موسیٰ صادق مزید لکھتے ہیں ''جب روح القدس نے بنگ بندھو کو یہ پیغام پہنچایا تو وہ چند منٹ تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔ اس نے قدس کو بڑے مضبوط لہجے میں کہا''قدس تم یہ کیسے فراموش کرسکتے ہو کہ ابھی چند دن پہلے بنگالی قوم کا یہ دشمن مجھے اور تمہیں اگرتلہ سازش کیس میں علیحدگی پسندی کے الزام میں تختہ دار پر لٹکانے کا آرزو مند تھا۔ تم بنگالی قوم کے اس دشمن پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہو۔ اس نے ایک عشرے سے زیادہ بنگالی قوم کو غلام بنائے رکھا ۔ یہ بنگالی قوم کو بیڑیاں پہنانے کیلئے اسی طرح کا جال ہے، جو شیخ عبداللہ کو مستقل طور پر نوآبادی نظام کا شکار بنانے کیلئے پھیلایاگیا تھا۔ میں یہ سازشی پیش کش مسترد کرتا ہوں۔ شیخ عبداللہ نے اپنی زندگی میں ایک غلط قدم اٹھایا تھا جس نے اس کی قوم کو ہمیشہ کیلئے تباہ کر دیا۔ میں ایسی غلطی کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ میں اپنے لوگوں کیلئے ایک آزاد سرزمین دیکھنا چاہتا ہوں جہاں وہ اپنے مقدرکے فیصلے خود کریں‘‘۔
''ہوٹل کے کمرے کی طرف واپس جاتے ہوئے اس نے فدا حسین سے معذرت کی کہ بنگ بندھو گہری نیند سویا ہوا ہے۔ فدا حسین معاملہ سمجھ گیا۔ اس نے کہا ''تم شیخ مجیب کے قریبی ساتھی ہو اور شیخ مجیب کو خبردار کر دینا کہ طفیل ‘ رزاق۔مونی، سراج العالم اور ان جیسے دیگر طالب علم کمیونسٹ رہنما بھارتی ایجنٹ ہیں جو مشرقی پاکستان کو علیحدہ کردیں گے۔ لیکن یہ ملک زیادہ دیر اپنی آزادی قائم نہیں رکھ سکے گا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان کی بنیاد دو عوامل پر رکھی تھی ۔(1) مشرقی پاکستان کی آبادی (2) مغربی پاکستان کے قدرتی وسائل۔ اگر یہ بنیاد ہی تباہ ہو جاتی ہے تو مغربی پاکستان قائم رہے گا۔ صدر ایوب خان نے مجھے تمہارے لیڈر کو یہ بتانے کیلئے بھیجا ہے کہ مشرقی پاکستان کے پاس قدرتی وسائل (گیس اور تیل کے وسائل کا اس وقت علم نہیں ہوا تھا) کی کمی ہے اور پھر ناخواندہ اور بیکار آبادی کے بوجھ تلے اس حصے کا کوئی مستقبل نہیں اور ڈوبنا اس کا مقدر ہے‘‘۔
''اگلے روز جب روح القدس نے فدا حسین کے یہ کلمات بنگ بندھو تک پہنچائے تو وہ چراغ پا ہو گیا۔ اس نے کہا ''ایوب خان اوراسکے دیگر ساتھی شراب کے رسیا ہیں۔ وہ میری قوم کے بارے میں کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں۔ میری اور میری قوم کی تقدیر اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم اذان کی آواز سنتے ہی فجر کی نماز کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ فجر کے بعد ہم علی الصبح گھروں سے اللہ کے نام پر نکل پڑتے ہیں اور اللہ ہمیں راستے دکھاتا ہے۔ اس لیے ہمارے مقدر کی راہیں اللہ متعین کرتا ہے اور یہ پاکستانی جرنیلوں اور سیکرٹریوں کے ہاتھوں میںنہیں ہے‘‘۔
''بعد میں بنگالی قوم نے مشکلات سے گریز کیا اور پھرتاریخ رقم ہوگئی۔7 مارچ 1971ء کو دنیا کے اس خطے میں آخری تاریخ لکھی گئی۔ اس دن (شیخ مجیب الرحمان) نے طلباء اور عوام کے سامنے اعلان کیا'' موجودہ جدوجہد ہماری آزادی کی جدوجہد ہے‘‘۔ امن پسند بنگالی قوم نے اپنے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ اٹھالیا اور فلک شگاف نعرے لگائے ''جیئے بنگلہ‘‘ جیئے بنگ بندھو‘‘۔ اور پھر وہ ایک طویل لڑائی میں مصروف ہوگئے۔ یحییٰ خان کی فوجیں پہلے ہی بنگالی قوم پر حملوں کیلئے تیار بیٹھی تھیں۔ اس وقت بنگ بندھو کو اندازہ ہو چکا تھا کہ پاکستانی فوجیں حملہ کردیں گی۔ اس نے خفیہ طور پر جوابی حملے کیلئے ماسٹر پلان بنایا۔ بنگ بندھو نے اپنے قابل اعتماد ساتھی مضمون نگار کے انکل ‘ اگر تلہ سازش کیس کے شریک ملزم اور سابق بیوروکریٹ روح القدس اور نور الدین احمد کو محمود پور گائوں جو بھومرا سرحد ضلع ست خیرہ کے قریب ہے، کے راستے دہلی بھیجا۔ انہیں پاسپورٹ کے بغیر بھیجا گیا۔ یہ پہلے طے پا چکا تھا کہ کولکتہ پہنچنے کے بعد وہ لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے فسٹ سیکرٹری ساسنکا سنکر بینرجی کو ٹیلی فون کریں گے اوراسے بتائیں گے کہ بنگ بندھو نے انہیں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے دہلی میں ملاقات کیلئے بھیجا ہے‘‘۔
''بنگ بندھو کی طرف سے وہ اندرا گاندھی کو بتائیں گے کہ چونکہ بنگ بندھونے پہلے ہی7مارچ 1971ء کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کررکھا ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ یحییٰ خان کسی بھی لمحے بنگالیوں کا قتل عام شروع کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں ہندو اورمسلم ہلاک ہو جائیں گے۔ پاکستانی فوج کے اس ممکنہ حملے کی مزاحمت کے لیے بھارتی فوج کو بنگلہ دیشی عوام کی مدد کیلئے آگے آنا ہوگا اور انہیں فوجی اسلحہ اور تربیت مہیا کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ انہیں کولکتہ میں بنگلہ دیش کی جلا وطن حکومت قائم کرنے کیلئے ہرقسم کی مدد کرنا ہوگی۔ طویل جنگ آزادی کے دوران بھارتی فوج کو بھی بنگلہ دیش کے حریت پسندوں کے ساتھ حصہ لینا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے جنگ عظیم دوم کے دوران فرانس نے لندن میں جلا وطن حکومت قائم کرلی تھی۔ اس کے علاوہ بھارتی سرزمین پر بنگلہ دیش کی حکومت کو تسلیم کرنے اور پاکستان کی طرف سے ممکنہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں زخمی ہونے والے بنگلہ دیشی لوگوں کا تحفظ یقینی بنائے‘‘۔
''یاد پڑتا ہے کہ جب یہ خاکسار(موسیٰ صادق) مغربی بنگال جانے کیلئے اپنی جائیداد فروخت کرنے کی تیاری کر رہا تھا مسٹر قدس نے اپنی حفاظت اور خفیہ کاموں کے سلسلے میں ہوٹل میں ہی قیام کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ اس ہوٹل کا مالک اسے پہلے سے ہی جانتا تھا۔ اس نے ساسنکاسنکر بینرجی کو فون کرنے کی بہت کوشش کی جو لندن میں بھارتی ہائی کمیشن میں فرسٹ سیکرٹری کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ 1962-66ء کے دوران جب بینر جی ڈھاکہ میں سیکنڈ سیکرٹری کے عہدے پر تعینات تھا تو اس نے بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان اور ''اتفاق‘‘ کے ایڈیٹر تفضل حسین مانک میاں سے مشرقی پاکستان کی آزادی کے بارے میں گفتگو کیلئے کئی بار ملاقات کی۔ بدقسمتی سے مسٹر قدس بے پناہ کوششوں کے باوجود بینرجی سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا‘‘۔
''ہوا یوں کہ بینرجی ہر دفعہ ریسیور یہ کہہ کررکھ دیتا تھا کہ اسے آواز نہیں آ رہی۔ 12مارچ کو مسٹر قدس نے دوبارہ بینرجی کو ٹرنک کال کی۔ بینرجی کا جواب وہی تھا کہ اسے آواز نہیں آ رہی۔ اس موقع پر اسے بنگ بندھو کی طرف سے دیا ہوا وہ کوڈ نمبر یاد آیا جو ساسنکاسنکر سے گفتگو کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ایوب خان کی خفیہ ایجنسی نے شیخ مجیب الرحمان کا کوڈ نام ''پراش‘‘ رکھا ہوا تھا۔ یہ نام بنگ بندھوکواس وقت دیا گیا جب اس پراگرتلہ سازش کیس چل رہاتھا۔ بھارتی سفارت کار اس حقیقت سے واقف تھا۔ بنگ بندھو نے روح القدس کو بتایا تھا کہ وہ بینرجی سے گفتگو کے دوران ''پراش مونی‘‘ کا ذکر کرے۔ جونہی قدس نے بینرجی سے گفتگو کے دوران کہا کہ ''پراش مونی بول رہاہوں‘‘ تو پھررابطے کا کوئی مسئلہ نہ رہا۔ بینرجی نے اسے کہا کہ وہ اگلے دن اسے فون کرے۔ قدس نے 13مارچ کو اسے لندن فون کیا۔ اسے کہا گیا کہ وہ اسی رات ٹرین کے ذریعے دہلی پہنچے اور دہلی پہنچ کر وہ اپنی آمد کے بارے میں مطلع کرے۔ اس کے بعد اسے اگلے شیڈول کے بارے میں بتایا جائے گا۔ 14 مارچ کی صبح دہلی پہنچنے پر نورالدین احمد اورروح القدس نے بینرجی سے فون پر رابطہ کیا۔ بینرجی نے انہیں بتایا کہ مسز اندراگاندھی آج بہت مصروف ہیں ۔ اس لیے وہ ان سے آج نہیں مل سکتیں۔ تاہم مسز گاندھی نے ہدایت کی کہ وہ (نورالدین اور روح القدس) منصوبہ بندی کے وزیر ڈی پی دھر سے مل لیں۔ بینرجی نے روح القدس کومسٹر دھر کا فون نمبر دیا اور کہا کہ اس کا فون سنتے ہی مسٹر دھر انہیں لینے کیلئے اپنا عملہ بھیج دے گا۔ جوانہیں مسٹر دھر کے دفتر لے آئے گا اورپھرمسز گاندھی سے ان کی ملاقات کا اہتمام ہو جائے گا۔‘‘ (جاری)