کیکر سے آم اتارنے کا شوق

خدا کا شکر ہے 26 روز کی بندش کے بعد چارسدہ یونیورسٹی کھل گئی۔ آرمی پبلک سکول کی طرح تعلیمی ادارے پر خوفناک حملہ کا مقصد نوجوان نسل کو خوف و ہراس اور والدین کو دائمی اذیت میں مبتلا کرنا تھا اور ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی تاکہ ہم سنبھل سکیں اور اُن غلطیوں کا اعادہ نہ کریں جو سانحہ اے پی ایس کے بعد ہم سے ہوئیں....بے احتیاطی‘ غفلت‘ سہل پسندی‘ اور غیر ذمہ داری۔
اے پی این ایس سانحہ کے بعد قوم جس طرح دہشت گردی کے خلاف متحد ہوئی‘ باہم دست و گریباں سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اپنے اختلافات بھلا کر نیشنل ایکشن پلان پر صاد کیا اور تیزی سے اقدامات کا آغاز ہوا، وہ قوم کے لیے اطمینان بخش تھا۔ کُچھ عرصہ یہ کیفیت برقرار رہی مگر حسب عادت فوج کو دہشت گردوں کی سرکوبی کا فرض سونپ کر ہم اپنے معمولات میں مگن ہو گئے جس کا فائدہ دشمنوں نے اٹھایا‘ ایک اور چرکہ لگایا اور ہمیں ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا۔ مگر کیا واقعی ہم نے کُچھ سوچا؟ چارسدہ سانحہ سے کوئی سبق حاصل کیا؟
ملک بھر میں تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات کے لیے احکامات ہر صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے جاری کئے۔ سکولوں اور کالجوں کے ہیڈ ماسٹرز‘ پرنسپلز اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی کم بختی آ گئی۔ انہیں حفاظتی انتظامات کرنے کے لیے سخت قسم کے سرکلرز جاری ہوئے۔ دبائو اس قدر بڑھا کہ نجی تعلیمی اداروں نے ہڑتال کی دھمکی دیدی۔ موقف اُن کا درست تھا کہ کسی سکول یا کالج کا ہیڈ ماسٹر‘ پرنسپل اپنے ادارے میں تعلیم کے معیار‘ نظم و ضبط اور طلبہ کی تربیت کا ذمہ تو لے سکتا ہے وہ بندوق پکڑ کر دو تین سکیورٹی گارڈز کے ساتھ اپنے تعلیمی ادارے کی چوکیداری نہیں کر سکتا‘ اس کی تربیت ‘ذوق نہ مزاج‘ حکومت کو ایک قدم پیچھے ہٹ کر نجی تعلیمی اداروں کے مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔ پنجاب میں اس دوران عجیب و غریب سرکلر جاری ہوئے اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کے لیے ساڑھے تین ارب روپے مختص ہونے کے باوجود چوکیدار اور درجہ چہارم کے دیگر ملازم حفاظتی فرائض انجام دیں گے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کئی عشروں سے ہو رہے ہیں، گزشتہ ایک عشرے سے تسلسل کے ساتھ مگر پبلک مقامات بالخصوص تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا ہوش ہمیں سانحہ اے پی ایس اور چارسدہ کے بعد آیا، وہ بھی بے ہنگم انداز میں۔کسی کو کُچھ سوجھ نہیں رہا۔ محض اس بناء پر کہ نیشنل ایکشن پلان کی سول اداروں اور منتخب حکومت کی ذمہ داریوں کے متعلق سترہ دفعات پر کسی نے غور کیا نہ روح کے مطابق عملدرآمد کی ضرورت محسوس کی۔ شہریوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے لیے کوئی مہم چلائی گئی نہ پولیس اور دیگر سول اداروں کی تربیت پر توجہ دی گئی اور نہ وسائل کی تقسیم کے سلسلے میں ترجیحات کا تعین ازسر نو کیا گیا۔
جو پولیس شہروں میں احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے اور ٹریفک کے بہائو کو برقرار رکھنے میں ناکام نظر آتی ہے‘جس فورس کو آج تک ہر چوک‘ مصروف بازار اور گلی میں گداگروں کے غول دکھائی نہیں دیتے کہ ان میں کوئی دہشت گرد‘ سراغ رساں یا سہولت کار بھی ہو سکتا ہے جسے میٹروبس اور فلائی اوورز کے نیچے بے ہنگم پارکنگ دیکھ کر کبھی خیال نہیں گزرا کہ یہ خطرناک بھی ہو سکتی ہے وہ اُن تربیت یافتہ ‘سفاک اور ہمارے سماج و ریاستی نظام کی خامیوں‘ کمزوریوں سے واقف دہشت گردوں کا مقابلہ کیسے کرے گی‘ کسی نے کبھی سوچا؟کشمیر الیکشن‘ ایل این جی معاہدوں اور سیرسپاٹوں سے فرصت ملے تو کوئی سوچے بھی۔
شمالی وزیرستان کے بے گھر ہونے والوں کی واپسی میں تاخیر کا سبب پشاور میں ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آ چکا۔ اکیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ رکھنے والی ریاست کے پاس مطلوبہ رقم نہیں البتہ وہ لاہور میں اورنج لائن ٹرین پر دو سو ارب روپے خرچ کر سکتی ہے‘ یہ جھوٹ بھی کھل چکا کہ یہ اورنج لائن ٹرین سی پیک کا حصہ نہیں بلکہ پنجاب حکومت کا منصوبہ ہے۔ رہی سہی کسر سپریم کورٹ میں وفاق کی اپیل نے پوری کر دی جس پر سپریم کورٹ کے فاضل جج نے پوچھ ہی لیا کہ منصوبہ پنجاب کا ہے ‘اپیل وفاق نے کیوں کی؟ صرف پنجاب نہیں دوسرے صوبوں میں بھی تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات اور دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے عوامی سطح پر اقدامات کی حالت پتلی ہے ۔ ہر صاحب اولاد کا دل دھڑکتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے نور نظر‘ لخت جگر کو سلامت رکھے اور نظر بد سے بچائے مگر حکمرانوں کو پروا کہاں؟
چارسدہ یونیورسٹی کھلی تو توقع تھی کہ اپنی اندرونی اور بیرونی مصروفیات کی بناء پر اب تک وقت نہ نکال سکنے والے وزیراعظم کم از کم اس روز طلبہ و اساتذہ کا خود استقبال کرنے کے لیے موجود ہوں گے مگر صرف 26 روز میں کسی کو یاد نہ رہا کہ چارسدہ میں اتنا بڑا سانحہ ظہور پذیر ہو چکا اور ابھی تک کئی طلبہ و اساتذہ کے علاوہ والدین ذہنی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ کسی نے حکمرانوں کو بتایا بھی نہیں کہ آپ کا جانا بنتا ہے ۔ ع
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ صوبہ کے وزیراعلیٰ اور عمران خان کے دوبارہ جانے میں کوئی حرج نہ تھا اور طلبہ نے گلہ بھی کیا۔مگر انہیں بھی یاد نہ رہا۔
ہم بحیثیت قوم احساس زیاں سے عاری ہجوم میں بدل رہے ہیں اور نمود و نمائش‘ تماش بینی‘ وقت گزاری ہمارے مزاج کا لازمی حصہ ہے۔ طویل المدت اور وسیع الجہات منصوبہ بندی ہم کرتے نہیں۔ ڈنگ ٹپائو اقدامات کو کافی سمجھتے ہیں اور وقتی فوائد کا حصول ہماری اولین ترجیح ہے ورنہ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے قبل ہم ضروری اقدامات اور تیاری کرتے ۔اب بھی جتنی توجہ مدارس کی رجسٹریشن‘ تبلیغی جماعت پر پابندی اور لائوڈ سپیکر پر دی جا رہی ہے اتنی اگر ہر گلی محلے میں چوکیدارہ نظام‘ دیہی علاقوں میں نمبرداروں کی فعالیت‘ مشکوک افراد کے حوالے سے عوام کی تربیت اور پولیس و دیگر سول اداروں کی کارگزاری بہتر بنانے پر دی جاتی تو کسی کو یہ گلہ نہ ہوتا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سستی برتی جا رہی ہے۔ ڈی جی آئی بی کو بھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ مزید آٹھ دس سال جاری رہے گی۔
خرابی کہاں ہے؟ ہم اتنے زودفراموش‘ سہل کوش اور ناعاقبت اندیش کیوں ہیں کہ ہمیں جگانے کے لیے قدرت کو بڑے سانحات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔سچ پوچھئے تو یہ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے اور مسلسل قوانین قدرت سے اغماض برتنے کا نتیجہ۔ ہم کیکر کاشت کر کے خوش ذائقہ اور شیریں آم اتارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ قیادت کے درست انتخاب سے قوم آدھی جنگ جیت لیتی ہے مگر ہم اس معاملے میں اس قدر کوتاہ اندیش ہیں کہ کوئی دوسرا بائدو شاید۔ ہم وہ لوگ ہیں کہ جیب کُترے اور سائیکل چور کا مار مار کر بُھرکس نکال دیتے ہیں مگر اربوں کی ڈکیتی اور کھربوں کی ہیرا پھیری میں ملوث فنکاروں کو‘ صدر‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور وزیر بننے سے نہیں روکنے۔ توقع ہم یہ رکھتے ہیں کہ پاکستان میں دودھ‘ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ یہی خوش فہمی اور کوتاہ بینی ہماری جملہ مشکلات و مصائب کا سبب ہے مگر کسی کو فکر ہی نہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ روزانہ نماز فجر کے بعد دیکھتے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ مدینہ منورہ سے دور ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ تجسس بڑھا تو ایک روز عمرؓ خلیفۃ المسلمین ؓکے پیچھے چل پڑے‘ شہر سے دور جا کر دیکھا کہ ابوبکرؓ ایک کٹیا میں چلے گئے‘ کافی دیر تک وہاں موجود رہنے کے بعد پسینے میں شرابور باہر نکلے اور شہر کی راہ لی۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عمرؓ اجازت لے کر کٹیا میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک نابینا خاتون دو بچوں کے ساتھ موجود ہے‘ ماجرا پوچھا تو بڑھیا نے بتایا کہ میں آنکھوں سے معذور مفلس عورت ہوں‘ میرا اور میرے بچوں کا اس گھر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں‘ روزانہ ایک اجنبی میرے گھر آ کر میرے گھر کے کام کاج کرتا اور ہر ماہ اناج کے علاوہ دیگر اشیائے ضرورت بھی دے کر چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کو جزائے خیر دے۔ عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا ابوبکر ؓ تُونے بعد والوں کو بہت مشکل میں ڈال دیا۔
ایسے حکمران تو خیر ہماری قسمت میں کہاں‘ ہم تو شیرشاہ سُوری کو بھی ترستے ہیں جس نے صرف ڈھائی سال کی مدت میں پورے ہندوستان جی ہاں پشاور سے کلکتہ تک پورے ہندوستان‘ میں عدل و انصاف اور امن کا وہ ماحول پیدا کیا کہ موتیوں اور اشرفیوں کے انبار لے کر جی ٹی روڈ پر سفر کرنے والے تاجروں کو راہزنی اور ڈکیتی کا کھٹکا نہ ہوتا اور ریاستی ادارے حفاظت کرتے۔ اب تو ہر روز سکول بھیج کر ماں اپنے بچے کی بسلامت واپسی کی دعائیں کرتی رہتی ہے کہ یہ بھی ماں کے جیسی ریاست کی نہیں اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں