"JDC" (space) message & send to 7575

چودھری سرور کا مخمصہ

چودھری سرور نے چند سال پہلے کچھ خواب دیکھے تھے جو اب چکنا چورہو چکے ہیں۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستانی نظام تعلیم کو بہتر بنائیں گے تاکہ عام پاکستانی کے بچوں کو اپنے گائوں میں یا اپنے محلے میں اچھی معیاری تعلیم مل سکے۔اس نیک مقصد کے لیے ان کی وساطت سے برطانوی حکومت سے مالی مدد بھی ملی۔چودھری سرور نے کئی سال پہلے اپنے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک ہسپتال بنوایا تھا۔ اب ان کا خواب تھا کہ باقی اضلاع میں بھی عوام کو صحت اور علاج کی سہولتیں ملیں۔ ان کا خیال تھا کہ پینے کے لیے صاف ستھرا پانی عوام کا حق ہے۔ پاکستان کی محبت میں سرشار اس شخص نے یورپی یونین سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ لے کر دیا تو ہماری برآمدات ایک ارب ڈالر بڑھ گئیں۔ کتنے لوگوں کو روزگار ملا ہوگا‘ اس ایک شخص کی جدوجہد سے ۔لیکن افسوس صد افسوس آج کے پاکستان میں یہ شخص ان فٹ ہے۔
یہ عجیب آدمی ہے۔ برطانیہ میں دولت شہرت سب کچھ حاصل کیا مگر پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کے شوق میں برطانوی شہریت تک چھوڑ دی۔ اب بھی مُصر ہے کہ دوبارہ شہریت کے لیے برطانوی حکومت کو درخواست نہیں دوں گا۔پاکستان میں جینے اور پاکستان میں ہی مرنے پر بضد ہے۔ لاہو میں گھر بھی خرید لیا ہے۔ گورنری چھوڑنے کے بعد عہد کیا کہ آئندہ ایسی سیاسی جماعت جوائن کروں گا جس میں شیڈو کیبنٹ موجود ہو اور جو بلدیاتی الیکشن کرانے کا مصمم ارادہ رکھتی ہو۔ اشارہ واضح طور پر تحریک انصاف کی جانب تھا‘ جسے انہوں نے منگل کو جوائن کر لیا۔ لیکن برطانیہ میں سیاسی تربیت پانے والے اس شخص کے لیے تحریک انصاف میں لمبی مدت کے لیے کوئی جگہ ہو گی یا اس کا انجام بھی مخدوم جاوید ہاشمی والا ہو گا۔ یہ بات غور طلب ہے‘ اس پہلو پر گفت گو آگے چل کرہو گی۔
چودھری سرور بار بار کہہ چُکے ہیں کہ آج کے پاکستان میں برداشت کا فقدان ہے۔ وہ یہ بھی فرما چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ میں اس سے بڑھ کر یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ ہمارے نوجوان طبقے کو اس ملک میں کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا۔ابھی پچھلے دنوں ایک قریبی دوست کا بیٹا کینیڈا سے آیا۔ عاطف کا بڑا بھائی پہلے سے کینیڈا میں ہے۔ وہ تین سال پہلے واٹرلو یونیورسٹی ایم بی اے کرنے گیا تو اس کا مصمم ارادہ تھا کہ دو سال بعد واپس پاکستان آ جائے گا۔ اس کے یہاں درجنوں دوست ہیں۔ کینیڈا جانے سے پہلے اس نے لاہور کی بہت ہی مشہور یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں امتیاز سے ماسٹرز کی ڈگری لی۔ اسلام آباد میں جاب بھی مل گیا۔ اپنے والدین سے اُسے بے حد محبت ہے جن کے صرف یہی دو بچے ہیں۔ واٹرلو سے ایم بی اے کرنے کے بعد عاطف کو وہاں ٹورنٹو میں جاب مل گیا اور اُس نے پی آر ویزہ یعنی مستقل رہائش کے لیے اپلائی کر دیا۔میں نے پوچھا عاطف تم تو کہتے تھے کہ ہر صورت میں پاکستان واپس آئوں گا تمہیں تو گوروں کے ممالک میں رہنے کا کوئی شوق نہ تھا۔ کہنے لگا انکل! دو وجوہ ہیں ایک تو اُن ممالک میں میرٹ کی پاسداری کی جاتی ہے۔ میں نے جاب کے لیے اپلائی کیا تو کسی ایم این اے یا وزیر کے پیچھے بھاگنا نہیں پڑا۔جب مجھے جاب مل گیا تو محسوس ہوا کہ میرا مستقبل یہاں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے۔ دوسرے پاکستان میں جس دوست سے بھی فون یا انٹرنیٹ پر بات ہوئی اُس نے یہی کہا کہ مجھے بھی کینیڈا آنے میں مدد کرو۔ عاطف تیس سالہ نوجوان ہے۔ دو ہفتے پاکستان میں رہا اور پچھلے ہفتے ہی واپس گیا ہے۔ یہاں دوستوں سے ملا تو پھر وہی سوال کہ ہم کینیڈا کیسے آ سکتے ہیں۔ہم 
نے اپنے ملک کا چہرہ اتنا بگاڑ دیا ہے اپنی معیشت کا وہ حال کیا ہے کہ نوجوانوں کو یہاں کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ اُن حالات میں چودھری سرور یہ کہتے ہیں کہ میں یہی جیوں گا اور یہیں مروں گا شائد اس لیے کہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا معاشی مستقبل سنوار چُکے اب وہ صرف اپنی دھرتی اور عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
چودھری صاحب نے عمر کا بڑا حصہ سکاٹ لینڈ میں گزارا‘ اس سکاٹ لینڈ میں لوگ ایک دوسرے کو مذہب کی بنیاد پر قتل نہیں کرتے۔ وہاں قاتلوں کی حمایت میں جلوس بھی نہیں نکلتے۔ وہاں وزیروں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ ہمارے شاہد خاقان عباسی برطانیہ میں وزیر پٹرولیم ہوتے اور پٹرول کا بحران ہو جاتا تو موصوف آج گھربیٹھے ہوتے ۔ کئی سال پہلے کی بات ہے جرمن چانسلرولّی برانٹ کے مشیروں میں سے ایک مشیر اشتراکی بلاک کا جاسوس نکلا۔ چانسلر کو استعفیٰ دینا پڑا حالانکہ وہ کہہ سکتے تھے کہ مشیر کی کلیئرنس جس نے دی تھی اُس سے استعفیٰ مانگیں۔ لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ چودھری سروراُس پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں جہاں کرپشن ہے۔ میرٹ کس جانور کا نام ہے کسی کو معلوم ہی نہیں۔ مذہبی اقدار ختم ہو چکیں مگر مذہبی جنوں عام ہے۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ پھٹا ہوا ڈھول زیادہ شور مچاتا ہے۔آفرین ہے اس شخص پر کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی یہی کہتا ہے کہ میں یہیں جیوں گا‘ یہیں مروں گا۔
سوال یہ ہے کہ سابق گورنر کو تعلیم اور صحت کے شعبوں کی بہتری کے لیے کام کیوں نہ کرنے دیا گیا۔مجھے تو صرف یہ سمجھ آتی ہے کہ آئینی طور پر گورنرشپ صرف رسمی سا عہدہ ہے جہاں ایک تابع شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر چودھری سرور کو تعلیم اورصحت کے میدانوں میں کام کرنے کی آزادی دے دی جاتی تو سب کُچھ ٹھیک کرکے کریڈٹ وہ لے جاتے تو پھر وزیراعلیٰ کا کیا بنتا کہ موصوف انرجی سے لے کر تعلیم اور تعلیم سے لے کر لااینڈ آرڈر ہر چیزکا ماہر خود کو سمجھتے ہیں۔ ہماری انا والی سیاست نے بھی اس ملک کا حسن گہنا دیا ہے۔چلیں اور کچھ نہیں تو چودھری سرور کو بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے مرکزی حکومت کا مشیر بنا دیا جاتا۔بیرون ملک پاکستانی ان کی عزت کرتے ہیں یا عمران خان کی۔ چین اور بھارت کی اقتصادی ترقی میں وہاں سے امریکہ اوریورپ گئے ہوئے لوگوں کی سرمایہ کاری کا واضح ہاتھ ہے۔ چودھری سرور پاکستان سے باہر پڑا ہوا اربوں کا سرمایہ یہاں لا کر ملک میں صنعتوں کا جال بچھا سکتے تھے۔لیکن ایسی صورت میں بھی بالآخر واہ واہ گورنر صاحب کی ہوتی اور یہ سیاست دانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوتا۔ آج کے پاکستان میں اچھا کام کرنا بھی کس قدر مشکل ہو گیا ہے! 
بالآخر چودھری صاحب نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اس لیے کہ ہر اچھا کام کرنے کے لیے پلیٹ فارم درکار ہے‘ پارٹی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ چودھری سرور چونکہ برطانیہ سے آئے لہٰذا کسی نہ کسی پارٹی کا حصہ رہنا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے وہ مکمل طور پرمایوس ہیں۔ تحریک انصاف میں شمولیت سے عمران خان کو بہت فائدہ ہو گا۔ لیکن کیا تحریک انصاف کی کچن کیبنٹ انہیں زیادہ دیر برداشت کرے گی۔ اختلاف رائے کی جمہوری روایت سب پارٹیوں سے رخصت ہو چکی۔ رہی سہی کسر اٹھارویں ترمیم نے پوری کر دی۔ پارٹیوں کے سربراہ آمر بن گئے ہیں۔
چودھری سرور نے اپنے مخمصے کا خلاصہ خود بیان کر دیا‘ بقول ان کے پاکستان میں سچ کا قحط ہے اورقبضہ مافیا گورنر سے طاقت ور ہے تووہ معاشرہ جہاں سچ کا قحط پڑ جائے وہاں جھوٹی شہادتیں دی جاتی ہیں۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں مقتول کے ورثاء کو عدالت آنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ قبضہ مافیا زمینوں پلاٹوں اور حتیٰ کہ نوکریوں پر قابض ہو جاتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو گیلانی صاحب کے دور میں پیمرا میں دی گئی نوکریوں کی تفصیل دیکھ لیجیے۔ آج کے پاکستان میں میرٹ سہما سہما لگتا ہے تو پھر کیوں نہ عاطف جیسے نوجوان کینیڈا بھاگنے کی فکر میں رہیں اور یہ وہ نوجوان ہیں جن پر پاکستان کا خاصا بڑا سرمایہ صرف ہوا۔ 
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کو جمہوریت بہت عزیز ہے مگر ایسی جمہوریت‘ جو ان کی دہلیز پر بیٹھی رہے۔ یونین کونسل کا صدر‘ میونسپل کمیٹی کا منتخب چیئرمین اور الیکشن لڑ کر آنے والا ضلعی ناظم انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ چودھری سرور نے اس پارٹی کو اپنی پسند قرار دیا جو بلدیات کا الیکشن کرائے گی۔ جس کی شیڈو کیبنٹ ہو گی‘ جہاں ذاتی مفادات قومی مفادات پر غالب نہیں آئیں گے۔مگر کیا کریں کہ جہالت اور خود غرضی کے اس جنگل میں سکاٹ لینڈ سے آیا ہوا یہ مجنوں صحرا نوردی پر مصر ہے۔ مجنوں پر پتھر صدیوں سے پڑ رہے ہیں لیکن کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ یہ دیوانہ جو صرف اور صرف پاکستانی شہریت کے دام میں گرفتار ہے۔ جس کی لیلیٰ صرف اور صرف پاکستان ہے اس کے لیے دعائے خیر ہی کر دیں اللہ چودھری صاحب کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی ہمت و توفیق عطا فرمائے ۔آمین! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں