کچھ سینہ زوری کرتے ہیں

کراچی بلکہ پورے ملک کے عوام کو سید قائم علی شاہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے رینجرز کو مزید ایک ماہ تک اپنے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دیدی۔وزیر اعلیٰ نے یہ اجازت سابق صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر دی تاہم یہ اجازت مشروط ہے اور رینجرز مجاز اتھارٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر سنگین جرائم میں ملوث سرکاری افسران کو گرفتار نہیں کرے گی۔
رینجرز کو عرصہ دراز سے صوبائی حکومت نے امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے تعینات کر رکھا ہے۔ سندھ اور کراچی پولیس اپنے فرائض خوش اسلوبی اور دیانتداری سے انجام دینے کے قابل ہو تو رینجرز کو کراچی میں تعینات کرنے کی ضرورت‘ نہ اسے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف چھاپوں‘ گرفتاری اور تفتیش کے اختیارات سونپنے کی احتیاج۔ سول انتظامیہ اور پولیس کی نااہلی نے رینجر ز کی تعیناتی اور اختیارات میں اضافے کی راہ ہموار کی۔
رینجرز کی تعیناتی کی مدت بھی اگلے آٹھ دس روز میں مکمل ہونے والی ہے۔ صوبائی حکومت اس میں توسیع تو یقیناً کریگی مگر فوج‘رینجرز اور وفاقی حکومت پر احسان جتلا کر۔ رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات میں توسیع کے سوا صوبائی حکومت اور اس کے گاڈ فادر آصف علی زرداری کے پاس آپشن کیا ہے؟ روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ کر اگر آج آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی اجازت سے ڈی جی رینجرز یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم شہر میں مزید قیام کے بجائے اپنے اصل فرائض کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ صوبائی حکومت‘ محکمہ داخلہ اور پولیس و انتظامیہ شہر میں قیام امن کا فرض خود ادا کرے اور وزیر اعلیٰ‘ کابینہ کے ارکان اور اہم سرکاری عہدیدار اپنی حفاظت کی ذمہ داری بھی پولیس کو سونپیں تو دو چار روز میں سب کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائیگا۔ 
رینجرز سے چار چھ ہفتے پہلے تک صوبائی حکومت کو کوئی شکایت نہ تھی۔ ایم کیو ایم نے جب عزیز آباد مرکز پر چھاپے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ‘ وزیر اطلاعات شرجیل میمن اور دیگر رہنمائوں نے سن کر نہیں دیا۔ ایم کیو ایم کی بعض شکایات درست بھی تھیں گہیوں کے ساتھ گھن کے پسے جانے کی اطلاعات سو فیصد غلط نہ تھیں۔ مگر صوبائی حکومت نے رینجرزکی بلائیں لیں۔ صوبائی حکومت کو شکایت تب ہوئی جب رینجرز نے خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات کی بنا پر یہ فیصلہ کیا کہ دہشت گردوں‘ بھارتی ایجنٹوں‘ ٹارگٹ کلرز اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد اور گروہوں کی مالیاتی سپلائی لائن منقطع کرنا ضروری ہے‘ سرکاری محکموں میں مجرموں کے فرنٹ مین‘ ساتھی اور مخبر قانون کے شکنجے میں کسے جانے تک سنگین جرائم کا خاتمہ ممکن نہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف جاری آپریشن سوفیصد کامران‘ واٹر بورڈ اور دیگر سرکاری اداروں میں کارروائی پر زرداری صاحب برہم ہوئے۔ 
لوگ حیران ہیں کہ جو لوگ گرفتار ہوئے انہوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا‘ دیگر ساتھیوں اور سرپرستوں کے علاوہ حصہ رسدی وصول کرنے والوں کی نشاندہی کی اس عرصہ میں کراچی کا امن لوٹا اور آپریشن کے علاوہ رینجرز کی ساکھ بحال ہوئی کہ ٹارگٹ کوئی ایک جماعت‘ نسلی و لسانی گروہ یا چند افراد نہیں بلکہ ہر طرح کے مجرم ہیں مگر آصف علی زرداری پھٹ پڑے۔ حتیٰ کہ فوج اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے ڈالی۔ یہ تک کہا کہ ''آپ تین سال بعد چلے جائیں گے ہم نے یہاں رہنا ہے‘‘ تاہم دو چار روز بعد خود ہی اپنی قیمتی اینٹیں اٹھا کر بیرون ملک سدھار گئے اور اب سول ملٹری تعلقات کو ملکی مفاد میں قرار دے کر رینجرز کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی تلقین فرما رہے ہیںع ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا 
ملک میں چار بار مارشل لاء لگ چکا۔ سول حکمرانوں نے ہر بار یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اب وہ دوبارہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے جس سے سول ملٹری تعلقات اور ملکی حالات خراب ہوں‘ نظام ریاست میں بگاڑ آئے‘ عوام کی مایوسی اور بے چینی میں اضافہ ہو اور اس کا فائدہ کوئی فوجی طالع آزما اٹھاسکے۔ مگر ایک بار پھر یہ احساس اجاگر ہو رہا ہے کہ سیاستدان اپنے مفادات کے خول سے باہر نکلنے پر آمادہ ہیں نہ عوام کو جان و مال کا تحفظ‘ روزگار اور تعلیم و صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پرتیار‘ لاقانونیت بدامنی اور کرپشن نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا۔ مگر سول حکمران تدارک کرنے کے بجائے ان عناصر کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہیں جو اس کے ذمہ دار ہیں۔
گزشتہ روز نیب نے سپریم کورٹ میں 150میڈیا سکینڈلز کی فہرست پیش کی تو ہا ہا کار مچ گئی۔ عجیب و غریب توجیہات اور وضاحتیں پیش کی گئیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں حکمران اشرافیہ دلاور فگار مرحوم کے مشورے پر عمل پیرا ہے ؎
حاکمِ رشوت ستاں‘ فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت‘ چھوٹ جا
میں بتائوں تجھ کو‘ تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے‘ دے کے رشوت چھوٹ جا
سرکاری اور حکومتی اختیارات کے تحت خوب لوٹ مار کرو‘ بنکوں سے قرضے معاف کرائو‘ انہیں دیوالیہ کر دو‘ میگا پراجیکٹس سے کک بیکس لے کر اندرون و بیرون اثاثے بنائو‘ کاروبار کرو اور پھر کمائی کا کچھ حصہ واپس کر کے چھوٹ جائو۔ پرویز مشرف کے دور میں پلی بارگیننگ کی لعنت اس مکروہ لین دین کی ایک صورت تھی سوا ارب روپے کی کرپشن میں سے دس ارب واپس کرو‘ دو چار ارب سرکاری اہلکاروں میں بانٹو اور نیک چلنی کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لو ؎
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
دلاور فگار نے پچھلی دہائی میں چوروں کے حوالے سے ایک خوبصورت نظم کہی تھی۔ اگرچہ اب پاکستان ترقی کرگیا ہے‘ چوری اب شُہدے اور تھڑدلے کرتے ہیں۔ طاقتور اور بااختیار افراد اور گروہوں کے لیے بنک ڈکیتی‘ بھتہ خوری ‘ اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ قابل فخر ہے؛ تاہم دلاور فگارکی نظم پھر بھی حسب حال ہے۔ حکمران اشرافیہ‘ قوم کے غمخوار عوامی نمائندوں ا ور نیب سے پیشگی معذرت ؎ 
پھر اک خبر میں یہ اعلان خوبصورت ہے
کہ ایک فرم کو کچھ چوروں کی ضرورت ہے
کچھ ایسے چور جو چوروں کی دیکھ بھال کریں
جو پاسباں کے فرائض کا بھی خیال کریں
خبر میں اس کی وضاحت نہ کر سکا اخبار
کہ کیسے چور ہیں مذکورہ فرم کو درکار
نہ جانے کون سے چوروں کی فرم کو ہے طلب
ترے جہاں میں تو چالیس چور ہیں یا رب
دلیر چور‘ جواں چور‘ کاروباری چور
تمام شہر میں بدنام اشتہاری چور
ذلیل چور‘ خطرناک چور‘ شاطر چور
فقط نگاہ چُرانے کے فن میں ماہر چور
شریف صورت و معقول چور‘ اصلی چور
پھلوں کی طرح فقط موسمی و فصلی چور
پرانے چور‘ نئے چور‘ خاندانی چور
زمیں کے راندۂ درگاہ آسمانی چور
کسی بزرگ کے نورِ نظر‘ طفیلی چور
کسی ڈکیت کے شاگرد‘ صرف ذیلی چور
سیاسیات میں الجھے ہوئے سیاسی چور
سدا بہار‘ گرہ کاٹ‘ بارہ ماسی چور
چراغ چور‘ قلم چور‘ روشنائی چور
چراغ چور کے بھائی دیا سلائی چور
بلندیوں سے بتدریج نیچے گرتے چور
ہر ایک شہر میں موجود چلتے پھرتے چور
شریف چور مزاجاً برے نہیں ہوتے
کہ ان کے ہاتھ میں چاقو چھرے نہیں ہوتے
یہ چور وہ ہیں جو کرتے ہیں شوقیہ چوری
یہ کیا کریں کہ شرافت ہے ان کی کمزوری
گئے جو کھیت میں کچھ ککڑیاں چرا لائے
کبھی جو بن میں گئے لکڑیاں چرا لائے
کسی کنوئیں پہ چڑھے بالٹی چرا لائے
کسی سرائے میں ٹھہرے دری چرا لائے
خدا کے گھر میں گئے رنگ ہی نیا لائے
نمازیوں کی نئی جوتیاں چرا لائے 
جو کچھ نہیں تو چرا لائے بیر بیری سے 
یہ چور باز نہیں آتے ہیرا پھیری سے
کسی مزار پہ پہنچے دیا چرا لائے
مشاعرہ میں گئے قافیہ چرا لائے
غزل چرا کے کبھی خدمت ادب کر لی
گئے جو پکڑے‘ وہیں معذرت طلب کر لی
جو ان کا راز بتانے لگا کوئی بھیدی
تو ایک آدھ غزل اس کو تحفتاً دے دی
یہ چور طنز سے قابو میں آ نہیں سکتے
مرے فرشتے بھی ان کو مٹا نہیں سکتے
رہیں نہ چور یہ شاعر کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
یہ نظم جس میں ہے چوروں کا ذکر بالتفصیل 
مرے خیال سے ہے اب بھی تشنۂ تکمیل
یہ لسٹ چوروں کی وقتی و اتفاقی ہے 
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
رینجرز اگر چوروں ‘ ڈاکوئوں ‘ لٹیروں اور قومی وسائل کو شیر مادر کی طرح ہضم کرنے والوں سے تعرض نہ کرے تو کسی کو اس کی تعیناتی پر اعتراض ہے نہ اختیارات میں اضافے سے سروکار‘ نیب بھی اگر مال بنانے کی فیکٹری اور حکمران اشرافیہ کی لانڈری بنی رہے تو اقتدار کے ایوانوں میں ستے خیراں ہیں۔ چشم ما روشن دل ماشاد۔ لیکن اگر یہ دونوں ادارے اپنے آئینی و قانونی فرائض کی ادائیگی پر اصرار کریں تو اختیارات سے تجاوز کے مرتکب اور پگڑی اچھال ادارے ہیں۔ لہٰذا حکمران سیخ پا‘ ان کے پر کترنے پر کمر بستہ ؎
کچھ چورا چوری کرتے ہیں
کچھ سینہ زوری کرتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں