"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستانی پاسپورٹ کی توقیر

اگلے روز وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ وقت جلد آئے گا جب پاکستانی فخر سے گرین پاسپورٹ پر سفر کریں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو‘ لیکن زندگی میں بہتری صرف نیک خواہشات سے نہیں آتی۔ اس کے لیے پلاننگ کرنا پڑتی ہے اور پھر اہداف کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے‘ عملی اقدامات لینا ہوتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا کی پانچ کمزور ترین دستاویزات میں شمار ہوتا ہے اور پانچ کمزور ترین پاسپورٹ والے ممالک ہیں: شام، صومالیہ، عراق، پاکستان اور افغانستان۔
ان پانچ ممالک میں سوائے پاکستان کے باقی چار اندرونی شورش کا شکار ہیں۔ صومالیہ میں کئی سال تک کوئی سنٹرل گورنمنٹ نہ تھی۔ شام کی خانہ جنگی آٹھویں سال میں ہے۔ افغانستان میں آدھے ملک پر طالبان اور وار لارڈز کا کنٹرول ہے۔ جب میں نے یہ لسٹ دیکھی تو مجھے خاصی حیرانی ہوئی۔ پاکستان میں مرکزی حکومت ہے۔ منتخب پارلیمنٹ ہے۔ ایک ایسی فوج ہے‘ جس نے دہشت گردی کے خلاف لمبی جنگ کامیابی سے لڑی ہے۔ پاکستان دنیا کی آٹھ ایٹمی قوتوں میں سے ایک ہے۔ تو پھر اس کا پاسپورٹ دنیا میں احترام کی نظر سے کیوں نہیں دیکھا جاتا؟
ہینلی اینڈ پارٹنرز ایک برٹش فرم ہے جو دنیا بھر میں لوگوں کو امیگریشن کے بارے میں گائیڈ کرتی ہے۔ Henely and Partners ہر سال ایک لسٹ بھی جاری کرتی ہے جس میں مختلف ممالک کے پاسپورٹ‘ یعنی سفری دستاویزات کی قوت اور کمزوری‘ دونوں منعکس ہوتی ہیں‘ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ 2018 میں پاکستانی پاسپورٹ باٹم لائن Bottom Line پر تھا‘ بلکہ آج بھی ہے۔ کسی بھی پاسپورٹ کی قوت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ فرم بہت سیدھا سا معیار استعمال کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس ملک کے لوگ سب سے زیادہ ممالک میں ویزا آن ارآئیول (Visa on arrivel) حاصل کر سکتے ہوں وہ پاسپورٹ سب سے معتبر ٹھہرتا ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے معتبر پاسپورٹ جاپان کا ہے کہ جاپان کے شہری دنیا کے 190ممالک میں بغیر پیشگی ویزا کے جا سکتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر سنگاپور ہے۔ ان کے بعد فرانس‘ جرمنی اور جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔ یہ بات محلِ نظر رہے کہ پاسپورٹ کی معتبری کا عسکری قوت سے کوئی تعلق نہیں‘ ورنہ دنیا میں امریکہ کا پاسپورٹ نمبر ون ہوتا۔ دنیا کے 190 ممالک کی حکومتوں کو یقین ہے کہ جاپان کا کوئی شہری دیگر ممالک میں غیر قانونی طور پر رہنے کی خواہش نہیں رکھتا جبکہ پاکستانیوں‘ انڈین یا شامی باشندوں کے بارے میں ایسا یقین بہت کم ممالک کو ہے۔
اور آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں اعتبار کیوں کھو بیٹھا ہے‘ محترم کیوں نہیں رہا۔ 1970 سے پہلے پاکستانی پاسپورٹ کا حصول اتنا آسان نہیں تھا۔ بہت چھان بین کے بعد پاسپورٹ ملتا تھا۔ سب سے پہلے 1960 کی دہائی میں میرپور آزاد کشمیر کے لوگ انگلینڈ گئے۔ ان میں اکثریت اُن لوگوں کی تھی جن کی زمین منگلا ڈیم میں آ گئی تھی۔ ادھر انگلینڈ میں فیکٹریاں محنتی لیبر کے انتظار میں تھیں۔ ہمارے ہاں سے انگلینڈ جانے والوں میں سے کچھ لوگ سفید ان پڑھ تھے لیکن یہ لوگ بہت محنتی بھی تھی اسی لیے 1970 تک برطانیہ میں پاکستان کا امیج ٹھیک رہا۔
1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے فوراً بعد تیل کی عالمی قیمت کئی گنا بڑھ گئی۔ خلیجی ممالک میں ترقی کا عمل تیزی سے شروع ہوا۔ پٹرول کے ڈالروں سے سڑکیں اور انفراسٹرکچر کے پروجیکٹ ہر طرف بننے لگے۔ ادھر حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ پاسپورٹ فراخدلی سے ایشو کیے جائیں۔ اس زمانے کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں سیفٹی فیچر بہت کم تھے‘ لہٰذا ہاتھ کی صفائی دکھانے والے آسانی سے فورجری کر لیتے تھے۔ میں سعودی عرب میں سات سال رہا ہوں۔ وہاں حج اور عمرہ کے لیے جانے والے پاکستانیوں میں سے چند ایک وہیں رہ کر کام کرنے لگے تھے یعنی اوور سٹے Over Stay کے مرتکب ہوتے تھے۔ سعودی حکومت کو وقتاً فوقتاً انہیں ڈی پورٹ کرنا پڑتا تھا۔ 1973 تک مڈل ایسٹ میں یہ تاثر عام تھا کہ پاکستانی یا ڈاکٹر ہوتا ہے یا انجینئر۔ جب لاکھوں کی تعداد میں مزدور پاکستان سے گئے تو یہ بھرم بھی جاتا رہا۔ مزدوری کرنے میں میری نظر میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ ایمانداری سے کی جائے۔ اگر مزدور باہر جا کر اپنے ملک کی عزت کا خیال رکھے تو وہ ملک کا نام روشن کر سکتا ہے جیسا کہ نیو یارک میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے کیا تھا‘ جب اُس نے اپنے پیسنجر کا ڈالروں سے بھرا ہوا بٹوہ خود اُسے تلاش کر کے واپس کیا تھا۔ مگر مڈل ایسٹ میں یار لوگوں نے اس سے برعکس بھی بہت کام کیے جس سے ملک کا امیج بھی خراب ہوا اور گرین پاسپورٹ کی قدر و منزلت کو بھی دھچکا لگا۔ شکر ہے کہ پلاسٹک کا ڈیجیٹل شناختی کارڈ اور مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ آنے سے فورجری بڑی حد تک رک گئی ہے‘ لیکن اس سے پہلے ہماری شہرت کو نقصان پہنچ چکا تھا۔
1980 اور 1990 کی دہائی میں افغان‘ بنگلہ دیشی اور برمی باشندوں نے بے شمار پاکستانی پاسپورٹ حاصل کیے اور اس کی بڑی وجہ ہمارے پاسپورٹ کے دفتروں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی کرپشن تھی۔ سعودی عرب میں منشیات سمگل کرنے کی سزا موت ہے۔ اکثر یہ کام افغان شہری کرتے تھے‘ جن کے پاس پاسپورٹ پاکستانی ہوتا تھا۔ جب اخباروں میں خبر چھپی تھی تو بدنامی پاکستان کی ہوتی تھی۔ مکہ مکرمہ میں آج بھی ہزاروں برمی مسلمان مختصر مدت کے پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں جو انہیں جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ملے تھے۔ یونان میں ہزاروں پاکستانی ایسے تھے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر غیر قانونی طورپر داخل ہوئے۔ یونان میں داخل ہونے سے پہلے یہ لوگ اپنے پاسپورٹ بحیرئہ روم میں پھینک دیتے تھے۔ انڈین اور افغان نیشنل بھی یہی کام کرتے تھے۔ یہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ آج یہی کام شامی اور لیبیا والے کرتے ہیں۔ ہر پاسپورٹ پر ہمارے زمانے میں افسر کی مہر اور دستخط ہوتے تھے۔ میں نے خود ہزاروں پاسپورٹ سائن کئے ہوں گے‘ مگر پوری جانچ پڑتال کے بعد۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جن افسروں نے افغان یا بنگلہ دیشی شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ ایشو کیے‘ کیا کبھی ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوئی۔
مئی 2014 میں اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے علی الاعلان کہا کہ پیپلز پارٹی کے زمانے میں بااثر لوگوں نے اپنی گرل فرینڈز کو بلیو پاسپورٹ ایشو کیے۔ یاد رہے کہ بلیو پاسپورٹ آفیشل کاموں کے لیے ہے اور اس پاسپورٹ پر کئی ممالک میں ویزا فری انٹری ممکن ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ کی طرف سے پرویز رشید کے الزام کی تردید آج تک نظر نہیں آئی۔
9/11 کے بعد پاکستان کا جو امیج اجاگر ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ ممبئی کے 2008 کے واقعات کے بعد انڈیا نے پوری دنیا کو ڈھول بجا کر بتایا کہ پاکستان دہشت گردوں کے نرسری ہے۔ انسانی سمگلنگ کا مسئلہ بھی عرصے سے چل رہا، اور یہاں بھی وطن عزیز کی بہت بدنامی ہوئی ہے۔ میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستانی اتنا بد نہیں جتنا بد نام ہے اور پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ چند گندی مچھلیوں نے پورے تالاب کو خراب کر دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں