ناکارہ ، محمد علی نیکوکارا

محمد علی نیکوکارا کو اس جرم کی سزا ملی جس کے ارتکاب پر ماضی میں کئی سرکاری ملازمین حکمرانوں سے بے تحاشہ مراعات اور ترقی درجات کے مستحق ٹھہرے۔ پہلے محمد علی نیکوکارا کا قصور جانتے ہیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اگست 2014ء میں لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچے تو لانگ مارچ کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی جمہوری حکومت نے ریاستی طاقت کے ذریعے نہتے سیاسی کارکنوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا۔ قرعۂ فال ایس ایس پی نیکوکارا کے نام نکلا کہ وہ اسلام آباد اور پنجاب پولیس کو حرکت میں لائیں، لاٹھی گولی چلائیں اور ان گھس بیٹھیوں کو جنہیں عظیم جمہوریت پسند محمود خان اچکزئی خانہ بدوش قرار دے چکے ہیں شہر سے نکال باہر کر یں۔
معلوم نہیں محمد علی نیکوکارا کس مٹی کے بنے ہیں، وزیرداخلہ نثار علی خان اور آئی جی اسلام آباد کے حکم کی تعمیل کرنے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے بجائے قاعدے قانون کو لے کر بیٹھ گئے کہ پُرامن سیاسی کارکنوں پر تشدد مناسب نہیں‘ احتجاج ان کا حق ہے اور میں انہیں زبردستی اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ شائد انہیں قائداعظمؒ کا وہ مشہور زمانہ خطاب یاد آ گیا جس میں بانیٔ پاکستان نے سرکاری ملازمین کو ہدایت کی تھی کہ ''وہ اپنے فرائض آئین، قانون اور قواعد و ضوابط کے دائرے میں رہ کر ادا کریں، اِس پارٹی کا ساتھ دیں نہ اُس پارٹی کا اور نہ کسی حکومت کے ناجائز احکامات کی تعمیل کریں‘‘۔
بس پھر کیا تھا جلال بادشاہی جوش میں آیا اور جمہوری تماشہ دکھانے والوں نے آئو دیکھا نہ تائو محمد علی نیکوکارا کو معطل، سرکاری نوکری سے نکالنے اور رزق کے دروازے بند کرنے کا آغاز کر دیا۔ تحقیقات کا عمل کس قدر شفاف اور غیر جانبدارانہ تھا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ظاہر ہے ہر سرکاری ملازم محمد علی نیکوکارا جیسا ''ضدی‘‘ اور ''ہٹ دھرم‘‘ تو ہوتا نہیں کہ صرف کتاب کو دیکھے‘ اپنے مستقبل اور مراعات کا حساب نہ لگائے۔
ایک لانگ مارچ 2009ء میں بھی ہوا۔ جو لاہور سے چلا تو ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز نشر کی کہ ڈی سی او لاہور سجاد بھٹہ نے گورنر سلمان تاثیرکی طرف سے لانگ مارچ روکنے کے غیر قانونی احکامات تسلیم نہ کرتے ہوئے استعفی دے دیا ہے جبکہ شام کو ایس پی گوجرانوالہ اطہر وحید نے لانگ مارچ کے شرکاء کو آگے بڑھنے سے بزور طاقت روکنے کے بجائے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے کہا کہ وہ اپنے اعلیٰ حکام کے غیر قانونی احکامات کو نہیں مانتے۔ اس سے پہلے شیخوپورہ کے ایک جلسہ میں ایک پولیس کانسٹیبل نے سٹیج پر آ کر وردی اتاری اور میاں نواز شریف کی سیاسی جدوجہد میں شریک ہونے کا اعلان کیا۔ میاں صاحب نے مستعفی کانسٹیبل کو سینے سے لگایا اور تھپکی دی۔کسی کو سرکاری ملازمین کے قواعدِ ملازمت یاد رہے نہ لازمی ملازمت کے تقاضے اور نہ قانونی حکومت کے احکامات سے سرتابی کے مضمرات۔
پنجاب حکومت نے قانون کے مطابق پولیس کانسٹیبل، ایس پی کو معطل اور ڈی سی او لاہور کو تبدیل کر دیا مگر بعد ازاں میاں شہباز شریف کی حکومت بحال ہونے پر یہ تینوں اپنے اپنے مناصب پر براجمان ہوئے۔ ایس پی اطہر وحید کو لاہور میں پوسٹنگ ملی اور ان کا شمار حکومت کے چہیتے افسران میں ہونے لگا مگر شوق وفاداری میں ایک خاکی رنگ کے بم کو لات مار دی اور لاہور بدر ہو گئے۔ ان دنوں کہاں ہیں کچھ علم نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ محمد علی نیکوکارا پاکستانی تاریخ میں پہلے سرکاری ملازم نہیں جو سرکاری احکامات کی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے۔ یہ ''گناہ‘‘ ماضی میں کئی لوگوں نے کیا اور بدستور سرکاری ملازمت کے مزے لوٹتے رہے۔
فرق اتنا ہے کہ جو احتجاجی تحریکیں کامیاب ہوئیں ان میں حکم عدولی کرنے والوں پر نوازشات کی بارش ہوئی۔ وہ حق گو، دلیر، سرفروش اور جمہوریت کے شیدائی قرار پائے مگر جن تحریکوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ان میں اپنے ضمیر اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے سرکاری ملازمین نیکوکارا کی طرح مستوجب سزا ٹھہرے۔جسٹس منیر نے مارشل لاء کے حق میں اپنے مشہور زمانہ فیصلے میں قرار دیا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کا عمل کامیاب ہو تو انقلاب کہلاتا ہے‘ ناکامی سے دوچار ہونے کی صورت میں بغاوت۔ نیکوکارا موجودہ ظالمانہ نظام کے باغی ٹھہرے اور ریاست کے لئے ناکارہ۔
پاکستان میں ہر سیاسی شخصیت اور جماعت یہ نعرہ لگاتی ہے کہ یہاں سرکاری ملازمین کو کسی حکمران کا ذاتی خادم اور وفادار نہیں ریاست کا تابع اور آئین و قانون کا اطاعت گزار ہونا چاہئے مگر موقع ملتے ہی ہر حکمران صرف سول بیورو کریسی نہیں بلکہ دوسرے ریاستی اداروں کو بھی اپنا بندۂ بے دام بنانے لگ جاتا ہے۔ آئین و قانون اور قواعدِ ملازمت کی پاسداری کرنے والے بیورو کریٹس اور خود دار سرکاری ملازمین جمہوری حکمرانوں کو بھاتے ہیں نہ فوجی آمر انہیں منہ لگاتے ہیں۔ چاپلوس، چمچے بلکہ کفگیر، یس سر ٹائپ افسران کی البتہ ہر دور میں پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔
میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکمرانی میں ایک سرکاری افسر نے یہ فخریہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ نواز شریف کے کتے ہیں، مسلم لیگی حلقوں اور حکمران جماعت کے وفادار سرکاری حکام سے انہوں نے خوب داد سمیٹی۔ میاں صاحب جدہ سدھار گئے تو نواز شریف کا یہ وفادار کتا کچھ عرصہ معتوب رہنے کے بعد نئے حکمران کی نگاہِ التفات کا حق دار ٹھہرا، آخری بار زرداری صاحب کے دور حکمرانی میں انہیں ایک اہم وفاقی عہدے پر فائز دیکھا گیا پھر کبھی ان کے بارے میں سنا نہیں۔ اللہ کرے جہاں رہیں خوش و خرم رہیں کہ ایسے لوگوں کے دم قدم سے گلشن کا کاروبار چلتا ہے اور حکمرانوں کے مزاج خورسند‘ قویٰ اعتدال میں رہتے ہیں۔
سوال مگر یہ ہے کہ ایماندار، دیانتدار، کسی اصولی ضابطے کے پابند اور اپنے آپ کو حکومت وقت کے بجائے ریاست کا وفادار اور اطاعت گزار سمجھنے والے سرکاری ملازمین سے وہ سلوک ہوتا رہا جو محمد علی نیکوکارا سے ہوا یا اس سے پہلے کئی دوسرے اعلیٰ سرکاری ملازمین کا مقدر بنا تو اس ملک میں کبھی قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟ طارق ملک نے نادرا کو آزاد اورغیر جانبدار ادارہ بنانے کی کوشش کی۔ موجودہ حکومت نے ان کا جینا حرام کر دیا، کئی سرکاری اداروں کے عہدیدار عدالتوں سے حکم امتناعی لے کر گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے بھی ہر شاخ پر اپنے اُلّو بٹھا رکھے ہیں جو انجام گلستان کی خبر دے رہے ہیں۔ یہ جمہوریت ہے نہ قانون کی حکمرانی اور نہ سرکاری ملازمین کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کی مخلصانہ سعی و کاوش، سیاسی انتقام اور امتیازی سلوک کہتے ہوئے ہماری زبان جلتی ہے کیونکہ یہ صرف فوجی آمروں کا وتیرہ ہے۔ جمہوریت پسندوں کو سات خون معاف۔
ہمارے جمہوری حکمران انہی حرکتوں کی وجہ سے ہر شعبے میں مایوسی، بے چینی اور ہیجان پیدا کرتے اور پولیس و انتظامیہ سے قوت عمل چھین لیتے ہیں۔ ماڈل ٹائون میں بیریئر ہٹانے کی کارروائی پندرہ انسانوں کے قتل عمد پر منتج ہوئی۔ ریاستی دہشت گردی کے احکامات جاری کرنے والے اب تک محفوظ و مامون، سرکاری مراعات، سہولتوں اور اختیارات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر کارروائی میں شریک پولیس افسران اور اہلکاروں کو معطلی، تنزلی او دیگر سزائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام آباد میں جن پولیس افسران نے حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کیا ان کے پیش نظر سانحہ ماڈل ٹائون تھا۔
سانحہ یوحنا آباد میں پولیس کی بے عملی اور تماش بینی کا رونا سب نے رویا، بہت کم کسی نے سوچا کہ اس کا سبب بھی سانحہ ماڈل ٹائون ہے جس سے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے حکومت نے محمد علی نیکوکارا کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی ہے۔ ثابت یہ کیا جا رہا ہے کہ آئندہ کوئی سرکاری ملازم کسی وزیر اور اس کے گماشتہ افسر کے سیاسی احکامات کی حکم عدولی کر کے بچ نہیں سکے گا، سخت سے سخت سزا پائے گا۔ لیکن کیا اس فیصلے سے پولیس و انتظامیہ کو درست پیغام ملے گا؟ اس کی کارگزاری بہتر ہو گی یا مایوسی پھیلے گی؟ ہم سرکاری اہلکاروں کو قائداعظم کا پیروکار بنا رہے ہیں۔ آئین و قانون کا وفادار اور نظم و ضبط کا پابند یا فوجی آمروں کی طرح فرد واحد کے منہ سے نکلے الفاظ کو حرف آخر سمجھنے کا خوگر؟ کسی سرکاری افسر کا صائب مشورہ اور قانون کی پابندی پر اصرار اتنا بڑا جرم ہے کہ سزا برطرفی سے کم نہیں۔ سجاد بھٹہ، اطہر وحید اور محمد علی نیکوکارا میں فرق کیا ہے، خون کے رنگ، نسل، زبان، عہدے یا دور حکمرانی کا؟ع بُتوں کو سجدہ نہیں کرو گے تو بُت کدے سے نکال دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں