پیغام

آصف علی زرداری کی وطن واپسی پر جیالے خوش ہیں اور ایسے تجزیہ کار مایوس جو ٹارزن کی واپسی سمجھ رہے تھے۔ واپسی کو فوجی قیادت میں تبدیلی سے جوڑنے والوں کو تومایوس ہونا ہی تھا۔ خطاب کے دوران اہم اعلانات کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھی پریشان ہیں۔ آصف علی زرداری کی تقریر میں مفاہمت اور مصالحت کا رنگ غالب تھا اور اٹھارہ ماہ قبل کی تندی ‘ تلخی اور جنگجویانہ لب و لہجہ غائب۔ یہ حقیقت پسندی ہے‘ تلافی مافات‘ بیرون ملک قیام کا اثر یا اسٹیبلشمنٹ و حکومت کے ساتھ مل جل کر چلنے کی پیشکش‘ بات زیادہ دیر تک چھپی نہ رہے گی۔
آصف علی زرداری چاہتے تو بیرون ملک روانگی سے پہلے والی تقریر دہرا سکتے تھے‘ اپنی پیش گوئی کی صداقت پر اصرار کرتے اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر ''ہوشیار خبردار‘‘ کی زبان میں مخاطب کرتے مگر ایک دور اندیش سیاست دان کی طرح انہوں نے گڑے مردے اکھاڑنے کے بجائے مستقبل کے حوالے سے روائتی نرم زبان استعمال کی؛ تاہم یہ واضح نہیں کہ اس شیریں گفتاری میں دوپہر کے چھاپوں کا حصہ کتنا ہے؟ اور زرداری صاحب نے اپنے قریبی ساتھی‘ جس پر ذوالفقار مرزا نے فرنٹ مین کا لیبل چسپاں کیا تھا ‘کے دفتر پر چھاپوں سے کیا مفہوم اخذ کیا؟ اگر یہ چھاپے کسی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہیں تو اسے محتاط ترین الفاظ میں زرداری صاحب کی اٹھارہ ماہ قبل کی گئی تقریر کا موثر ردعمل قرار دیا جا سکتا ہے کہ ''ہم یہاں صرف تین سال کے لیے نہیں کراچی میں مکمل قیام امن اور دہشت گردوں‘ سہولت کاروں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے تک موجود ہیں اور افراد کے آنے جانے سے پہلے کوئی فرق پڑا ہے نہ آئندہ پڑے گا‘‘۔
زرداری صاحب کی آمد کے روز کراچی میں رینجرز کے چھاپوں پر ٹائمنگ کا سوال اُٹھ رہا ہے اور چھاپوں کے مقاصد کے علاوہ احکامات جاری کرنے والی اتھارٹی کے بارے میں بھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کیا یہ نواز شریف کی طرف سے زرداری کو گرینڈ الائنس سے روکنے کی تدبیر ہے؟ نثار علی خاں کا کوئٹہ کمشن کی آڑ میں پیپلز پارٹی کی جارحیت کا جواب؟ یااسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس تاثر کی نفی کہ جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد مرکز اور صوبوں میں طاقتور شخص اور بااختیار ادارے کو من مانی کی اجازت ہے اور حکمرانوں کے فرنٹ مین خواہ زمینوں پر قبضہ کریں‘ بھتہ خوری یا قتل و غارت گری کا بازار گرم‘ ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں‘ جو تھا وہ چلا گیا؟ میاں نواز شریف پر بدگمانی کا تو بظاہر کوئی جواز نظر نہیں آتا‘ عمران خان اور بلاول کے مقابلے میں آصف علی زرداری بطور اپوزیشن لیڈر مفید ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے زرداری صاحب کے بارے میں جس خوش گمانی کا اظہار کیا وہ محض لفاظی تھی نہ دوغلا پن۔ نثار علی خاں البتہ وزیر داخلہ کے طور پر زرداری صاحب کے انور مجید جیسے قانون شکن ساتھی کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کر سکتے ہیں جو ایک ایمانداری آئی جی سندھ کو تبدیل کرانے کا ذمہ دار ہے اور جس نے ذوالفقار مرزا جیسے بڑبولے اور دلیر شخص کو پہلے وزارت داخلہ اور پھر پارٹی سے نکلوا کر دم لیا۔
سازشی کہانیوں سے قطع نظر قرین قیاس یہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پہلے سے جاری آپریشن میں تیزی لانے اور کراچی میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت و بدامنی پر قابو پانے کے لیے کارروائی کی اور یہ کارروائی عین اس روز ہوئی جب زرداری صاحب کراچی میں اترنے والے تھے ۔ شائد ٹائمنگ کا انتخاب جان بوجھ کر کیا گیا ہو ‘کہ آپریشن اور قیادت کی تبدیلی کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سدّباب ہو اور مایوسی کا شکار کراچی کے عوام کے حوصلے بلند کرنے میں مدد ملے۔آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم کراچی کا امن عزیز ہے؟ مظلوم اور بے بس عوام کی جان و مال‘ عزت و آبرو کا تحفظ درکار ہے؟ اور ملک کی معاشی شہ رگ میں اقتصادی و تجارتی سرگرمیوں کی بحالی مطلوب ہے ؟یا آصف علی زرداری اور اس کے انور مجید جیسے دوستوں کے مفادات اور شہر میں جرائم پیشہ افراد کی آزادی و خودمختاری سے ہمدردی؟ ہماری وفاداری ملک کے ساتھ ہے‘ یا اس کی بنیادیں کھوکھلے کرنے والے لٹیروں‘ قبضہ گروپوں‘ بھتہ خوروں اور اغواء کاروں کے ساتھ جنہوں نے کراچی کو کسی شریف آدمی کے رہنے کے قابل چھوڑا نہ سیاست اور جرم میں کسی قسم کی تفریق باقی رہنے دی۔ ٹائمنگ کی بحث بجا‘ لیکن اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ فلاں جگہ پر اسلحہ بارود اور مجرموں کا ٹولہ موجود ہے تو اُسے محض اس بنا پر چھاپہ نہیں مارنا چاہیے کہ یہ زرداری کے طیارے کی لینڈنگ کا وقت ہے؟ میڈیا اس چھاپے کو زرداری صاحب کی آمد سے جوڑ کر دور کی کوڑیاں لائے گا؟اور ''بدترین جمہوریت‘‘ کو دھچکا لگے گا۔
انور مجید اور اُن کے گرفتار فرنٹ مین پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن ہیں نہ سندھ یا کراچی میں ان کی سیاسی خدمات کا کسی کو علم ہے۔ چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ نثار علی خان منی لانڈرنگ میں ملوث منی چینجرز کا ذکر کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک نے خودکشی کر لی اور دوسرا امریکہ میں زیر حراست ہے جسے وزیر داخلہ نے گرفتار کرایا ‘نہ گرفتاری میں رینجرز اور فوج کا عمل دخل ہے۔ پاکستان سے قیمتی زرمبادلہ کی بیرون ملک غیر قانونی منتقلی اور ڈالر کے نرخوں میں ظالمانہ اتار چڑھائو میں ملوث افراد کی گرفتاری کو سیاسی رنگ دینا حُب الوطنی ہے نہ جمہوریت پسندی۔ڈالر کے نرخ اچانک 109 تک پہنچ گئے مگر حکومت کے کانوں پر جوں رینگی نہ وزارت خزانہ کو رحم آیا۔ البتہ منی لانڈرنگ میں ملوث کوئی فرد یا گروہ پکڑا جائے تو جمہوریت پسندوں کے سینے میں دودھ اترنے لگتا ہے۔ اگر جمہوریت کا دفاع جرائم پیشہ عناصر نے کرنا ہے تو کراچی اور ملک کے عوام باز آئے‘ اس ''بدترین جمہوریت‘‘ سے‘ جو ہمیشہ نوسر بازوں لٹیروں‘ بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں‘ قاتلوں اور قانون شکنوں کی پشت پناہ قومی اداروں کے لیے وبال جان بنی رہتی ہے۔ ایک نیک نام آئی جی اے ڈی خواجہ کی جبری رخصت کا مقصد اگر یہ تھا کہ جرائم پیشہ گروہ کھل کھیلیں اور فوج و رینجرز خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے تو شائد فوجی اور رینجرز قیادت کی تبدیلی سے سندھ حکومت اور زرداری کے ذاتی دوستوں نے غلط مطلب اخذ کیا۔ الطاف حسین جیسے عفریت سے ایم کیو ایم‘ اہل کراچی اور اہل پاکستان کی جان چھڑانے والے اداروں کے لیے انور مجید اور اس کے سرپرست کوئی مسئلہ ہیں نہ انہیں ہینڈل کرنا مشکل ۔ زرداری صاحب اگر چوکڑی نہیں بھولے توان چھاپوں کے بعد محتاط ضرور ہو گئے‘ پیغام انہوں نے درست سمجھا اور یہ قرار واقعی وزارت داخلہ اور رینجرز کی مشترکہ کارروائی ہے تو چودھری نثار علی خاں نے بدلہ خوب لیا۔27دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر زرداری صاحب اپنے جیالوں کو کیا خوشخبری سناتے ہیں؟ انتظار کرنا پڑے گا۔ میرا خیال ہے یہ پیغام شائد اسلام آباد میںزرداری صاحب کے بہی خواہوں کے لیے بھی ہے‘ اگر وہ سمجھ پائیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں