد ہوٹل واپس پہنچا، بنگ بندھو کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے۔ اس نے روح القدس کوبتایا'' ایوب بنگالی قوم کوزبردست دھچکا لگا سکتا ہے‘‘۔
''رات گئے سابق آئی سی ایس اور ایوب خان کا پرنسپل سیکرٹری فدا حسین ہوٹل میں روح القدس سے ملنے آیا۔ وہ ایوب خان کی طرف سے بنگ بندھو کیلئے ایک خفیہ پیغام لے کر آیا تھا۔ پیغام یہ تھا کہ ایوب خان ملک کا برائے نام صدر اور شیخ مجیب الرحمان وزیراعظم ہوگا۔ صدر کے تمام اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوں گے۔ شیخ صاحب کل پریذیڈنٹ ہائوس میں حلف اٹھائیں گے اور اس سلسلے میں کل صبح پریذیڈنٹ ہائوس سے تین آرڈی ننس جاری کیے جائیں گے۔ اس (شیخ مجیب) کی حب الوطنی کا محور پاکستان کے دونوں حصوں کو متحد رکھنا ہوگا‘‘۔(جاری)