رینجرز آئی

نوابزادہ نصراللہ خان کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اپنی تقریروں میں شاد عظیم آبادی کا ایک شعر پڑھا کرتے ؎
کہاں سے لائوں صبرِِ حضرت ایوبؑ اے ساقی
خم آئے گا‘ صراحی آئے گی‘ تب جام آئے گا
پنجاب میں رینجرز طلب کر لی گئی مگر کب آئے گی؟ کتنی بااختیار؟ اور کس کی کمان میں ہو گی؟ کچھ واضح نہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا موقف ہے کہ رینجرز کو محدود اختیارات کے ساتھ صرف دو ماہ کے لیے بلایا گیا ہے اور وہ پولیس کے علاوہ سی ٹی ڈی کی مدد کرے گی۔ جو لوگ سندھ کی طرح پنجاب میں بھی دہشت گردوں‘ قبضہ مافیا‘ بھتہ خوروں اور سہولت کاروں سے نمٹنے کے لیے رینجرز کا انتظار کر رہے تھے، وہ فی الحال شاد عظیم کا یہ شعر گنگنائیں۔ شاید صبر کا پھل میٹھا ہو اور اُن کی مراد بر آئے۔
عمران خان‘ ڈاکٹر طاہر القادری اور پیپلز پارٹی کے رہنما جب پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ کرتے ہیں تو حکمران جماعت کے حامی تجزیہ کار اور دانشور بول اُٹھتے ہیں کہ آخر کیوں؟ پنجاب میں حالات کراچی اور سندھ جیسے ہیں نہ صوبائی حکومت نے کبھی ان کی ضرورت محسوس کی؟ مگر چھوٹو گینگ سے نمٹنے کے لیے جب فوج کو طلب کرنا پڑا تو پتا چلا کہ صوبے میں قیام امن اور دہشت گردوں‘ ان کے سہولت کاروں‘ بھتہ خوروں‘ قبضہ گروپوں اور اغواء کاروں کے علاوہ اربوں کھربوں کی کرپشن کا قلع قمع پولیس کے بس میں نہیں جو سیاست زدہ ہے، ان گروہوں سے مرعوب و متاثر اور طاقتوروں کے ہاتھ کی چھڑی‘ جیب کی گھڑی۔ فوج کو کومبنگ آپریشن کے دوران مختلف اضلاع میں سیاست اور جُرم کے مابین اُسی نوعیت کی ملی بھگت نظر آئی جس کی بنا پر کراچی جہنم بنا اور ''را‘‘ کو اپنا نیٹ ورک بنانے کا موقع ملا۔
دور کیوں جائیے، دو روز قبل نندی پور پاور سٹیشن میں فائلوں کو پھاڑنے اور توڑ پھوڑ کرنے کا واقعہ پیش آیا، اُسے محض کرپشن کے ثبوت غائب کرنے کی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ افسوسناک سکیورٹی لیپس ہے۔ نندی پور پاور پلانٹ کی اہمیت اور حساسیت کے لیے اتنا اشارہ کافی ہے کہ اس کو چلانے کی ذمہ دار ایک چینی کمپنی ہے۔ اس پلانٹ کی سکیورٹی پر مامور اہلکار اعتراف کرتے ہیں کہ جس مقام پر فائلیں پھاڑی گئیں وہاں تک کسی بیرونی شخص کو پہنچنے کے لیے سو تربیت یافتہ اور مسلح محافظوں کی آہنی دیوار عبور کرنی پڑتی ہے مگر اس قدر حفاظتی انتظامات کے باوجود یہ واقعہ رونما ہوا اور ابھی تک صرف دو سکیورٹی گارڈ زیر حراست ہیں۔ یہ بندر کی بلا طویلے کے سر باندھنے کی حکمت عملی ہے یا سنگین سکیورٹی لیپس کو معمولی نوعیت کا واقعہ قرار دینے کی سازش؟ آزادانہ تحقیقات سے ہی پتا چل سکتا ہے۔ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال دوسرے صوبوں سے قدرے بہتر ہے اور میاں شہبازشریف پولیس سمیت اداروں کو متحرک رکھتے ہیں مگر بلوچستان کے فراری‘ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کے بھگوڑے پنجاب کے مختلف اضلاع میں چھپے ہیں اور انہیں جرائم پیشہ گروہوں نے پناہ دے رکھی ہے جن کی تلاش اور گرفتاری بوجوہ پولیس کے بس میں نہیں۔ راجن پور‘ رحیم یار خان‘ فیصل آباد اور دیگر اضلاع میں ان کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں اور رینجرز ہی ان سے نمٹ سکتی ہے۔
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر اور مخدوم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی ان راستوں کی نشاندہی کر چکے ہیں جہاں سے گزر کر وہ قبائلی علاقوں اور پھر افغانستان میں پہنچے۔ پولیس ناکوں پر کسی نے روکا نہ جگہ جگہ مشکوک افراد کو روک کر تلاشی لینے والی سول فورس نے ٹوکا‘ اغواء کاروں سے ملی بھگت کے بغیر ایسا ممکن ہے نہ قابل فہم‘ جبکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران انٹیلی جنس اداروں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق فیصل آباد کے مضافاتی علاقوں میراں والا بنگلہ‘ سدھو پورہ‘ لالیاں‘ امین پور اور دیگر مقامات سے گرفتار ہونے والوں نے مختلف جرائم پیشہ‘ اغواء کار‘ بھتہ خور اور دہشت گرد گروپوں کے باہمی تال میل کے علاوہ سیاسی سرپرستوں کی نشاندہی کی ‘ جن سے پولیس اور سی ٹی ڈی تعرض کر سکتی ہے نہ ان کا نام زبان پر لانے کی گستاخی۔
پنجاب میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کی عمارت میں آگ لگ چکی ہے‘ جہاں اہم ریکارڈ نذر آتش ہوا‘ میٹرو بس منصوبے کا ریکارڈ جل چکا ہے جبکہ نیو لاہور سٹی منصوبے میں گھپلوں کی تحقیقات سے نیب کو روکا جا چکا ہے۔ پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی نے لشکر جھنگوی کے اہم رہنما ملک اسحاق کو ساتھیوں سمیت پولیس مقابلہ میں ہلاک کیا مگر اُن کے کئی ساتھی اور ٹی ٹی پی پنجابی گروپ کے وابستگان کے بارے میں یقین سے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ پنجاب میں موجود نہیں۔ سی ٹی ڈی نے وسطی پنجاب سے گرفتار افراد کو جنوبی پنجاب لے جا کر پولیس مقابلوں میں ختم کرنے کی جو روش اپنائی ہے اس پر بھی تحفظات ظاہر کئے جا رہے ہیں جبکہ ان کی شناخت بھی کم ظاہر کی جاتی ہے۔ چند ماہ پہلے تک ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں کے علاوہ وزیراعظم اور آرمی چیف کی اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں جب بھی پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی اور کریک ڈائون کی بات چِھڑی‘ جواباً شدومد سے تعیناتی کی مخالفت کی گئی اور حافظ سعید کے علاوہ مولانا مسعود اظہر کی تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون کا عندیہ ظاہر کیا گیا جس پر فریق ثانی نے یہ باور کرایا کہ اگر یہ تنظیمیں اندرون ملک دہشت گردی میں ملوث ہیں تو جی بسم اللہ! لیکن یہ کام بھارت کو خوش کرنے کے لیے نہیں اپنے قومی مفادات اور ترجیحات کے مطابق ہونا چاہیے۔ 
رینجرز محدود اختیارات کے ساتھ کیا کارنامہ انجام دے گی؟ فیصلہ سازوں کو علم ہو گا۔ اگر اس نے سندھ کی طرح بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا تو ہوشربا انکشافات ہوں گے اور یہ بھی پتا چلے گا کہ امن و سلامتی کے اس جزیرے میں برسوں کس طرح غدر مچا رہا اور کتنے شرجیل میمن‘ ڈاکٹر عاصم حسین‘ وسیم اختر اور صولت مرزا کیا کیا گل کھلاتے رہے۔ رینجرز کی پنجاب میں تعیناتی سول ملٹری تعلقات کو ہموار کرنے کی سعی ہے؟ 29 نومبر تک وقت گزاری کا حربہ‘ یا عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دبائو اور غیر مرئی قوتوں کی ڈکٹیشن کا نتیجہ؟ فی الوقت وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن رینجرز کی تعیناتی میں مسلسل رکاوٹیں ڈالنے والے عناصر کو ناکامی ہوئی اور نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے پنجاب حکومت کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کے خواہشمند سیاستدان اور تجزیہ کار اب مطمئن ہیں کہ شاید بلوچستان اور سندھ کی طرح یہاں بھی کشتوں کے پُشتے لگیں گے۔ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان کے مفرور دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خور گرفتار ہوں گے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کے عوام کی خون پسینے کی کمائی لوٹنے‘ قومی خزانے کو کنگال کرنے اور غریبوں کے محلے اُجاڑ کر اندرون و بیرون ملک اپنے محلات بنانے‘ سجانے‘ سنوارنے والے لٹیرے نشان عبرت بنیں گے ؎ 
دیر لگی آنے میں تُم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا‘ ویسے ہم گھبرائے تو
رینجرز آ جانے کے بعد بھی اگر حالات ویسے کے ویسے ہی رہے‘ ایل ڈی اے‘ میٹرو بس‘ نندی پور پراجیکٹ کا ریکارڈ جلتا رہا‘ اور اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے دندناتے ‘عوام کے سینے پر مونگ دلتے رہے تو؟ نااُمیدی کفر ہے مگر ماضی کا تجربہ چنداں خوشگوار نہیں ۔احتساب کا کوڑا ہو یا تطہیر کا ہتھوڑا، یہاں برستے برستے بھی بسااوقات برس نہیں پاتا ؎
سو بار چمن مہکا‘ سو بار بہار آئی
دُنیا کی وہی رونق‘ دل کی وہی تنہائی 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں