مُک مُکا

ریاست کو بقا کے لالے پڑے ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکسوئی درکار ہے مگر ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین سیاست‘ سیاست کھیل رہے ہیں؎
میرِ سپاہ ناسزا‘ لشکریاں شکستہ صف
آہ‘ وہ تیر نیم کش‘ جس کا نہ ہو کوئی ہدف
پارلیمانی نظام میں حکومت ریاست کا انتظام آئین‘ قانون اور جمہوری روایات کے مطابق چلاتی ہے اور اپوزیشن متبادل حکومت کے طور پر حکومتی غلطیوں‘ کوتاہیوں‘ کمزوریوں اور‘ ضرر رساں فیصلوں‘ ناقص کار گزاری کی نشاندہی کرتی ہے‘ دونوں کی زور آزمائی سے مسائل زدہ ‘ کمزور‘ بے وسیلہ اور مظلوم عوام کا بھلا ہوتا ہے۔ مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں حکومت راہ راست پر گامزن رہتی اورطے شدہ آئینی حدود و قیود سے تجاوز نہیں کرتی مگر ہمارے ہاں سیاسی مفاہمت کے نام پر دونوں میں مک مُکا کا مکروہ کلچر رائج ہے۔صرف رائج کہاں‘ فروغ پذیر۔
سینیٹ کے انتخابات میں پیسوں کا لین دین ہوا‘ میاں نواز شریف نے اسے مکروہ دھندا اور ضمیر فروشی قرار دیا۔ ارکان اسمبلی وہی کچھ کر رہے تھے جو ان کے لیڈروں کا شیوہ ہے۔ پارٹی فنڈ کے نام پر مال بٹورنا اور ذاتی و خاندانی مفادات کا تحفظ کرنا۔ اسی بنا پر پارٹی میں اچانک آٹپکنے والے سرمایہ داروں‘ ٹھیکیداروں اور فصلی بٹیروں کو ٹکٹ ملتے ہیں اور پھر پرکشش و منفعت بخش سرکاری مناصب۔ پچھلی سینیٹ میں کئی ایسے چہرے قارئین کو یاد ہوں گے جو امریکہ‘ برطانیہ ‘ دبئی اور دیگر ممالک سے بریف کیس لے کر کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد اترے اور ایوان بالا کے رکن بن گئے ارکان اسمبلی آخر تک پوچھتے ہی رہ گئے کہ یہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں سودے بازی مختلف انداز میں ہوتی‘ سابق صدر آصف علی زرداری کی حکمت عملی بہتر اور دور اندیشی پر مبنی تھی‘ سو کامیاب رہی میاں صاحب حسب عادت فاٹا اور بلوچستان سے امیدیں لگائے کامیابی کے سپنے دیکھتے رہے حالانکہ انتخابی گہما گہمی شروع ہوتے ہی نظر آنے لگا تھا کہ زرداری ان پہ بھاری ہے۔
جمہوری نظام میں فتح و شکست کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے بھٹو صاحب کے دور میں درجن بھر ارکان پر مشتمل اپوزیشن بھی ہر انتخاب میں حکومت کے مدمقابل امیدوار لاتی۔ اس موقع کو اپنے موقف کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی اور عوام کو باور کراتی کہ وہ ان کے حقوق و معاملات کا تحفظ بھر پور طریقے سے کر رہی ہے مگر یہاں حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن دونوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں اور اس مکروہ نظام کا تحفظ مطلوب‘ جس نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
رضا ربانی بھلے آدمی ہیں‘ فاروق ایچ نائیک‘ عبدالرحمان ملک اور نیّر بخاری سے کہیں بہتر‘ پارٹی کے وفادار اور جمہوریت کے دلدادہ ۔ مگر جس اٹھارہویں ترمیم کو ان کا کارنامہ گردان کر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں‘ وہ کسی کا کارنامہ نہیں غلطیوں کا پشتارہ ہے۔ نظام تعلیم و صحت کا اس نے بیڑہ غرق کر دیا۔ اس ترمیم کے طفیل یونیورسٹیاں سرکاری کالجوں کی طرح بے یارو مددگار ہیں‘ نصاب تعلیم میں علاقائی‘ لسانی و نسلی تعصبات کی آمیزش اور وسائل بالخصوص معدنیات کی آمدنی تقسیم کرنے کا نیا نظام گورکھ دھندا۔ جس الیکشن کمیشن کی وجہ سے 2013ء کے انتخابات متنازعہ ہیں اور ججوں کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے وہ بھی اٹھارہویں ترمیم کا تحفہ ہے۔ 
مالی دیانت اور استقامت رضا ربانی میں ہے‘ پیپلز پارٹی کے باب میں؎
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
اُن کا شعار رہا۔ مگر اصول پسند بس وہ اس حد تک ہیںکہ کبھی کبھی قیادت کی منشا کے برعکس بول لیتے ہیں اور موقع ملے تو آنسو بہانے سے گریز نہیں کرتے ۔عملیت پسند وہ بلا کے ہیں ۔ پارٹی کی بڑی سے بڑی بے اُصولی ‘ قیادت کی تباہ کن غلطی اور آئین‘ قانون‘ جمہوریت اور سیاسی اخلاقیات کے منافی فیصلوں اور اقدامات پر مخدوم امین فہیم اور اعتزاز احسن کی طرح بالآخر وہ چپ سادھ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ کرپشن ‘ اقربا پروری اور قومی دولت کے ضیاع جیسے جرائم پر بھی وہ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کرتے ہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف کا کھڑکا ‘دھڑکا نہ ہوتا تو سینیٹ انتخابات کی طرح چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے معاملے میں بھی حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتی۔ فاٹا کی طرز کا کوئی صدارتی آرڈی ننس جاری ہوتا اور گھمسان کا رن پڑتا مگر عمران خان نے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور اب میاں نواز شریف کو ایک بار پھر آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کے ساتھ گزارہ کرنا پڑے گا۔ نیب کی تلوار نیام میں ڈالنی ہو گی اور وسائل و مراعات کی بوریاں کھولنی پڑیں گی تاکہ مفاہمت کی گدھا گاڑی خوش اسلوبی سے چلتی رہے‘ نوجوان نسل کو تبدیلی کے نعرے سے مایوس کیا جا سکے۔
موقع پرستی کے اس اتحاد کو دو مشکلات کا سامنا ہے ۔ رضا ربانی نیشنل ایکشن پلان‘ آئین میں بائیسویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے ناقد ہیں اور وہ سینیٹ میں کھڑے ہو کر برملا مخالفت کر چکے ہیں۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ سے مراد ٹاپ سیاسی ایلیٹ ‘ ٹاپ بیورو کریسی‘ ٹاپ فوجی قیادت ‘ ٹاپ صنعتی و تجارتی قیادت اور ٹاپ میڈیا لیڈر شپ کی اجتماعی سوچ اور فیصلہ سازی کے عمل میں باہمی ''ربط و ضبط‘‘ صلاح و مشاورت لی جاتی ہے مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ محض اور محض فوجی قیادت سمجھی جاتی ہے اور رضا ربانی کی نامزدگی کو اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میںسول قیادت کی فتح و کامرانی قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر مملکت کی عدم موجودگی میں چیئرمین سینیٹ صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالتا ہے اس بنا پر ماضی میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اس نزاکت اور مصلحت کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا رہا۔ اب کیا قائمقام صدر کا منصب اس شخص کے پاس ہو گا جو فوجی عدالتوں کا مخالف اور قومی اتفاق رائے کی حامل بائیسویں ترمیم پر معترض ہے‘ بالفاظ دیگر نیشنل ایکشن پلان سے غیر مطمئن‘ کیا آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے اپنے اتحادیوں سے مل کر اسٹیبلشمنٹ کو باور کرایا ہے کہ اس کو نیچا دکھانے کی دیرینہ خواہش کمزور پڑی ہے نہ فوج اور آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کا ماتحت ادارہ بنانے کا ارادہ ترک کیا گیا ہے۔ بس مناسب وقت کا انتظار ہے ۔ جو بات وزیر اعظم اور ان کے ساتھی‘ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور ان کے سیاسی آقا کھل کر نہیں کہہ سکتے وہ ایوان بالا میں کہی جائے گی ؟اور چیئرمین سینیٹ ایسے ارکان کو سہولت فراہم کریں گے؟۔اس نظام کے بعد کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی نظام میں خوشدلانہ مفاہمت برقرار رہے گی؟
کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز پر رینجرز کا چھاپہ میاں نواز شریف اور ان کے حلیف آصف علی زرداری کے لیے نئی آزمائش ہے ۔ الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کا ردعمل خلاف توقع نہیں ۔ ابھی ہماری سیاسی قیادت میں اتنی پختگی نہیں آئی کہ وہ اپنی صفوں میں گھسے دہشت گردوں‘ تخریب کاروں ‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کا سراغ لگا کر انہیں کڑی سزا دے یا قانون کے حوالے کرے‘ سراغ لگانا تو درکنار‘ ان سے اظہار برأت بھی نہیں لہٰذا ایم کیو ایم کا مطالبہ اب پیپلز پارٹی کی صوبائی اور مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت سے یہ ہو گا کہ گرفتار شدگان کو بلاتاخیر رہا کیا جائے اور واقعہ کے ذمہ دار اہلکاروں سے باز پرس کی جائے۔ صولت مرزا کی پھانسی بھی حلیفوں کے تعلقات میں دراڑیںڈالے گی۔ میاں صاحب اب کراچی آپریشن کی اونر شپ قبول کریں گے یا ایم کیو ایم کا ساتھ دیں گے؟
عمران خان جوڈیشل کمیشن نہ بننے کی وجہ سے اگلے دو اڑھائی ماہ میں ایک نئی احتجاجی تحریک منظم کرنے پر تلے ہیں‘ علامہ طاہر القادری کی کمک انہیں حاصل ہو گی جو سانحہ ماڈل ٹائون پر انصاف حاصل نہیں کر پائے۔ کراچی آپریشن میں تیزی آنے پر آپریشن کرنے والے ادارں کی یہ فطری خواہش ہو گی کہ میاں نواز شریف کی پوزیشن دو ٹوک اور واضح ہو۔ 'با مسلمان اللہ اللہ‘ بابرہمن رام رام‘ کی پالیسی اب چلنے کی نہیں اور گنگا گئے تو گنگا رام ‘ جمنا گئے تو جمنا داس کا وتیرہ گھاٹے کا سودا ہے۔ سیاست کا بے رحم کھیل اب زیادہ دیر چل نہیں سکتا کہ ریاست کو بقاکے لالے پڑے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکسوئی درکار ہے۔ فوج یکسو ہے مگر ہماری سیاسی قیادت کو جوڑ توڑ ‘ سازش ‘ مُک مُکا اور دھینگا مشتی سے فرصت نہیں‘ جن سے محاذ آرائی اور کشمکش بنتی ہے ان سے مفاہمت کا زمزم بہہ رہا ہے اور جہاں افہام و تفہیم اور اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے وہاں میں نہ مانوں کی ضد۔
سنگ را بستہ و سگاں را کُشادہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں