"JDC" (space) message & send to 7575

آج کا بھارت … (1)

بھارت ایک پراسرار پہیلی ہے جسے آسانی سے سمجھنا مشکل ہے‘ سوا ارب آبادی کا ایک وسیع و عریض ملک جہاں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں‘ جہاں ذات پات اکیسویں صدی میں بھی سماجی اور سیاسی حقیقت ہے۔ تاریخ میں انڈیا کا نقشہ متعدد بار بدلا ہے اس کی تاریخ کی بے شمار پرتیں ہیں۔ ماضی قریب میں یہ ملک تقریباً ایک ہزار سال کی غلامی کاٹ چکا ہے۔ اسے دنیا کی عظیم ترین پاورز میں شامل ہونے کا بے حد شوق ہے لیکن یہ شوق ہنوز پورا نہیں ہوا۔ کبھی یہ ملک غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھے رکھتا تھا آج امریکہ کا چہیتا ہے۔ یہاں گائے ذبح کرنے کے جرم میں مسلمان مار دیئے جاتے ہیں لیکن آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں بیف ایکسپورٹ کرنے والا نمبر ون ملک کون سا ہے؟ حیران نہ ہوں یہ ملک انڈیا ہے گویا یہاں کا سب سے بڑا دھرم پیسہ ہے۔ یہ لوگ پیسہ کمانے کے لیے گائو ماتا کی جان بھی لے لیتے ہیں۔
چلیں انڈیا کی مثبت باتیں بھی تلاش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں انڈیا کی لیڈرشپ ہم سے بہت بہتر ہے۔ وہ لوگ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہیں۔ نریندر مودی کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ جمہوریت ستر سال سے قائم و دائم ہے۔ انڈیا کا گروتھ ریٹ 2016ء میں سات فیصد سے ذرا اوپر تھا اور ترقی کا یہ سفر 1992ء سے جاری ہے۔ انڈیا میں آج بھی بے شمار غریب لوگ رہتے ہیں لیکن ایک بہت بڑی مڈل کلاس بھی نمودار ہوئی ہے۔ توقع ہے کہ 2040ء میں دنیا کے ٹوٹل جی ڈی پی میں انڈیا کا حصہ سات فیصد ہو گا۔ ترقی کے اس سفر کے ساتھ ساتھ انڈیا کا فیملی پلاننگ پروگرام کامیاب ہے۔ وہاں آبادی کی سالانہ شرح نمو صرف ایک اعشاریہ دو فیصد ہے۔ انڈیا میں بے شمار لسانی اور مذہبی گروہ ہیں۔ اسی فیصد لوگ ہندومت کے پیروکار ہیں لیکن ہندومت کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک دیومالا ہے۔ مثلا ہندومت میں کوئی ایک مقدس کتاب یا صحیفہ نہیں کئی وید ہیں ‘گیتا ہے‘ اسی طرح سے درجنوں بلکہ سینکڑوں بھگوان ہیں۔ ہندو عقیدے میں بھگوان انسان کی صورت میں بھی نمودار ہو سکتا ہے جیسے رام اور کرشنا۔ چلیں یہ ہندومت کا اپنا مسئلہ ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہر ایک کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ایک گروہ دوسرے گروہوں پر اپنے نظریات ٹھونسنے کی کوشش کرے مثلاً حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کا نعرہ تھا :ہندی ہندو ہندوستان۔ یہ لسانی اور مذہبی جبر کی بدترین مثال ہے۔ بھارت میں اونچی اور نیچی ذاتوں کی تفریق تو صدیوں سے قائم ہے لیکن 1947 ء کے بعد یہ تاثر دیا گیا کہ ملک سیکولر ہے‘ جمہوری ہے‘ لہٰذا پسے ہوئے طبقات اور اقلیتیں حقوق حاصل کریں گے‘ سر اونچا کر کے انڈیا میں پھریں گے۔ نریندر مودی کے بھارت میں ہندو طرزِزندگی سپریم ہے‘ تنگ نظری کا راج ہے‘ یہ نہرو والا انڈیا نہیں اور نہ ہی اٹل بہاری واجپائی کا ہندوستان۔
گاندھی جی کے قاتل نتھورام گودسے کا تعلق راشٹریہ سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس سے تھا۔ آر ایس ایس بی جے پی کی نظریاتی ماں ہے۔ آج کے انڈیا میں ارغوانی رنگ کے لشکر پھرتے ہیں جو کبھی مسجد پر حملے کرتے ہیں اور کبھی چرچ پر۔ پچھلے سال ایک اسی قسم کی سینا گورکھپور کے ایک چرچ میں کرسمس کے تین دن بعد گھس گئی اور پادری راتیش جوشوا سے وعدہ لیا کہ آئندہ کسی ہندو کو کرسچن نہیں بنائے گا۔ کاسٹ سسٹم کے جبر سے تنگ نیچ ذات کے ہندوئوں میں مذہب تبدیل کرنے کا رجحان رہا ہے۔ یو پی انڈیا کا دل ہے اور یہاں یوگی ادتیا ناتھ وزیر اعلیٰ ہے۔ یوگی کا تعلق بی جے پی سے ہے مگر مسلمان دشمنی میں وہ سب سے آگے ہے۔ چند سال پہلے اس شخص نے علی الاعلان کہا تھا ''اگر مسلمان ایک ہندو کو ماریں گے تو ہم سو مسلمانوں کو ماریں گے‘‘
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں‘ انڈیا میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے موضوع پر ایک اہم اور دلچسپ سیمینار ہوا۔ اس تقریب کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز نے کیا تھا۔ انڈیا کے معروف صحافی افتخار گیلانی آئے ہوئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر اور لندن کی بھی نمائندگی تھی۔ انڈیا کا تجربہ رکھنے والے ایک پاکستانی سفارت کار نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ کہا: انڈیا کے کسی شہر میں ایک ٹرک ڈرائیور کچھ تیزرفتاری سے جا رہا تھا کہ اچانک سامنے ایک گائے آ گئی۔ ڈرائیور نے گائے کو بچانے کے لیے ٹرک کو یکدم موڑا تو سامنے ایک پیدل خاتون نظر آئیں۔ ڈرائیور نے بریک لگائی لیکن خاتون کو ٹکر لگی اور وہ اپنی جان سے گئی۔ جب ڈرائیور سے پوچھا گیا کہ تم نے اچانک ٹرک کو کیوں موڑا تو جواب تھا کہ اگر گائے میرے ٹرک کی ٹکر سے مر جاتی تو لوگ مجھے وہیں آگ لگا دیتے۔ اب مجھے دو چار سال کی سزا ہو گی مگر جان تو بچ جائے گی۔ ایک قابلِ ذکر قصہ افتخار گیلانی نے بھی سنایا۔ وہ اپنے اخبار کی طرف سے کسی سٹوری کی کوریج کے لیے علی گڑھ گئے۔ ساتھ غیر مسلم فوٹو گرافر تھا۔ جس واقعہ کی کوریج کرنا تھی وہ علی گڑھ کے مسلم میجورٹی محلہ میں ہوا تھا۔ جب اس محلہ کی طرف روانگی کا وقت آیا تو فوٹو گرافر کہنے لگا کہ گیلانی صاحب آپ تو پاکستان جا رہے ہیں میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ افتخار گیلانی حیران ہو کر بولے: میں پاکستان نہیں بلکہ علی گڑھ کے ایک محلے میں جا رہا ہوں۔ فوٹو گرافر نے جواب دیا کہ ہم مسلم میجورٹی محلوں کو پاکستان کہتے ہیں۔
انڈیا میں نچلی ذات کے لوگوں کی آبادی 41 فیصد ہے۔ اونچی ذات کے لوگ صرف پندرہ فیصد ہیں مگر پچاس فیصد وسائل پر قابض ہیں۔ جمہوریت کی بدولت کم ذات لوگ‘ جنہیں other scheduled Castes بھی کہا جاتا ہے‘ گورنمنٹ جابز اور سیاسی لیڈرشپ میں آگے بھی آئے ہیں۔ منڈل کمیشن کے فیصلہ کے مطابق انہیں 27 فیصد سرکاری جاب ملتی ہیں۔ سماج وادی اور بھوجن سماج پارٹی انہی لوگوں سے ووٹ کی اپیل کرتی ہیں۔ لالو پرشاد یادیو اور مایاوتی نچلی ذات کے لوگوں کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے۔ 2014 ء کے الیکشن میں بی جے پی نے خوب پروپیگنڈہ کیا کہ نریندر مودی کا تعلق بھی نیچ ذات سے ہے اور اس طرح الیکشن جیت لیا۔
ہندوئوں کے کئی خیالات بہت پسماندہ بلکہ متعصب تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اکثر کہا جاتا تھا کہ جو شخص سمندر پار جائے گا وہ دھرم سے خارج ہو جائے گا‘ چمار کو چھو لینے سے بھی دھرم بھرشٹ ہو جاتے تھے لیکن وقت بدلنے کے ساتھ انڈیا کا سماج بدلا ہے لہٰذا تعلیم اور ترقی کا سفر عرصے سے جاری ہے۔
میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ 2016ء میں پاکستان کی بہترین یونیورسٹی نسٹ تھی اور اس کی انٹرنیشنل رینکنگ 501 تھی انڈیا کی دو تین یونیورسٹیاں پاکستان سے بہتر رینکنگ رکھتی ہیں۔ ان میں سے ایک انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنگلور ہے اور دوسری انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ممبئی ہے۔ انڈیا یقینی طور پر ہم سے تعلیم میں آگے ہے۔ پاکستان میں جگر کا ٹرانسپلانٹ ماضی قریب میں شروع ہوا جبکہ انڈیا میں کئی عشروں سے ہو رہا ہے۔ صحت اور زراعت کے شعبوں میں بھی انڈیا ہم سے آگے ہے۔ ہم انڈین کیلے مہنگے داموں خرید کر کھاتے ہیں مگر ویسے کیلے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اور سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ کشمیر اور میزورام میں انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیاں کرنے کے باوجود انڈیا کو عالمی طورپر پُر امن‘ مستحکم اور اچھا ملک سمجھا جاتا ہے۔ تمام دنیا میں بولی وڈ کی فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ انڈیا کی سفارت کاری کامیاب ہے۔ نریندر مودی کی ٹرمپ سے دوستی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن بھارت‘ اسرائیل اور عرب دنیا سے بیک وقت دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ یو اے ای میں ایک اور مندر بن رہا ہے۔ پچھلے دنوں نریندر مودی نے محمود عباس‘ محمد بن زائد النہیان اور اردن کے کنگ عبداللہ سے خوب جپھیاں ڈالیں۔ کیا انڈیا کے پاس کوئی جادو ہے۔ بھارت ایک پراسرار کہانی ہے جسے آسانی سے سمجھنا مشکل ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں