چھوٹے صوبے کی حق تلفی

بلوچستان کا سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کرپشن کی دیگ کا محض ایک دانہ ہے یہ اکیلا ہوتا تو بلوچستان سول سیکرٹریٹ کے علاوہ پنجاب کے جی او آر میں وفاقی سروس کے افسران سر جوڑ کر بیٹھتے‘ نہ اسے بیورو کریسی کے خلاف میڈیا ٹرائل کا نام دیتے۔ مشتاق رئیسانی کے آئینے میں ہر بددیانت‘ خائن اور بے ایمان افسر کو اپنی مکروہ صورت نظر آ رہی ہے۔
بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے اور مشتاق رئیسانی کا تعلق پنجاب یا کسی دوسرے صوبے سے نہیں اس غریب اور مظلوم صوبے سے ہے۔ بلوچستان میں جاری بغاوت اور علیحدگی پسندی کو احساس محرومی اور معاشی عدم مساوات کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ صرف قوم پرست جماعتوں کا وطیرہ نہیں بلکہ بلوچ بیورو کریٹس ‘دانشور اور اساتذہ بھی اس چورن کو خوب مرچ مصالحہ لگا کر بیچتے ہیں مگر اس دھرتی کے ایک سپوت نے جسے حکومت نے صوبائی خزانے کی رکھوالی اور منصفانہ و مساوی تقسیم پر مامور کیا‘ یہ کارنامہ کر دکھایا۔ ظاہر ہے اگر تریسٹھ کروڑ روپے کی خطیر رقم گھر سے ملی تو صوبے اور ملک کے مختلف مقامات پر خریدی جانے والی جائیدادیں اور بیرون ملک اکاوئنٹس و اثاثے اس کے علاوہ اور اربوں میں ہوں گے ۔ سیکرٹری خزانہ اتنا بڑا ہاتھ مار سکتا ہے تو منتخب عوامی نمائندوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہو گا جن کی وجہ شہرت ہی الا ماشاء اللہ ترقیاتی فنڈز کو ٹھکانے لگانے کی ہے۔ 
بلوچستان کو صرف 2008ء سے 2015ء کے درمیان جو ترقیاتی فنڈز ملے انہیں اگر درست انداز میں خرچ کیا جاتا تو صوبے بھر میں تعلیم‘ صحت اور روزگار کی اتنی سہولتیں بآسانی بہم پہنچائی جا سکتی تھیں کہ کسی بندوق بردار کو احساس محرومی کا ڈھنڈورا پیٹ کر فراری کیمپ آباد کرنے کا موقع ملتا نہ مقامی باشندے روٹی‘ بچے تعلیم اور بیمار علاج معالجے کو ترستے۔ ہر ایم پی اے کو سالانہ چالیس سے پچاس کروڑ روپے کے فنڈز ملتے ہیں مگر کہیں دکھتا نہیں کہ ساٹھ ستر لاکھ کی آبادی کے صوبے میں اب تک تین چار کھرب روپے کی رقم ترقیاتی مد میں خرچ کی جا چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک سیکرٹری خزانہ اربوں روپے بآسانی بٹورنے اور باہر بھیجنے میں مصروف ہے تو دیگ کے اس ایک چاول سے باقی کا احوال معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق مشتاق رئیسانی ہنڈی کے ذریعے دو فیصد کمیشن پر اپنے باقی پیٹی بھائیوں اور وزیروں مشیروں کا مال حرام بیرون ملک بھیجنے کا کاروبار کرتا ہے اور یہ رقم اگلے روز بھیجنے کے لیے رکھی گئی تھی مگر چھاپہ پڑ گیا۔ بیورو کریسی اور بلوچستان حکومت کی پریشانی یہی ہے کہ اب معلوم نہیں رئیسانی کس کس کا بھانڈا پھوڑے گا۔
رئیسانی کی گرفتاری سے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی پوزیشن سب سے زیادہ خراب ہوئی ہے کیونکہ یہ انہی کے دور سے کام کر رہے تھے اور ایمانداری کی شہرت رکھنے والے وزیراعلیٰ کو پورے اڑھائی سال تک کانوں کان خبر نہ ہو سکی جبکہ گورنر محمد خان اچکزئی اور ان کے بھائی محمود خان اچکزئی و حامد خان اچکزئی کے موصوف قابل اعتماد ساتھی سمجھتے جاتے ہیں اور اچکزئی برادران صوبائی اور قومی اسمبلی میں صوبائی حقوق کے سب سے بڑے چیمپئن ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ تین سال کے عرصہ میں کسی کو موصوف کی وارداتوں کی کانوں کان خبر نہ ہوئی اور انہوں نے بے خوف و خطر اپنا کاروبار جاری رکھا۔ بلوچستان وسائل کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ ہے۔ سندھ میں ڈاکٹر عاصم حسین جیسی بڑی مچھلی پکڑی گئی تو دو سو چوراسی ارب روپے کی کرپشن کا بھید کھلا جبکہ کراچی کاسمو پولیٹن کارپوریشن کا کھاتہ ابھی تک کسی نے کھولا نہیں‘ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کبھی نیب کو پنجاب میں کارروائی کی اجازت ملی اور اُس نے کسی سیکرٹری‘ وزیر اورچھوٹے بڑے بااختیار شخص پر ہاتھ ڈالا تو کیسے کیسے انکشافات ہوں گے۔ شاید نیب کو علم ہے کہ یہ قوم اتنا بڑا جھٹکا برداشت کرنے کے قابل نہیں لہٰذا مرّوت اور درگزر سے کام لے رہی ہے۔ یہاں سالانہ ترقیاتی بجٹ (اے ڈی پی) چار سو ارب روپے ہے اور ایک ایک ترقیاتی منصوبے کی لاگت دو دو سو ارب روپے ہے مال پانی بنانے کے اتنے زیادہ مواقع موجود ہوں اور کوئی بازپرس کرنے والا بھی نہ ہو تو مشتاق رئیسانی اور ڈاکٹر عاصم کی طرح کس کا دل بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کو نہیں کرتا‘ نیب کا پنجاب میں داخلہ بلاوجہ بند نہیں۔
پاناما پیپرز کی مہربانی سے کرپشن کے خلاف قومی سطح پر شعور اجاگر ہوا۔ پیپلز پارٹی تک احتساب کی بات کر رہی ہے مخالفین ''چھاج تو بولے‘ سو بولے چھلنی کیوں بولے جس میں سو چھید‘‘ کا طعنہ دے کر جس کا منہ بند کرانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ طاقتور چوروں‘ سینہ زوروں اور اُن کے من پسند افراد کا احتساب ہو تو کیسے؟ اور کرے تو کون؟ ماضی میں ''میجر آپریشن‘‘ کی بات ہوتی تھی اب ''جنرل آپریشن‘‘ کے بغیر گزارا نہیں مگر پھر وہی سوال کہ بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ جمہوریت اور سول بالادستی کے نام پر روا ہے۔ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے مصداق قوم کا خون نچڑے یا کھال اُدھڑے‘ کرپشن کو لگام ڈالنے کی ہر کوشش معیوب ہے بلکہ سنگین جرم۔ ملک و قوم جائیں بھاڑ میں۔ احتساب کا غلغلہ پہلی بار شدومد سے 1990ء کے عشرے میں بلند ہوا اور سب سے زیادہ بلند آواز میاں نوازشریف کی تھی اب مگر کوئی یہ مطالبہ کرے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور بلاتفریق احتساب کو سازش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کرپشن سکّہ رائج الوقت ہے اور کرپشن کے خلاف بات کرنے والوں کو محفل میں تلخ و ترش سوالات اور خشمگیں نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دیانت و امانت‘ رزق حلال اور فرض شناسی اس دیس میں اجنبی الفاظ ہیں اور مفہوم و معافی سے یکسر تہی دامن‘ کسی دولت مند اور صاحب اختیار کی لوٹ کھسوٹ کا ذکر آئے تو وہ خود اپنی صفائی دے نہ دے ‘کارندے ہمہ وقت تیار و بے قرار ہوتے ہیں۔ کرپشن کے حق میں ایسے ایسے دلائل سننے کو ملتے ہیں کہ الامان و الحفیظ‘ کرپٹ حکمرانوں اور ان کے اہل و عیال کو خود بھی کبھی ایسی تاویلیں سوجھیں‘ خوف خدا نہ شرم و حیاالبتہ دو دن گذر گئے مشتاق رئیسانی کے حق میں کوئی ٹی وی پروگرام ہوا نہ کسی نے اسے جمہوریت کے خلاف سازش اور چھوٹے صوبے کی حق تلفی قرار دیا‘ شاید مشتاق رئیسانی نے اندرون ملک سرمایہ کاری کی ضرورت محسوس نہ کی ورنہ اسے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔
مشتاق رئیسانی اب تک چونکہ محفوظ و مامون رہا اس لیے حوصلے بلند ہوتے گئے اور نوبت بانیجا رسید‘ لیکن یہ اس طرز حکمرانی کا نتیجہ ہے جو جمہوریت کے نام پر ہم نے اس ملک میں رائج کی اور آج حالت یہ ہے کہ لوگ بھوک سے بلکتے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے مارنے اور خود خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ واقعہ تمثیلی انداز میں محفوظ ہے کہ اسلامی سلطنت کے ایک دور دراز علاقے میں چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور کہا ''لوگو! سنو امیر المومنینؓ کا انتقال ہو گیا ہے‘‘ اردگرد موجود افراد نے حیرت سے پوچھا‘ ''مدینہ سے ہزاروں میل دور تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی‘‘ جب تک حضرت عمرؓ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرا کرتی تھیں اور درندے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ اٹھا کر لے گیا۔ میں نے بھیڑیے کی جرات و جسارت سے اندازہ لگایا کہ اس قدر بارعب امیرالمومنینؓ اب اس دنیا میں موجود نہیں ورنہ بھیڑیا یہ حرکت نہ کرتا‘‘ چرواہا بولا۔ مشتاق رئیسانی اور دیگر بیورو کریٹس جرأت رندانہ‘ اِدھر اُدھر اور اوپر نیچے دیکھ کر ہی کرتے ہیں انہیں پتہ ہے بھئے بنے کوتوال اب ڈر کاہے‘ ایان علی کے پانچ کروڑ جائز قرار پائے تو مشتاق رئیسانی کو کون پوچھ سکتا ہے۔ میں تو اس دن کا منظر ہوں جب یہ بھی کسی پراپرٹی کی فروخت سے حاصل ہونے والی حلال آمدنی قرار دے کر واپس ہو گی۔ اوپر والوں کو کرپشن‘ کمیشن‘ کک بیکس‘ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے علاوہ سرمایہ بیرون ملک منتقل کر کے اثاثے بنانے‘ بینک اکائونٹس بڑھانے کی آزادی ہے تو ایک پسماندہ صوبے کے معصوم بیورو کریٹ کو کیوں نہیں؟ یہ تو کھلا تضاد ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں