"JDC" (space) message & send to 7575

قضیہ ہندوستانی سفارت کار کا

ہندوستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات آج کل اُبال کی کیفیت میں ہیں۔ دیویانی خوبر اگاڈے نیویارک میں ہندوستان کی گزشتہ ہفتے تک ڈپٹی قونصل جنرل تھیں، وہ پچھلے سال اپنے ساتھ ایک نوکرانی سنگیتا رچرڈ لے کر آئیں۔ ویزے کے لیے درخواست دیتے وقت نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کو ملازمت کا جو کنٹریکٹ دکھایا گیااُس میں درج تھا کہ امریکی قوانین کے مطابق ملازمہ کو تقریباً ساڑھے پندرہ سوڈالر ماہانہ تنخواہ دی جائے گی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں گھریلو ملازم کی کم سے کم تنخواہ پونے دس ڈالر فی گھنٹہ ہے اور اُس سے ہفتے میں صرف چالیس گھنٹے کام لیا جا سکتا ہے۔ ویزہ مل گیا تو آجر نے اجیر سے ایک اور کنٹریکٹ پر دستخط کرائے جس میں اُس کی ماہانہ تنخواہ پچیس ہزار ہندوستانی روپے تھی یعنی پہلے والے معاہدے میں درج رقم کا تقریباً پچیس فیصد۔ 
سنگیتا امریکہ پہنچ گئی۔امریکہ کو ہم جتنا بھی بُرا کہہ لیں وہاں غریبوںاورمزدوروں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ سنگیتا کو اِدھر اُدھر سے خبر ملی ہوگی کہ امریکہ میں تنخواہیں اُس کے مشاہرے سے کئی گنا ہیں۔ غریب سنگیتا کے مُنہ میں پانی ضرور آیا ہو گا کہ قانونی تنخواہ لے کر وہ اپنی حالت بدل سکتی ہے۔ اُس کا خاوند فلپ اور بچے بھارت میں ہی تھے جنہیں شریمتی دیویانی ہر ماہ پچیس ہزار روپے بھیج دیتی تھی۔ اب سنگیتا نے اپنے خاوند اور نیو یارک میں جاننے والوں کو یہ بھی بتا دیا کہ وہ روزانہ صبح چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک کام کرتی ہے۔ ایسے حالات میں مفت مشورے دینے والے خاصے مل جاتے ہیں ۔ ایک دن سنگیتا اپنی مالکن کے گھر سے اچانک غائب ہو گئی۔
13دسمبر کی صبح دیویانی اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے گئیں تو نیویارک کی پولیس اُن کے انتظار میں تھی۔ شریمتی کو ہتھکڑی لگا کر 
پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔ اُن کی جامہ تلاشی لی گئی جس پر ہندوستانی حکومت سیخ پا ہے۔ نئی دہلی میں فوری ردعمل کے طور پرراہول گاندھی سمیت ہندوستانی لیڈروں نے امریکی وفد کو ملنے سے انکار کر دیا۔ امریکی سفارت خانے کے باہر سے حفاظتی بلاک ہٹا دیے گئے۔ امریکی سفارت کاروں کے ایئر پورٹ پاس معطل کر دیے گئے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ سفارت کاروں کی ڈیوٹی فری درآمدات بشمول ماکولات ومشروبات بند کردیں۔ تجربے کی بنیاد پر بتا رہا ہوں کہ ایسی درآمدی اشیاء دسمبر کے مہینے میں خاص اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ کرسمس اور نئے سال کی تقریبات میں استعمال ہوتی ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق ہندوستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اُس کی سفارت کار کے ساتھ شرمناک سلوک ہوا ہے جس پر معافی مانگنا امریکی حکومت کے لیے ضروری ہے۔
اور اب آتے ہیں اُن بین الاقوامی قوانین کی جانب جو سفارت کاروں کے استثنیٰ کا تعین کرتے ہیں۔ویانا کنونشن 1961ء اور ویانا کنونشن 1963ء اہم ہیں جن کا اطلاق بالترتیب سفارت خانوں اورقونصل خانوں پرہوتا ہے۔ملک کا اصل نمائندہ سفارت خانہ ہوتا ہے جبکہ قونصل خانہ ایک ماتحت دفترہوتا ہے جس کا کام ویزے کا اجراء، تجارت کا فروغ اور مشکل میں اپنے ہم وطنوں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ سفارت خانے اور اس میں کام کرنے والے سفارت کاروں کا استثنیٰ زیادہ موثراور وسیع ہوتا ہے۔ مثلاً قونصلیٹ میں کام کرنے والے افسر سے اگر کوئی غیر معمولی جرم 
سرزد ہو جائے تو اُسے سزا بھی ہو سکتی ہے جبکہ سفارت خانے کے افسروں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جا سکتا۔آپ کو یاد ہوگا کہ ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں پہلے امریکی حکومت نے کہا تھا کہ وہ لاہور والے امریکن قونصلیٹ کا کارندہ ہے اور بعد میں تبدیل شدہ بیان میں اُسے اسلام آباد میں سفارت خانے کا کارکن بتایا گیا۔ مقصد صرف اور صرف اُسے پاکستانی قانون کی گرفت سے بچانا تھا۔ اب یہی آزمودہ نسخہ ہندوستانی حکومت شریمتی دیویانی کے سلسلے میں استعمال کر رہی ہے۔چنانچہ اُس کا تبادلہ فوراً قونصلیٹ سے انڈین مشن برائے اقوام متحدہ میں کردیا گیا ہے۔
ویانا کنونشن کے چند اور زاویوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ دیباچے میں مذکور ہے کہ سفارت کاروں کو میزبان حکومت کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے ۔ ایک اوراہم پہلو یہ ہے کہ سول تنازعات میں سفارت کار کا استثنیٰ موثر نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر ایک سفارت کار اپنے مکان کا کرایہ نہیں دیتا تو اُس کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔ ویانا کنونشن میں یہ بھی درج ہے کہ سفارت خانے کے سٹاف کو استثنیٰ صرف اُن کے سرکاری فرائض کی حد تک ہے یعنی اگر سفارت خانے کا اکائونٹنٹ یا سٹینوگرافر سڑک پر کسی آدمی سے لڑ پڑتا ہے تو اُسے استثنیٰ حاصل نہ ہوگا۔ شریمتی دیویانی کے سلسلے میں امریکی حکام کی رائے یہ ہے کہ ملازمہ کو کم تنخواہ دینا دو افراد کا تنازع ہے اور اس کا سرکاری فرائض منصبی سے کوئی تعلق نہیں۔
گفتگو کُچھ زیادہ قانونی قسم کی ہو چلی ہے لہٰذا اب ایک دلچسپ شخصیت کا ذکر ہو جائے جس کا اس کیس سے گہرا تعلق ہے اور وہ ہیں مسٹر پریت بھرارا۔ یہ صاحب ہندوستانی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلے گئے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور آج کل نیویارک کی ریاست کے لیگل پراسیکیوٹر ہیں۔ موصوف مالی جرائم پکڑنے میں ماہر ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سٹاک ایکسچینج یعنی وال سٹریٹ والے بھی ان سے ڈرتے ہیں۔ 2012ء میں ٹائم میگزین نے اُن کا شمار دنیا کے سو موثر ترین لوگوں میں کیا تھا۔شریمتی دیویانی کے خلاف کیس بنانے میں پریت بھرارا کا خاص رول ہے،لہٰذا ہندوستان میں بھرارا پرکافی لعن طعن ہو رہی ہے کہ اُس نے ہندوستانی سفارت کار کو بھی نہیں بخشا۔
یہ معاملہ روزبروززیادہ پیچیدہ ہو رہا ہے۔بھارتی حکومت بضد ہے کہ امریکی حکومت معافی مانگے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے مگر ہندوستان کی نظر میں یہ معافی نہیں،بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید کا کہنا ہے کہ ہند امریکہ تعلقات بہت اہم ہیں،اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا۔ ادھر دہلی میں سنگیتا کی فیملی کو دھمکیاں مل رہی تھیں اس لیے امریکہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے۔ اس فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ شریمتی دیویانی کے والد جو خود سینئر بیوروکریٹ رہے ہیں‘ نے فرمایا ہے کہ ان کی بیٹی کو پیسے بٹورنے کے لیے بلیک میل کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان میں امریکہ مخالف جلوس نکلے ہیں اورانسانی حقوق کی علمبردارا نجمنیں امریکہ میں سنگیتا کے حق میں نعرے لگا رہی ہیں۔ امریکی میڈیا ہندوستانی حکومت سے باربارپوچھ رہا ہے کہ وہ ظالم کا ساتھ کیوں دے رہی ہے جبکہ مظلوم بھی ہندوستانی شہری ہے۔ لگتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔
ایک تجربہ کار اور قابل احترام ہندوستانی کالم نگار اگارکر پٹیل کا کہنا ہے کہ ہتھ کڑی لگنے والی کہانی غلط ہے اور جذبات ابھارنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ پٹیل نے یہ بھی لکھا ہے کہ پریت بھرارا کا ریکارڈ بہت اچھا ہے، اب تک اُس نے جس کے خلاف بھی کیس بنایا اُسے ثابت کیا۔
میرا اپنا بھی یہی خیال ہے کہ ہندوستانی حکومت کا ردعمل سفارتی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ ویانا کنونشن کے تحت غیر ملکی سفارت کاروں کو تحفظ فراہم کرنا میزبان ملک کا فرض ہے۔ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کے باہر کنکریٹ بلاک ہٹانا اورٹیکس فری درآمد پر پابندی لگانا کوئی دانش مندی نہیں۔ سٹین فورڈ یونیورسٹی کا ایک سکالر جو ہندوستان پرگہری نظر رکھتا ہے کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے آپ کو عالمی قوت سمجھتا ہے لیکن جس طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے وہ عالمی قوت والا نہیں۔
عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ بالآخر صلح صفائی سے طے ہو جائے لیکن بھارت کی سبکی بہت ہوئی ہے۔ ایک عام سی ملازمہ نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں