"JDC" (space) message & send to 7575

ڈاکوؤں سے مکالمہ

میں کالم کو ذاتی مقصد کیلئے استعمال کرنے کو معیوب سمجھتا ہوں اس لئے کہ کالم قارئین کی امانت ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں میرے گھر میں ڈاکہ کی واردات کو چار سال ہونے کو ہیں لیکن میں نے اس کے بارے میں اپنے کسی کالم میں ذکر نہیں کیا۔ البتہ ساجد رمضان کے گھر ڈاکے سے متعلق رئوف کلاسرا کا کالم پڑھا تو اس موضوع پر لکھنے کی تحریک ہوئی اور پھرمعلوم ہوا کہ سلیم صافی بھی ہمارے کلب کے ممبر بن چکے۔ چار سال بعد مجھے اپنے نقصان کی تلافی کی کوئی امید نہیں۔ لہٰذا یہ کالم صرف مفاد عامہ کے لیے رقم میں ہے۔ اسلام آباد کے حالات اتنے دگرگوں ہو رہے ہیں کہ خاموشی گناہ ہے۔
19 مئی 2010ء کا واقعہ ہے ہم نئے نئے جی 13 میں اپنے نئے نویلے گھر منتقل ہوئے تھے۔ ریٹائر ہونے پر یہ ایک پلاٹ حکومت نے سستے داموں دیا تھا۔ عمر بھرکی جمع پونجی سے اس پر گھرتعمیر کیا۔ علی الصبح یعنی نماز فجر سے کوئی آدھا گھنٹہ پہلے ہمارے گھر میں چار بن بلائے مہمان داخل ہوئے۔ سرغنہ کے ہاتھ میں پستول تھا۔ انہوں نے مجھے میری بیوی اور بیٹے کو یرغمال بنایا۔ ہمارے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے گئے۔ سروں پر چادریں ڈال دیں تاکہ ہم انہیں اور ان کی کارروائی کو دیکھ نہ سکیں۔ انہوں نے ہمارے گھر کے ہی رومال اور نیپکن اپنے منہ چھپانے کیلئے استعمال کیے۔ لیکن سرغنہ کی شکل مجھے اب بھی یاد ہے اس لئے کہ جب وہ اچانک میرے بیڈ روم میں داخل ہوا تو اس کا چہرہ بے نقاب تھا۔ چاروں نوجوان تھے اور بے حد پھرتیلے۔ ان کا سرغنہ پڑھا لکھا لگتا تھا۔
میں حیران تھا کہ دیواروں پر خاردار تار کے باوجود یہ گھر میں داخل کیسے ہوئے۔ میں نے خوفزدہ ہونے کے باوجود پہلا سوال کیا کہ تم ہمارے گھر میں داخل کیسے ہوئے؟ سرغنہ نے جواب دیا: ہم تربیت یافتہ کمانڈو ہیں۔ ایسی دیواریں اور خاردار تاریں ہمارے سامنے بے معنی ہیں۔ ڈاکو اپنے کام میں خوب ماہر تھے۔ مثلاً جہاں جہاں ان کے ہاتھ لگتے تھے وہ کپڑے سے اس جگہ کو صاف کرتے جاتے تھے تاکہ فنگر پرنٹ سے پکڑے نہ جائیں۔ انہوں نے صرف وہ چیزیں اٹھائیں جو ان کی جیبوں میں آسانی سے آ سکتی تھیں۔ صرف نقدی، زیورات، گھڑیاں اور موبائل فون اٹھائے اور چلتے بنے۔ البتہ ان میں سے ایک کافی باذوق لگتا تھا۔ اس نے بڑی جیبوں والی ڈانگری سی پہنی ہوئی تھی۔ ڈریسنگ ٹیبل کی تلاشی لے کر اس نے خوشبو کی اچھی سی بوتلیں جیبوں میں ڈالیں۔ ہم کِن انکھیوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ مگر بے بس تھے۔
البتہ ایک بات میں ڈاکو اناڑی ثابت ہوئے۔ موبائل فونوں کی چوری سے یہ پتہ چل گیا کہ وہ اٹھمقام آزاد کشمیر کے رہنے والے ہیں۔ اگرچہ ہمیں وہ یہ بتاتے رہے کہ پشاور سے آئے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے شکار کو کنفیوز کرنے کیلئے بہت سی غلط بیانیاں کرتے ہیں۔ ہوا یوں کہ اس وقت کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ جاوید نور مرحوم میرے دوست تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ نیک نام پولیس افسر تھے۔ ان کی مدد سے یہ پتہ چل گیا کہ چوری شدہ موبائل کس کے استعمال میں ہیں۔ واردات کو تقریباً ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ہمارا ایک فون بہارہ کہو میں استعمال ہوا جو کہ مری کے راستہ میں اسلام آباد ہی کی ایک مضافاتی بستی ہے۔ پولیس نے گھر پر چھاپہ مارا اور ہمارا فون برآمد کرلیا۔ فون ایک خاتون شاہین بی بی کے پاس تھا۔ فون میں جو سم استعمال ہو رہی تھی وہ شاہین کے بھائی ظفیر احمد کی تھی جو اٹھمقام کا رہنے والا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ سمارٹ ڈاکو ہمارے والی سمیں نکال کر ہمارے ہی گھر میں پھینک گئے تھے۔
شاہین بی بی کو پولیس نے مسروقہ مال رکھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ اس نے بیان دیا کہ ہمارا فون اور اس میں استعمال ہونے والی سم اسے بہارہ کہو کی ایک انجان عورت نے دیئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ بیان سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔ پھر وہ اتنا ضرور مان گئی کہ سم اس کے بھائی کی ہے اور کئی ماہ سے اس کے استعمال میں تھی۔ اگلے روز شاہین بی بی کی عدالت سے ضمانت ہو گئی اس لئے کہ حقوق نسواں کے تحفظ کیلئے مشرف دور میں ایک قانون بنا کہ قتل کے علاوہ ہر جرم میں خواتین کو ضمانت مل سکتی ہے۔ لہٰذا آپ نے دیکھا ہوگا کہ چوری اور ڈاکے کی کئی وارداتوں میں اب خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اب پاکستان میں صنفی برابری نہیں بلکہ اس ضمن میں تو جرائم پیشہ خواتین کو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔
شاہین بی بی کے دو بھائی نصیر احمد اور بشیر احمد آزاد کشمیر پولیس کے اشتہاری مجرم تھے۔ وہ کشمیر سے لے کر کراچی تک وارداتیں کرتے تھے اور شاید آج بھی کرتے ہوں۔ اسلام آباد پولیس کے ایک پرانے افسر نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ یہی گینگ ایک وفاقی سرکاری افسر کے قتل میں بھی ملوث پایا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایسے جرائم پیشہ گروہوں کی ہیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اسلام آباد پولیس کے لوگ دو مرتبہ ان لوگوں کو گرفتار کرنے آزاد کشمیر گئے مگر نامراد واپس لوٹے۔
ہمارا دوسرا فون ایک ایسے نوجوان سے ملا جو فوج میں رہ چکا تھا مگر وقوعہ کے دنوں میں بھگوڑا تھا۔ وہ بعد میں پکڑا گیا اور فوجی کوارٹر گارڈ میں قید تھا۔ پاک فوج نے میری درخواست پر اسے گولڑہ پولیس تھانہ بھیجا۔ میں اور میری فیملی اس کو دیکھنے گئے مگر اس کی شکل ڈاکوئوں سے مختلف تھی۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ یہ فون اس نے راجہ بازار سے خریدا تھا۔ پولیس نے موبائل فون بیچنے والے کو راجہ بازار سے گرفتار کیا لیکن اس کے پاس فون بیچنے والے کے کوائف تھے نہ شناختی کارڈ کی کاپی۔ اسے صرف اتنا یاد تھا کہ فون بیچنے کوئی عورت آئی تھی۔ عین ممکن ہے کہ وہ عورت شاہین بی بی ہی ہو۔
اور اب ذکر ہو جائے ظفیر احمد کا جس کی سم شاہین بی بی نے میرے فون میں استعمال کی تھی۔ ظفیر احمد ولد مجنوں شاہین اور اشتہاری مجرموں کا بھائی ہے۔ وقوعہ کے وقت وہ آزاد کشمیر میں ایک مجاہد بٹالین میں تھا۔ مجاہد بٹالین کے لوگ پارٹ ٹائم فوجی ہوتے ہیں۔ میری درخواست پر فوج کے اعلیٰ افسران نے ظفیر احمد کو بھی اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا۔ ہم اسے دیکھنے گئے۔ اس کی شکل ڈاکوئوں سے بہت مشابہت رکھتی تھی لیکن وہ وقوعہ کی رات اپنی یونٹ میں ڈیوٹی پر تھا۔ اس سلسلہ میں پاک فوج کا مکمل تعاون مجھے حاصل رہا۔
آئیے اب موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ سرغنہ نے بار بار مجھے پوچھا کہ آپ ریٹائرڈ فوجی افسر تو نہیں۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو پھر استفسار ہوا کہ آپ کے گھر میں ایک تصویر لگی ہوئی ہے جس میں آپ فوجی دستے سے گارڈ آف آنر لے رہے ہیں لہٰذا آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ دراصل ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ غور سے دیکھو کہ گارڈ آف آنر لیتے ہوئے میں نے فوجی یونیفارم پہنی ہوئی ہے یا نہیں اور سلیوٹ پیش کرنے والا دستہ پاکستانی لگتا ہے یا غیر ملکی۔ پھر کہیں جا کے ڈاکوئوں کو تسلی ہوئی۔ یہ تصویر بلغراد میں سفارتی اسناد پیش کرنے کے وقت لی گئی تھی۔
ڈاکو کہنے لگے: انکل آپ کے گھر کے باہر دو کاریں کھڑی ہیں لہٰذا ہم سمجھے کہ آپ مالدار آدمی ہیں۔ میںنے کہا کہ میرے پاس ایک پرانی کرولا ہے اور ایک چھوٹی سی سوزوکی۔ آپ ان لوگوں کے پاس جائیں جن کے پاس مرسیڈیز اور لینڈ کروزر کھڑی ہیں۔ کہنے لگے: انکل ان کے گھر کے باہر بندوق والے گارڈ بھی ہوتے ہیں۔ پھر سرغنہ نے بیان داغا کہ آپ کے گھر سے ہمیں بہت کم قیمتی چیزیں ملی ہیں۔ میں نے جواب دیا: تو پھر تم سیاسی لیڈروں کے گھر جایا کرو۔ دوسری طرف سے جواب ملا: وہ ہم سے بھی بڑے ڈاکو ہیں۔ یاد رہے کہ یہ 2010ء کا واقعہ ہے ۔
ایک خوش طبع ڈاکو بولا: انکل آپ باقاعدگی سے زکوٰۃ دیا کریں۔ میں نے کہا کہ زکوٰۃ تو ہم دیتے ہیں۔ جب اسے ترکی بہ ترکی جواب مل گیا تو کہنے لگا کہ لاحول کا کثرت سے ورد کیا کریں۔ اللہ آپ کو دوگنا دے گا ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں مگر آج تک ہمیں ڈاکوئوں کی دعا کے قبول ہونے کا انتظار ہے۔
اسلام آباد پولیس پیشہ وارانہ طور پر بہت کمزور ہے۔ بہت سی نفری وی آئی پی ڈیوٹی پر لگی رہتی ہے۔ آج تک اس فورس نے ایک بھی پولیس مقابلہ نہیں کیا۔ اسلام آباد بلکہ پورے ملک کوجاندار اور ماڈرن پولیس کی ضرورت ہے۔ ورنہ نہ آپ کا جان و مال محفوظ ہے اور نہ ہی میرا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں