کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی!

نومبر، دسمبر کے مہینے ہم اہل صحافت کے لیے قیامت گزرے۔ اسلم کولسری کی جدائی کا غم تازہ تھا کہ شفیق مرزا چل بسے، ابھی اس عالم ‘فاضل‘ ملنسار اور منکسر المزاج صحافی کی تربت کی مٹی خشک نہ ہوئی تھی کہ سید انور قدوائی نے موت کی چادر اوڑھ لی۔ ان کا جنازہ بھی نہ اٹھا تھا کہ آپا رفعت کے انتقال کی خبر آ گئی۔ چاروں کے چاروں صحافی مگر ہر ایک کا شعبہ الگ اور چاروں اپنے شعبے میں یکتا۔
آپا رفعت سے برخوردارانہ تعلق اس وقت استوار ہوا جب کوچۂ صحافت میں ابھی قدم رکھا تھا۔ عبدالقادر حسن صاحب نے ''افریشیا‘‘ میں پیشہ ورانہ خدمت کا موقع فراہم کیا تو اردو ڈائجسٹ سے رخت سفر باندھا اور مال روڈ پر واقع کمرشل بلڈنگ میں پہنچ گئے۔1970ء کے عشرے میں اردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ زندگی، ہفت روزہ بادبان نوواردان صحافت کے لیے درس گاہ کا درجہ رکھتے تھے، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی اور عبدالقادر حسن دائیں بازو کے نوجوان صحافیوں کے آئیڈیل تھے اوران کے ساتھ کام کرنا باعث فخر۔ جناب مجید نظامی، حسین نقی، محمد صلاح الدین اور نثار عثمانی مرحوم کی حق گوئی و بے باکی میں کسی کو کلام نہ تھا اور صحافتی حلقوں میں یہ ہمیشہ قابل احترام ٹھہرے، مگر پنجاب میں ڈنکا قریشی برادران، عبدالقادر حسن اور مجیب الرحمن شامی کا بجتا کہ ان کے قلم کی کاٹ نے ایک مقبول حکمران کو گھائل کیااور اخبار بین و اخبار نویس نوجوانوں کو اپنی طرف مائل۔ ''افریشیا‘‘ میں کام شروع کیا تو عبدالقادر حسن صاحب کے گھر واقع مزنگ آنے جانے لگا ‘جہاں آپا رفعت‘ لاہور کی روشنیوں سے مرعوب دیہی پس منظر کے نوجوان کی آئوبھگت‘ اُسی خلوص اور بے تکلّفی سے کرتیں‘ جس طرح عبدالقادر حسن صاحب کے وادی سون سکیسر سے آئے مہمانوں کی۔ انہی دنوں چودھری ظہور الٰہی مرحوم نے رفعت عبدالقادر حسن کے ایک مضمون کا جواب نوائے وقت میں دیا۔ چودھری خاندان سے دیرینہ تعلقات کے باوجود آپا رفعت نے ہیر ‘ رانجھے اور کیدو کے بارے میں وہ کچھ لکھا اور عشق و محبت کی اس داستان کے ایسے پرخچے اڑائے کہ چودھری ظہور الٰہی جیسا دبنگ اور ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری آمریت کے سامنے نہ جھکنے والا سیاستدان پسپائی پر مجبور ہو گیا۔ آپا رفعت کا موقف تھا کہ ہیر اوررانجھے نے پنجاب کی روایتی غیرت کو پامال اور سفید پگ کو داغدار کیا مگر افسانہ نویسوں نے دونوں کو ہیرو بنا دیااور غیرت مند ماموں کو ولن۔ آپا سے آخری ملاقات ڈیڑھ سال قبل جم خانہ کلب میں ہوئی جہاں عزیزم اطہر حسن ملک اور اسما حسن نے عبدالقادر حسن کی سالگرہ کا اہتمام کیا۔ میں نے آپا کو سلام کیا اور اپنا نام لیا تو نہال ہو گئیں اور نہ ملنے کا گلہ کیا ۔ عبدالقادر حسن صاحب جنگ میں لکھا کرتے تھے مگر آپا اپنا کالم نوائے وقت میں بھیجتیں اور قلیل معاوضے پر خوش رہتیں۔ مجھے علم تھا کہ کتابوں اور کالموں کی آمدنی انہوں نے کبھی اپنے اوپر خرچ نہ کی۔ کئی ضرورت مند اس سے مستفید ہوتے اور اپنی فیاض و خدا ترس باجی کو دعا دیتے۔ انہی دعائوں کے جلو میں وہ ملک عدم کو سدھار گئیں جہاں سے لوٹ کر کوئی نہیں آیا۔
شفیق مرزا سے شناسائی ''شہر سدوم‘‘ کے ذریعے ہوئی جو جعلی نبوّت کے دعویداروں کی خلوت و جلوت ‘ کی داستان ہے۔ ملاقات پنجابی زبان کے سکالر اور نظریاتی سیاسی کارکن سید سبط الحسن ضیغم (مرحوم) نے کرائی۔ ان دنوں اپنے برادر عزیز خورشید گیلانی کے ساتھ وائی ایم سی اے ہاسٹل میں بسیرا تھا اور اہل علم و فضل سے ملاقاتوں کا جنون سر پر سوار رہتا۔ لاہور ابھی انسانوں کے جنگل میں تبدیل ہوا تھا نہ میل ملاقات میں میلوں کے فاصلے‘ بے ہنگم ٹریفک اور مہنگائی حائل تھی۔ اومنی بس کی سواری باعث شرم تھی نہ کسی کھوکھے سے چائے اور ٹھیلے سے نان چھولے کھانے میں جھجک۔ وائی ایم سی اے ہاسٹل میں تین سو روپے ماہانہ کرایے پر کمرہ لیا تو دوست احباب نے عیاشی قرار دیا کہ ان دنوں تمام ہاسٹلز میں سو ڈیڑھ سو روپے ماہانہ کرائے پر کمرہ مل جایا کرتا تھا۔ شفیق مرزا سے پہلی ملاقات ہی برسوں تک پرخلوص تعلقات کی سیڑھی ثابت ہوئی۔ مہینہ تو یاد نہیں سن غالباً1983ء تھا جب مرزا صاحب جنگ آفس میں ملے اور بتایا کہ وہ اس ادارے سے باضابطہ طور پر وابستہ ہو گئے۔ اگلے دو اڑھائی سال تک خوب ملاقاتیں رہیں۔ اوقات کار ہمارے الگ الگ تھے مگر مل بیٹھنے کی تدبیر دونوں نکال ہی لیتے۔ میں جنگ چھوڑ کر نوائے وقت میں چلا گیا تو دونوں صحافتی اداروںکی کاروبار چشمک ہمارے برادرانہ مراسم میں رکاوٹ بنی نہ میل ملاقات میں گرم جوشی ختم ہوئی ‘البتہ جوں جوں شہر پھیلتا گیا اور گھریلو و دفتری مصروفیات میں اضافہ ہوا وقفہ طویل ہونے لگا۔ ان کے علم و فضل کے علاوہ دیانت و امانت‘ پیشہ ورانہ مہارت ‘خود داری و خود نگری کے ہم سب مداح تھے اردو ‘ عربی ‘ انگریزی زبانوں پر کامل دسترس کے باوجود وہ مدمقابل کو مرعوب کرتے نہ بحث و مباحثہ میں نشانہ تضحیک بناتے۔ عجز و انکسار ان کی شخصیت کا خاصہ تھا اور توکل و قناعت ان کی زندگی کا اثاثہ ۔ برادرم ہارون الرشید کے ہمراہ سروسز ہسپتال میں عیادت کے لیے حاضر ہوا تو خیال تھا کہ مرزا صاحب روایتی مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کریں گے اور پھر خوب گپ شپ ہو گی مگر ڈاکٹروں نے ملاقات پر پابندی لگا رکھی تھی۔ کافی دیر ہم انور قدوائی صاحب کا انتظار کرتے رہے مگر ٹریفک میں پھنس جانے کے سبب وہ پہنچ نہ پائے۔ فون پر اس دوپہر دوبار بات ہوئی کھانے پر ملنے کا پروگرام بنا مگر ان سے ملاقات کی حسرت ہی رہی اور وہ بھی ایک دن کسی کو بتائے بغیر مرزا صاحب سے ملنے چل پڑے۔ شائد مرزا صاحب سے بائیس سالہ رفاقت انہیں راس آ گئی تھی اور وہ زیادہ دیر اپنے رفیق کار کی جدائی برداشت نہ کر سکے۔
انور قدوائی صاحب اپنی بارعب اور پرکشش شخصیت‘ پاٹ دار آواز اور مجلس آرائی کی وجہ سے ستر‘ اسّی اور نوّے کی دہائی میں نوجوان صحافیوں بالخصوص رپورٹروں کا آئیڈیل رہے ۔اپنے طرز گفتگو‘ منفرد لباس اور وصف مہمان نوازی کی وجہ سے وہ نواب صاحب کہلاتے اور ہر محفل میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ۔ ایک ہی ادارہ میں کام کرتے ہوئے بسا اوقات تعلقات میں سرد مہردی بھی آئی مگر ادارے سے باہر ان کی شفقت کا انداز نہ بدلا۔ ایک عزیز کی قرآن خوانی جہانزیب بلاک کی اسی گلی میں تھی جہاں انور قدوائی صاحب کا دولت خانہ ہے ان دنوں بعض مہربانوں نے قدوائی صاحب کو بدگماں کر رکھا تھا۔ قرآن خوانی جاری تھی کہ قدوائی صاحب کے صاحبزادے نے آ کر پیغام دیا کہ فارغ ہو کر ملتے جائیں‘ جا کر ملا تو پتہ چلا کہ انہوں نے پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کر رکھا ہے پوچھا اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟ بولے''دفتری معاملات چلتے رہتے ہیں مگر ذاتی تعلقات اور اخلاقی لوازمات میں فرق نہیں آنا چاہیے۔ بڑے بھائی کے طور پر میرا فرض بنتا ہے کہ گلی میں آئے چھوٹے بھائی کی خاطر مدارت کروں‘‘۔ خدا گواہ ہے پھر کبھی کوئی بدگماں نہ کر سکا۔ پیر صاحب پگاڑا‘ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ‘ مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار خان نیازی قدوائی صاحب کے مداح تھے اور شریف خاندان کے علاوہ چودھری خاندان سے تعلقات کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ ایوب دور سے لے کر اب تک سیاستدانوں‘ علمائ‘ صوفیا اور حکمرانوں سے ان کے گہرے تعلقات رہے اور وہ کئی اہم چشم دید واقعات کے گواہ تھے مگر افسوس اپنی یادداشتوں کو قلمبند نہ کر سکے۔ ذکر کئی بار ہوا‘ موقع کبھی نہ ملا۔ سید سرفراز شاہ صاحب ہم دونوں کی عقیدت کا مرکز ہیں اور اس حوالے سے ساجد خان کے ساتھ مل کر انہوں نے آراء کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیا سید امیر الدین قدوائی کا صاحبزادہ یادوں کی پٹاری کھولتا تو ؎
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
کے مصداق اہل مجلس کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا۔ چلتے پھرتے وہ چل بسے اپنی تابعدار اور خدمت گزار اولاد تک کو زحمت نہ دی۔
اسلم کولسری سے بطور شاعر برسوں قبل تعارف ہوا۔ عمران نقوی وسیلہ بنے۔ میل جول روزنامہ دنیا میں ملازمت کے دوران بڑھا ۔اس قدر فرض شناس جفا کش‘ منکسر المزاج سچے کھرے اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ بہت کم دیکھے۔ بچوں جیسی معصومیت اور دل و نگاہ کی تونگری دیکھ کر صوفی ہونے کا گماں گزرتا۔ شاعری میں انفرادیت بھی ان کے مزاج کا عکس ہے ؎
کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گل
یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا
اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی 
اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا
نومبر اور دسمبر نے خوب قیامت ڈھائی۔ خدا کرے کہ نیا سال اچھا گزرے 
جو بادہ کش تھے پرانے ‘وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں