پرویز مشرف کمزور ہے نہ غریب

سید خورشید شاہ خواہ کچھ کہیں‘ اسے میاں نواز شریف کی بے بسی اور رضا مندی سمجھیں‘ غیر مرئی قوتوں کی طاقت کا اظہار یا کچھ اور‘ پرویز مشرف اب بیرون ملک جانے کے لیے آزاد ہیں اور انہیں یہ آزادی حکومت کی خواہش پر عدالت عظمیٰ نے دی۔ ایان علی کا نام ای سی ایل سے خارج ہونے پر خوشی سے بغلیں بجانے والوں کو طعنہ زنی زیب نہیں دیتی۔
موجودہ حکومت نے راولپنڈی کے المناک سانحہ سے عوام کی توجہ ہٹانے اور جمہوریت پسندوں کو بے وقوف بنانے کے لیے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے الزام میں کارروائی شروع کی تو پہلے دن سے بدنیتی واضح تھی۔ پرویز مشرف نے آئین 12 اکتوبر 1999ء کو توڑا جب منتخب حکومت برطرف‘ منتخب پارلیمنٹ برخاست ہوئی اور بنیادی انسانی حقوق معطل‘ مگر حکومت نے مقدمہ 3نومبر 2007ء کے اقدام پر کیا۔ اس اقدام کا متاثرہ فریق عدلیہ تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی موجودگی میں خصوصی عدالت کی تشکیل کے اغراض و مقاصد واضح تھے جن قوتوں کا حوالہ خورشید شاہ دے رہے ہیں انہیں بھی پیغام یہی ملا کہ ایک سابق آرمی چیف سے بذریعہ افتخار چودھری انتقام لینا مقصود ہے۔
میاں نواز شریف کو روز اوّل سے معلوم تھا کہ مقدمہ کا انجام کیا ہو گا؟ میری معلومات کے مطابق جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف نے انہیں سابق آرمی چیف کے خلاف کارروائی کے مضمرات سے آگاہ کیا تھا‘ فوج کے فائل اینڈ رینکس میں پائے جانے والے اضطراب کی مکمل نقشہ کشی ہوئی مگر میاں صاحب بضد رہے‘ آڑ سپریم کورٹ کی لی جو پائے چوبیں ثابت ہوئی۔ پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود۔
پرویز مشرف کا تکیہ کلام ''میں ڈرتا ورتا کسی نے نہیں‘‘ رہا۔ کمانڈو تھے لوگ یقین کرتے کہ واقعی نڈر اور دلیر ہوں گے مگر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا انہوں نے کمانڈو کے بجائے روایتی سیاستدانوں کی طرح کیا‘ بہانہ سازی‘ حیلہ جوئی اور قانونی موشگافیاں۔ جاپان کو شکست ہوئی تو امریکی جرنیل میک آرتھر نے ایک فہرست شہنشاہ ہیروہیٹو کے سامنے رکھی۔ فہرست میں شامل افراد پر اتحادی فوج جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتی تھی۔ شہنشاہ نے فہرست پر نگاہ غلط انداز ڈالی‘ پنسل اٹھائی‘ سب نام کاٹے اور اپنا نام لکھ کر دستخط کر دیئے۔ کہا: ''ان لوگوں نے میرے احکام کی تعمیل کی‘ مجرم میں ہوں مقدمہ چلانا ہے تو میرے خلاف چلائیں‘‘ مگر پرویز مشرف کبھی شوکت عزیز کو مورد الزام ٹھہراتے‘ کبھی عبدالحمید ڈوگر کا نام لیتے اور کبھی زاہد حامد کا ‘جو پرویز مشرف کے تابع مہمل تھے اور فقط ہاں میں ہاں ملانے‘ چوری کھانے والے مجنوں۔
پرویز مشرف عدالتی فیصلہ آنے تک بیمار تھے اور ضیاء الدین ہسپتال میں داخل مگر فیصلہ سنتے ہی بیماری اڑن چھو ہو گئی۔ پاکستانی سیاست میں بیماری کے بہانے قید و بند سے رہائی یا پابندیوں سے استثنیٰ پہلا واقعہ نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکمرانی میں میاں شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے صحت مند اور ہشاش بشاش‘ محترمہ کو معلوم نہیں کس احمق نے مشورہ دیا کہ شریف خاندان کو قید و بند کی صعوبتوں سے جھکایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو میاں محمد شریف مرحوم کو بھونڈے طریقے سے گرفتار کرایا اور وزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو نے شہباز شریف پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ بڑے میاں صاحب کو زیادہ دیگر تک پابند سلاسل رکھنا ممکن نہ رہا ایک اسی سالہ بزرگ کی توہین آمیز انداز میں گرفتاری حکومت کے گلے کا طوق بن گئی اور انہیں رہا کر دیا گیا۔ ایک دن میاں شہباز شریف کو کمر کی تکلیف ہوئی اور وہ لندن چلے گئے‘ اس وقت واپس آئے جب بے نظیر بھٹو حکومت کا بستہ گول ہو گیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے البتہ ہر دبائو سہا اور قائم مقام اپوزیشن لیڈر کے طور پر ڈٹے رہے۔
آصف علی زرداری کی دلیری اور جرأت مندی پر انہیں پیپلز پارٹی کے بدترین مخالف بزرگ صحافی کی طرف سے مرد حُر کا خطاب ملا مگر جن دنوں وہ قیدی تھے ان کی بیماری کا چرچا قومی اور عالمی پریس میں ہوا۔ چھڑی کے سہارے ہم نے انہیں چلتے خود دیکھا۔ جونہی درپردہ مفاہمت کے بعد پرویز مشرف نے رہا کیا تو چھڑی غائب اور زرداری صاحب جوانوں سے زیادہ تنومند و تندرست۔ پانچ سالہ عرصہ صدارت میں بھی وہ ذہنی اور نفسیاتی عوارض کا شکار تو رہے جسمانی بیماری کا ذکر کسی نے سنانہ کیا۔ میاں منظور وٹو مشرف دور میں گرفتار ہوئے تو ان کا زیادہ تر وقت ہسپتال میں گزرا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ضیاء الحق اور نواز شریف کے دور حکومت میں بیماری کے بہانے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست اور بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اب پرویز مشرف کی باری ہے۔
حکومت کو اپوزیشن ‘ قانونی حلقوں اور سول بالادستی کے ہیضے میں مبتلا دوستوں کے سامنے شرمندگی تو اٹھانا پڑی۔ شریکوں کے طعنے بھی سننے پڑے مگر سپریم کورٹ میں وکیل سرکار نے ای سی ایل سے نام خارج کرنے کی درخواست پر خاموشی اختیار کر کے دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ ظاہر ہے اٹارنی جنرل نے موقف میاں نواز شریف کی ہدایت پر اختیار کیا اور میاں صاحب آرمی چیف کو خوش کرنے کے چکر میں ہیں۔ 2000ء میں پرویز مشرف نے سعودی شاہ عبداللہ کی درخواست پر میاں نواز شریف کی جلاوطنی کا فیصلہ کر کے فوائد سمیٹے تھے۔ پرویز مشرف حکومت کے گلے میں ایک ایسی ہڈی تھی جسے نگلنا اور اُگلنا اس کے بس میں نہ تھا۔ سزا دلوانے کے بعد معافی کے ذریعے اپنی فراخدلی کا ڈنکا بجانے کی خواہش بجا مگر یہ ع
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
والا معاملہ تھا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سپیشل سروسز گروپ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کی عزت اور وقار کے تحفظ کا جو اعلان کیا تھا وہ میاں صاحب کے لیے چتائونی تھی مگر حسب عادت انہیں ادراک اب ہوا۔ جب ہر طرف گھنگھور گھٹائیں اُمڈ آئی ہیں اور ہر سو احتجاج و اضطراب کی ہوائیں چلنے لگی ہیں‘ سیاسی استحکام اور سول ملٹری تعلقات میں توازن کے اعتبار سے یہ فیصلہ درست ہے۔ 2000ء میں میاں صاحب نے عملیت پسندی سے جان بچائی۔ طعن و تشنیع کی پروا نہ کی اب بھی اپنی مونچھ نیچی کر کے انہوں نے ایک محاذ ٹھنڈا کر دیا ہے۔ویسے بھی پاکستان میں قابل مواخذہ صرف کمزور اور غریب ہے، جو پرویز مشرف ہرگز نہیں۔
رضا ربانی اور دیگر جمہوریت پسند ناراض تو بہت ہوں گے‘ 1973ء کے آئین کو صحیفہ آسمانی سمجھنے والوں کی پیشانی پر بل آئیں گے مگر انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا دستور‘ پاکستان کے آرٹیکل چھ میں غدّاری کا لفظ اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت معاون‘ شریک اور سہولت کار افراد کو بھی برابر کا مجرم ٹھہرانے پر اصرار نے جنرل پرویز مشرف کے لیے آسانی پیدا نہیں کی اور عملاً آئین کے اس آرٹیکل کونا قابل عمل نہیں بنا دیا؟
پاکستان میں آئین کو منسوخ یا معطل صرف آرمی چیف ہی کر سکتا ہے اور بھٹو صاحب نے ماضی کے تجربات کے پیش نظر یہ شق صرف آرمی چیف کو ڈرانے کے لیے شامل کی تھی؛ تاہم مرتکب شخص کو غدّاری کا مجرم قرار دے کر شق کی افادیت ختم کر دی گئی۔ دنیا کی کون سی فوج یہ برداشت کر سکتی ہے کہ اس کے چیف کو غدّار قرار دیا جائے جبکہ اس نے اس قبیح جرم کا ارتکاب کیا بھی نہ ہو۔ سیاستدان عموماً الفاظ کی اہمیت سمجھتے ہیں نہ استعمال میں احتیاط برتتے ہیں ان کے لیے اپنے مخالفین کو غدار قرار دینا آسان ہے مگر ایک فوجی کے لیے غدّاری کا لفظ ماں بہن کی گالی سے زیادہ سخت اور ناقابل برداشت ہے۔ اب بھی آرٹیکل 6 برقرار رکھنا ہے تو براہ کرم غداری کی جگہ کوئی دوسرا لفظ ڈالیں تاکہ کل کلاں کو خدانخواستہ استعمال کا شوق چرائے‘ تو جگ ہنسائی نہ ہو۔
پرویز مشرف سے حکومت کی جان چھوٹ جاتی ہے تو اسے اب کوئی نئی مہم جوئی کرنے کے بجائے معاملات کو ہموار انداز میں چلانے کی سعی کرنا چاہیے۔ حقوق نسواں بل کے حوالے سے رانا ثناء اللہ کی بیان بازی شریف برادران کی یقین دہانیوں کے برعکس اور شکوک و شہبات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ بھگتنا بہرحال میاں صاحب کو پڑے گا آئین اور تحفظ ناموس رسالتؐ قانون سے چھیڑ چھاڑ بھی حماقت ہو گی۔ ایوان اقتدار سے قریبی تعلق کے دعویدار بعض افراد نے قرارداد مقاصد‘ آئین میں دوسری متفقہ ترمیم‘ خواتین کے حقوق کے نام پر مادر پدر آزادی اور مُلائوں کی آڑ میں اسلامی شعار سے مذاق کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اس نے مذہبی جماعتوں کو متحد کر کے سٹریٹ پاور کے استعمال کی ترغیب دی ہے جسے نظر انداز کرنا حکومت کے لیے مفید نہیں۔ اگر وہ پرویز مشرف کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تو سواد اعظم کے جذبات و احساسات سے چھیڑ چھاڑ اسے مہنگی پڑ سکتی ہے۔ پرویز مشرف اور تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے معاملے پر اس کی کمزوری تو مذہبی جماعتوں اور دیگر مخالفین کے ہاتھ آ ہی گئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں