عزیز آباد کے ایم کیو ایم مرکز(90) پر رینجرز کا چھاپہ مُک مُکا کے موجودہ ماحول میں حیران کن اور چشم کشا واقعہ ہے۔ الطاف بھائی سے لے کر بابر غوری تک اس واقعہ پر جس کا اظہار خیال سنا‘ انکار اور اقرار کے درمیان معلق پایا ؎
شرما گئے‘ لجا گئے‘ دامن چھڑا گئے
اے عشق مرحبا‘ وہ یہاں تک تو آ گئے
کراچی‘ حیدر آباد‘ سکھر اور میر پور خاص کی طرح چاروں صوبوں کے ہر شہر و دیہات میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی نمائندہ جماعت کے طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے لیے کشش موجود ہے‘ مذہبی جماعتوں کے سوا کوئی سیاسی اور پارلیمانی جماعت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس نے غریب اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے افراد کو اسمبلیوں میں پہنچنے کا موقع فراہم کیا۔ صرف ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کو لوگوں نے گلیوں میں جھاڑو دیتے اور تھڑوں پر کارکنوں کے ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے دیکھا۔
ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدر آباد کے پڑھے لکھے‘ باشعور اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار عوام سے ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھائی اور بدنام زمانہ کوٹہ سسٹم کی بار بار توسیع پر احتجاج کیا تو یہ جائز بات تھی۔ کوٹہ سسٹم نے پولیس اور انتظامیہ کو تباہ کر دیا‘ اور کرپشن‘ نااہلی‘ کام چوری کے کلچر اور نسلی و لسانی تعصب کی آبیاری کی۔ اندرون سندھ مسابقت کا جذبہ ماند پڑا اور سرکاری ادارں میں سیاسی کارکنوں کی بھرتی کا رواج بڑھا۔
ایم کیو ایم ایوب خان‘ بھٹو‘ ضیاء الحق دور کے پیدا کردہ سیاسی، معاشی و سماجی مسائل اور تنازعات کا ردعمل تھی اور ردعمل کی بنا پروجود میں آنے والے گروہ عموماً توازن اور اعتدال سے محروم ہوتے ہیں۔ صرف ایم کیو ایم واحد مثال نہیں۔ ہمارے ہاں اِلاّماشاء اللہ اکثر سیاسی و مذہبی جماعتوں میں توازن و اعتدال کا فقدان ہے ۔'' اپنے ‘‘ظالم کو ظالم کہنے اور ''دوسروں ‘‘کے مظلوم کو مظلوم ماننے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔ جارج ڈبلیو بش ڈاکٹر ائن تو 9/11کے بعد متعارف ہوئی''آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف‘‘ مگر پاکستان میں یہ ہمیشہ سے سکہ رائج الوقت ہے میرے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ظالم ‘ قاتل‘ ڈاکو‘ لٹیرا اور بھتہ خور اس وقت تک ہر عیب سے پاک اور خیر کا مجسمہ ہے جب تک وہ میرا وفادار‘ تابعدار اور ساجھے دار ہے جونہی وہ مجھ سے الگ ہو ا برائی کا سرچشمہ اور دنیا جہان کے عیوب کا منبع قرار پائے گا۔
ایم کیو ایم کی قیادت سے گزشتہ روز بھی یہی غلطی ہوئی۔ وہ شام گئے تک اس الجھن کا شکار رہی کہ فیصل موٹا‘ نور الدین سبحانی اور عبید خورشید کے جرائم سے اظہار لاتعلقی کرے یا ان کی ماضی میں پارٹی سے وابستگی کا بوجھ اٹھائے ۔دانشمندی کا تقاضہ یہ تھا کہ صبح صبح ہی ان سے اظہار برات کر کے رینجرز کے ایکشن کو سپورٹ کیا جاتا۔ جماعت اسلامی کی مثال سامنے ہے جس کے ایک رکن یا متفق کے گھر سے امریکہ کو مطلوب القاعدہ کا اہم فرد برآمد ہوا تو جماعت کے اکابرین قانون نافذ کرنے والے اداروں پر برہم ہوئے‘ نہ اس شخص کی موجودگی کا دفاع کیا اور نہ چادر اور چار دیواری کی پامالی کا رونا رونے بیٹھ گئے ۔ ایک فرد کا ذاتی فعل قرار دے کر دامن بچا لیا۔
''جب دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور پورے شہر کیا پورے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں اور پولیس‘ رینجرز ‘ خفیہ ادارے ان کا سراغ لگانے سے معذور ہیں‘ ان کو کرائے کے مکانوں‘ بعض مدارس اور مساجد میں ٹھہرنے سے نہیں روک سکتے تو کسی مفرور یا سزا یافتہ شخص کی نائن زیرو کے اردگرد موجودگی سے ایم کیو ایم پر ذمہ داری کیسے عائد کی جا سکتی ہے ‘‘مگر یہ موقف اپنانے کے بجائے ایم کیو ایم کی قیادت مخمصے اور ابہام کا شکار رہی اور مخالفین و ناقدین کو طرح طرح کی سازشی تھیوریاں پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔
آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک میں کسی جماعت کا عسکری ونگ قائم رہ سکتا ہے نہ کسی قاتل‘ ٹارگٹ کلر‘ دہشت گرد اور بھتہ خور کا دفاع اور سرپرستی ممکن‘ جوں جوں آپریشن کا دائرہ وسیع ہو گا‘ ہر نوع اور نسل کے دہشت گردوں اور مجرموں کے گردقانون کا دائرہ تنگ ہوتا چلا جائے گا۔جس شخص‘ گروہ اور جماعت کو یہ سادہ سی بات جلدی سمجھ آ جائے گی ‘ آسودگی اور اطمینان اس کا مقدر ہے۔ چھاپے کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے جوڑنا اور نواز شریف و آصف زرداری کے مابین موقع پرستانہ مفاہمت کو سبوتاژ کرنے کی کارروائی قرار دینا دور ازکار‘ سازشی تھیوری تو ہو سکتی ہے جمہوریت پرستی یا دور اندیشی نہیں۔
رینجرز نے چھاپہ متحرک‘ فعال اور منہ پھٹ میڈیا کے سامنے مارا۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں نے مزاحمت نہیں کی اور الطاف بھائی نے گرفتار ہونے والوں سے گلہ کیا کہ انہیں عزیز آباد میں پناہ لینے کی کیا ضرورت تھی؟ بعض لوگوں کے خیال میں یہ حالات کا جبر ہے یا غیر ملکی میڈیا کے بقول ایم کیو ایم کی کمزوری کہ اس چھاپہ پر بات زبانی کلامی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھی مگر میری ناقص رائے میں یہ ایم کیو ایم کی قیادت کا دانشمندانہ فیصلہ ہے کہ اپنے کارکنوں کے مشتعل جذبات کی نمائندگی بھی ہو جائے اور ریاستی اداروں سے زیادہ بگاڑ بھی پیدا نہ ہو۔ ایم کیو ایم نے زوربیاں بھی زیادہ تر وقاص شاہ کی المناک موت پر صرف کیا جو فطری اور مناسب تھا ۔ ایک غیر مسلح کارکن کی المناک موت کے ذمہ دار کی گرفتاری اب رینجرز کا فرض ہے ۔
مجھے سب سے زیادہ افسوس سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے ارکان بالخصوص چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے اظہار خیال پر ہوا۔ ایم کیو ایم تو متاثرہ فریق ہے‘ اس کے ارکان کا احتجاج قابل فہم ‘ مگر پیپلز پارٹی تو سندھ میں حکمران ہے اور اس کی ریکوزیشن پر رینجرز کراچی میں بروئے کار ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو کراچی آپریشن کا کپتان قرار دے چکے ہیں اور شرجیل میمن روزانہ کراچی میں ٹارگٹڈ کارروائیوں کا کریڈٹ لیتے ہیں مگر سینیٹر رضا ربانی اور عبدالقیوم سومرو اس آپریشن پر برہم نظر آئے ۔ مذمت بھی کر دی اور یہ تک کہہ ڈالا کہ جمہوریت پسندوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی؟ کس جمہوریت پسند کو؟ فیصل موٹا اور نور الدین سبحانی کے باقی ماندہ ساتھیوں کو؟
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
اس آپریشن پر بعض لوگوں کی برہمی اور پریشانی دیکھ کر مجھے شاعر تنویر سپرا یاد آئے؎
گروہ عاشقاں پکڑا گیا ہے
جو نامہ بر رہے ہیں‘ ڈر رہے ہیں
سینٹ میں رینجر ز کے لتے لینے والوں میں سے بیشتر ان جماعتوں کے ارکان تھے جن کے اپنے عسکری ونگ ہیں یا رہے ہیں۔ خوف یہ ہے کہ اگلی باری ان کی ہے۔ چھاپہ اگر پاکستان کی تیسری یا چوتھی بڑی سیاسی جماعت کے دفتر پر پڑ سکتا ہے تو دوسرا کوئی مستثنیٰ کیسے؟ جن کے دفاتر اور ڈیرے ڈاکوئوں لٹیروں بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کی دیرینہ پناہ گاہیں ہیں وہ بھی آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں آپریشن کی زد میں آئیں گے اور یہی سوچ کر سازشی تھیوریاں پھیلائی جا رہی ہیں۔
وزیر اعظم اب تک خاموش ہیں‘ آصف علی زرداری نے اپنے بیان میں ترمیم کی اور باقی گومگو کا شکار۔ عمران خان اور نثار علی خان نے الفاظ چبائے بغیر آپریشن کی حمایت کی اور شف شف کرنے کے بجائے شفتا لو کہا۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی پاکستانی قوم کی پہلی اور آخری ترجیح ہے اور دہشت گردوں‘ قاتلوں ‘ بھتہ خوروں‘ غیر ملکی ایجنٹوں کا مقابلہ کرنے والی ریاستی فورسز کی پشت پناہی ہر سیاسی و مذہبی قوت کا قومی فرض‘ خاموشی یا غیر جانبداری کسی کو روا نہیں اور یہ ریاست کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ دہشت گردی کے خلاف الطاف بھائی کا موقف جاندار رہا ہے اور وہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ تسلسل سے کرتے رہے کراچی آپریشن اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے تو پاکستان کی اقتصادی و اعصابی شہ رگ کی نمائندہ جماعت اس کی اونر شپ قبول کرے اور مخالفین و ناقدین کا منہ بند کر دے۔
بدامنی کراچی کے عوام کا مقدر ہے نہ دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر‘ بھتہ خور کسی ہمدردی کے مستحق کہ ایم کیو ایم اپنی عوامی ساکھ اور سیاسی مستقبل کو دائو پر لگا کر آپریشن سے لاتعلق رہے۔ زیادتی البتہ کسی کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے اور ناانصافی کا ارتکاب کوئی ادارہ نہ کرے‘ پولیس‘ رینجرز نہ فوج اور احتساب ومواخذہ ہر ایک کا ہونا چاہیے جان کے بدلے جان، وفی القصاص حیاۃ اولیٰ الالباب۔
قاتلوں اور ظالموں سے قصاص میں زندگی ہے اے اہل دانش و بصیرت