’’بدترین جمہوریت‘‘

عقل و شعور اور منطق و استدلال کی کسوٹی پر‘ پرکھے بغیر ہمارے ہاں دو اقوال زرّیں کو بہت پذیرائی ملی۔''بدترین جمہوریت‘ بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘ اور ''جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ حکمران اشرافیہ کے ذہنی غلاموں اور ہر نامعقول بات پر ایمان لانے والوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ مقابلہ بدترین اور بہترین میں ہو تو کوئی عقل کا اندھا ہی بدترین کو بہترین پر ترجیح دے سکتا ہے اور ''جمہوریت بہترین انتقام‘‘ جیسے لایعنی جملے کا مطلب کیا ہے؟ آمریت اور جمہوریت کے موازنے میں تو ہر عقلمند جمہوریت کو ترجیح دیگا مگر سنگا پور میں لی کوان‘ چین میں کمیونسٹ پارٹی‘ اور پاکستان میں ایوب خان کی آمریت کا مقابلہ ذوالفقار علی بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی جمہوریت سے کرتے ہوئے ہوش مند انسان کو کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔
مجید نظامی صاحب مرحوم ‘میاں نواز شریف کے ساتھ دورہ سعودی عرب کا ایک واقعہ بیان کیا کرتے تھے۔شاہ فہد سے ملاقات کے بعد عمرہ کی غرض سے سرکاری وفد مکّہ معظمہ پہنچا اور پھر رات گئے جدہ ۔وزیر اعظم کے قیام کے لیے ایسا کمرہ منتخب کیا گیاجس کی کھڑکی سے ساحل سمندر کا دلفریب نظارہ آسان تھا۔ وزیر اعظم نے مجید نظامی صاحب کو بالکونی میں بیٹھ کر قہوہ پینے کی دعوت دی۔ جن لوگوں کو جدہ میں قیام کا موقع ملا‘ جانتے ہیں کہ رات کو ساحل سمندر پر خوب رونق ہوتی ہے۔بچے اور بڑے مرد و خواتین آزادی سے گھومتے پھرتے اور بے خوف اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔ نظامی صاحب نے میاں صاحب کو ساحل سمندر پر رات گئے سینکڑوں کی تعداد میں موجود مرد و خواتین اور بچوں کی طرف متوجہ کیا اور کہا ''کسی ڈر اور خوف کے بغیر رات گئے گھروں سے دور اس جگہ گھومنے والے بڑوں اور بچوں کو بھلا اس سے کیا غرض کہ سعودی عرب میں نظام حکومت کیسا ہے جمہوری‘ موروثی‘ شاہانہ یا آمرانہ؟ میاں صاحب! لوگ امن چاہتے ہیں تحفظ اور خوشحال زندگی جو پاکستان کا کوئی حکمران اپنے عوام کو فراہم نہیں کر سکا‘‘
پاکستان کے عوام بالخصوص سیاسی کارکن اس لحاظ سے مظلوم ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کے لیے بے مثل قربانیاں دیں‘ مگر جواباً انہیں ناخواندگی‘ پسماندگی‘ صحت اور روزگار کی ناکافی سہولتوں اور غربت و افلاس کا تحفہ ملا جبکہ انہیں احتجاجی تحریکوں میں جھونکنے‘ حصول اقتدار کے لیے بطور سیڑھی استعمال کرنے والوں کو بلا شرکت غیرے اختیار ‘ قومی خزانے پر دسترس اور سرکاری وسائل پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کا موقع ملا اور ان ندیدوں نے جمہوریت کی '' جیم ‘‘سے بھی اپنے کارکنوں اور جمہوریت کے نام لیوا عوام کو مستفید ہونے کا موقع فراہم نہ کیا۔ بدنام ایوب خان کا بیٹا ہوا‘ لاٹری بھٹو‘ بے نظیر‘ زرداری اور نواز شریف کے بچوں کی نکلی۔ بیرون ملک جمہوری حکمرانوں کے اثاثوں ‘ بنک اکائونٹس میں اضافہ ہوا۔ بدترین جمہوریت کے بھونڈے انتقام کی تازہ ترین مثال پانچ ریگولیٹری اداروں پر سرکاری قبضہ ہے۔ نیپرا‘ اوگرا‘ پیپرا‘ پی ٹی اے اور فیب اب خود مختار نہیں مختلف وزارتوں کے ماتحت ادارے کے طور پر کام کریں گے۔3نومبر کے اقدام کے بعد جنرل پرویز مشرف نے پیمرا کو وزارت اطلاعات کے ماتحت ادارہ قرار دیا تو ہمارے جمہوریت پسند سیاستدانوں اور صحافیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا احتجاج جائز تھا اور ایک ریگولیٹری ادارے پر حکومت کا کنٹرول سو فیصد غلط۔ مگر ایک دو نہیں پانچ اداروں کا کنٹرول حکومت نے سنبھال لیا‘ حکمران جماعت کے کسی ایم این اے ‘ایم پی اے کی رگ حمیّت پھڑکی نہ صبح‘ دوپہر‘ شام قوم کی سماعتوں میں ''بدترین جمہوریت‘‘ کے فیوض و برکات انڈیلنے والے اہل دانش کی زبان برق کی صورت کڑکی۔ نجانے زبان گنگ اور قلم کند کیوں ہے؟
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں 
آبلے پڑ گئے‘ زبان میں کیا
ان اداروں پر سرکاری قبضے کی اُفتاد کیوں پڑی؟ میاں صاحب کو آرمی چیف کے تقرر اور چیف جسٹس کی تبدیلی کے بعد یہ فیصلہ کیوں کرنا پڑا؟ گزشتہ شب کامران خان کے پروگرام میں وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ کسی کو بُرا لگے یا بھلا حقیقت یہ ہے کہ مرضی کے آرمی چیف اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس کی تعیناتی کے بعد میاں صاحب ایک بار پھر 1993ئاور 1999ء کی طرح من مانی پر اتر آئے ہیں اور خود مختاراداروں پر ہاتھ صاف کر کے انہوں نے دیگر اداروں کو پیغام دیا ہے کہ وہ بھی اپنی آزادی‘ خود مختاری اور ''بے جا‘‘ فعالیت کی خیر منائیں۔ ان کے سر پر2018ء کے انتخابات بھوت کی طرح سوار ہیں اور میاں صاحب ہر شاخ پراپنا اُلّو بٹھانے کو بے تاب۔ نیپرا اور اوگرا کم و بیش چھ سو ارب روپے کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ تھے‘ جنہیں حکمران من پسند کمپنیوں کے ذریعے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ادارے پاور پلانٹس‘ بجلی و گیس کے ٹیرف اور ایل این جی پر حکومتی منشا کے مطابق فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔ چینی کمپنی دو ارب ڈالر کا لاہور تا مٹیاری ٹرانسمیشن منصوبہ نیپرا کی شرائط اور ٹیرف پر مکمل کرنے کے لیے تیار ہے نہ حکومت اور وزارت پانی و بجلی‘ نیپراکی یہ ہدائت ماننے پر آمادہ کہ جب وافر مقدار میں سستی بجلی دستیاب ہے تو مہنگے پلانٹ چلانے اور لوڈشیڈنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں نیپرا کی طرف سے بجلی کے نرخوں میں کمی سے بھی حکومت پریشان ہے اور 
نندی پور پلانٹ کی اضافی لاگت کی مد میں پچیس ارب روپے صارفین سے وصول کرنے سے معذور۔ حکومت کو یہ بھی گلہ ہے کہ نیپرا کی موجودگی میں ساہیوال پاور پلانٹ کمرشل بنیادوں پر چلانا مشکل ہے کیونکہ نیپرا عوامی مفاد میں بجلی کے نرخ مقرر کرنے پر مُصر‘ جبکہ حکومت سرمایہ کاروں کے مفاد کو ترجیح دینے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ یہی حال اوگرا کا ہے جو من مانے نرخوں پر ایک سو پچاس ارب روپے مالیت کی ایل این جی درآمد کرنے پر معترض اور ایک چینی کمپنی کے ساتھ ڈیڑھ ارب ڈالر کے معاہدے میں رکاوٹ ہے جو مبینہ طور پر گوادر نواب شاہ گیس پائپ لائن اور ایل این جی ٹرمینل کے معاہدے میں مرضی کا ٹیرف منظور کرانا چاہتی ہے نیپرا مسلسل حکومت سے یہ مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے باعث ایک سو ساٹھ ارب روپے کا ریلیف عوام کو منتقل کیا جائے۔پیپرا بھی ٹھیکوں میں شفافیت اور عوامی مفاد ملحوظ رکھنے پر اصرار کرتا ہے جو حکمرانوں کی چڑ ہے۔
پانچ خود مختار اداروں پر کنٹرول حاصل کر کے حکومت نے چین اور ترکی کے سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر شکوک و شبہات کا سایہ ہی نہیں ڈالا ‘ شفافیت کے دعوئوں کی نفی کی ہے۔ بہترین اور بدترین جمہوریت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں آئین کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی ‘فیصلوں میں اجتماعیت اور شفافیت اور عوام کے مفاد کو ہر صورت ملحوظ رکھا جاتا ہے جبکہ موخر الذکر میں حکمرانوں کے ذاتی مفاد‘ انفرادی فیصلوں میں اخفا اور آئین و قانون کے بجائے شخصی پسند و ناپسند کو اولیت حاصل ہوتی ہے گزشتہ روز وزیر داخلہ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے تبادلے کی مثال دی‘ لیکن انہیں یاد نہ رہا کہ ایسے ہی ایک ایماندار پولیس افسر ذوالفقار چیمہ کو پنجاب کا آئی جی بنانے میں رکاوٹ کیا تھی؟ جمہوری حکومت بلدیاتی انتخابات اور مردم شماری سے گریزاں کیوں رہی اور عدالت عظمیٰ کو حکم جاری کرنا پڑا۔ اوگرا کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد حکومت نے سی این جی سٹیشنز کو من مانے نرخ مقرر کرنے کی آزادی دی۔ ہمارا تاجر اور سرمایہ دار خوف خدا اور رحم دلی کے جذبے سے عاری ہے اور حکمران طبقہ ہر شعبے سے کمشن و کک بیکس وصول کرنے کا عادی۔ اس سفاک سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی نظام کو بدترین جمہوریت قرار دے کر بہترین آمریت سے بہتر ثابت کرنے پر ہم سب تلے ہیں اور کسی کو احساس نہیں کہ بھلا بدتر‘ بہتر سے کس طرح بہتر ہو سکتا ہے‘ یہ قوم اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ اسے آمریت کبھی خالص ملی نہ جمہوریت عوام دوست ۔بدترین آمریت اور جمہوریت میں مقابلہ رہا اور کبھی کسی نے جمہوریت میں بہتری لانے کی شعوری کوشش کی نہ آمرانہ ادوار کے بہتر‘ عوام دوست اور ترقی پسندانہ اقدامات کو برقرار رکھنے کی سعی۔ توقعات ہم بدترین اور پست لوگوں سے وابستہ کرتے ہیں اور اُمید بہتر نتائج کی رکھتے ہیں ہم سا نادان بھی جہان میں کہاں ملے گا‘ کیکر کاشت کر کے آم اور کینواُتارنے کی خواہش ہمارے سوا کون کر سکتا ہے؟۔شائد یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں