"JDC" (space) message & send to 7575

باتیں ظہیرالدین بابر کی… (1)

عظیم مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین بابر دنیا کا پہلا بادشاہ تھا جس نے روزنامچہ یعنی ڈائری باقاعدگی سے تحریر کی اور ہر اہم واقعے کو من و عن ریکارڈ کیا۔ بابر نامہ کلاسیکل ترکی زبان میں 'تزکِ بابری‘ کے نام سے بابر کی روزمرہ کی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اکبر اعظم کے زمانے میں اس کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔ فارسی زبان کا طوطی اُس زمانے میں انڈیا سے لے کر ترکی تک بولتا تھا۔ اب اس کتاب کے متعدد تراجم انگریزی اور دیگر زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے ہر طالب علم کے لیے بابر نامہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس عظیم شخص کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ وہ اچھا لیڈر اور ملٹری سٹریٹیجی کا ماہر بھی تھا۔ وہ اچھا شاعر بھی تھا۔ ڈائری بڑے سلیس انداز میں تحریر کی گئی ہے۔ بابر نے اپنی فتوحات کے علاوہ متعدد شکستوں کا بھی صراحت سے ذکر کیا ہے۔ شراب نوشی کی محفلوں کو بھی بیان کیا ہے۔ بابر نامہ میں حقائق کا ذکر صراحت سے ہے۔ اس تاریخی دستاویز میں بابر ایک بادشاہ کے علاوہ انسان کے طور پر نمایاں ہے۔
بابر برلاس ترک تھا اور پانچویں پیڑھی پر اس کا شجرہ براہِ راست امیر تیمور سے مل جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ منگول اور مغل ایک دوسرے کے مترادف الفاظ ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بابر ننہیال کی طرف سے منگول ہے۔ اس کی والدہ کا شجرۂ نسب مشہور فاتح چنگیز خان سے جا ملتا ہے۔ لہٰذا مغل خون بابر کو اپنی والدہ کی طرف سے ملا۔ لیکن مغلوں کے بارے میں بابر کے خیالات منفی رہے۔ بابر نامہ میں لکھتا ہے ''مغل فوج اکثر شرارت اور تباہی کی طرف راغب رہتی ہے‘‘۔ اسی طرح ازبک قوم بھی اس کی تنقید کا ہدف رہی اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بابر کو شیبانی خان کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی تھی۔
بابر کی والدہ قلتق نگار بیگم پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ بابر کو ترکی، فارسی اور اسلامی علوم پر عبور حاصل تھا۔ تزک بابری میں وہ ایک اچھا جغرافیہ دان، مردم شناس، فطرتی حسن کا قدر دان، پھلوں، گھوڑوں اور نباتات سے خوب واقف، سماجی روایات سے آشنا لگتا ہے۔ بابر کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ عیاش حکمران تھا اور یہ تاثر بابر کے اپنے ہی ایک مصرعہ ع بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘ کی بدولت پیدا ہوا۔ یہ تاثر بڑی حد تک غلط ہے۔ بابر گیارہ سال کا تھا کہ اُس کے والد عمر شیخ مرزا کا انتقال ہو گیا۔ کم عمری میں ہی بابر نے جنگیں لڑیں۔ سات ماہ کے محاصرے کے بعد سمرقند فتح کیا‘ لیکن سمر قند پر بابر کی حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اس کے حریفوں نے اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اندی جان پر قبضہ کر لیا۔ بابر کی والدہ نے اُسے واپس بلایا۔ سمر قند سے نکلا تو اس عظیم شہر پر دشمن کا پھر قبضہ ہو گیا۔
اندی جان بابر کی جائے پیدائش ہے۔ میں نے وادیٔ فرغانہ میں واقع یہ تاریخی شہر دیکھا ہے۔ میں وہاں 1996ء میں ازبکستان میں پاکستان کے سفیر شفقت علی شیخ صاحب کے ہمراہ گیا تھا۔ اُس زمانے میں‘ میں ہمسایہ ملک تاجکستان میں سفیر تھا۔ اندی جان میں ہماری ملاقات ایک بہت ہی نابغۂ روزگار شخصیت سے ہوئی۔ ذاکر آقا بابر کے عاشق نکلے۔ انہوں نے اندی جان میں کابل کی طرز کا باغِ بابر بنایا ہوا ہے۔ اس وسیع و عریض باغ میں بابر کی فرضی قبر بھی بنائی گئی ہے۔ اس فرضی قبر کے لیے ذاکر آقا کابل سے اصلی قبر کے ارد گرد سے مٹی لے کر آئے۔ اسی طرح وہ متعدد بار پاکستان اور انڈیا بھی گئے۔ ہر اُس جگہ سے مٹی لائے جہاں بابر نے جنگ لڑی یا قیام کیا۔ جب میری اُن سے ملاقات ہوئی تب تک ذاکر آقا سترہ مرتبہ انڈیا، پاکستان اور افغانستان جا چکے تھے۔
سمر قند بابر کا پسندیدہ شہر تھا۔ وہ بابر نامہ میں لکھتا ہے کہ ایسے پُر لطف شہر دنیا میں بہت کم ہیں۔ سمر قند کو بلدۃ المحفوظ یعنی سیف سٹی بھی کہا جاتا تھا۔ بابر کو سمر قند کے نان، سیب اور انگور بہت پسند تھے۔ ایک اور چیز اس شہر کی جس نے بابر کو متاثر کیا‘ یہ تھی کہ مختلف بازار مختلف اشیاء کے لیے مختص تھے۔ شہر کے گرد فصیل تھی۔ بقول بابر سمر قند مخمل کے لیے مشہور تھا اور دنیا کا بہترین کاغذ وہاں بنتا تھا۔ سمر قند سے بابر کی محبت کی ایک اضافی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ شہر امیر تیمور کا دارالحکومت رہا اور اس عظیم فاتح کا مرقد بھی اسی شہر میں ہے۔
بابر نامہ پڑھیں تو مصنف کی ایمان داری اور صراحت عیاں ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ کابل کی فتح کے بعد بابر اپنے ظلم اور قتل عام کا ایسے ذکر کرتا ہے کہ جیسے معمول کی بات ہو۔ آئیے یہ قصہ بابر کے اپنے الفاظ میں پڑھتے ہیں ''جب ہم نے محاصرہ کر کے ہر طرف سے حملہ کیا تو افغان لڑ نہ سکے۔ ایک سے دو سو افغان پکڑ لئے گئے اور پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔ کچھ ہمارے سامنے زندہ لائے گئے اور چند ایک کے سر ہمارے حضور پیش کئے گئے۔ قتل شدہ افغانوں کے سروں سے ہمارے کیمپ میں ایک ستون بنایا گیا۔ یاد رہے کہ مفتوح فوج کے سروں سے ستون بنانے کی روایت بابر کے جد امجد امیر تیمور کے وقت سے چلی آ رہی تھی۔ کابل کے بعد بابر نے باجوڑ فتح کیا اور یہاں تین ہزار لوگ قتل ہوئے۔ اس عمل سے لگتا ہے کہ بابر بہت ظالم شخص تھا‘ لیکن دراصل ایسا نہیں تھا۔ اس زمانے میں جنگ کے بعد مفتوح لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لیے قتل عام ضروری سمجھا جاتا تھا۔ امیر تیمور اور نادر شاہ نے دہلی کو فتح کرنے کے بعد قتل عام کیا اور 1857 میں دہلی میں انگریزوں کے ظلم و ستم سب کو یاد ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ آخری مغل بادشاہ کو اُس کے بیٹوں کے سر طشت پر رکھ کر پیش کئے گئے۔ 'تلک الایام نداولہا بین الناس‘ والی آیت یاد آ رہی ہے کہ ہم وقت کو لوگوں میں گھماتے رہتے ہیں‘ یعنی کبھی عروج کبھی زوال۔
بابر کی پہلی شادی سترہ سال کی عمر میں عائشہ سلطان بیگم سے ہوئی۔ شادی کامیاب رہی لیکن اتنی زیادہ نہیں۔ بابر لکھتا ہے کہ اس کے اور اس کی بیگم کے درمیان شرم و حیا کا ایک پردہ حائل رہا‘ اور پندرہ روز بعد ایک دوسرے کو ملتے تھے۔ بابر سچ بولنے سے قطعاً نہیں گھبراتا تھا۔ شادی کے بعد بابر کو ایک لڑکے سے عشق ہو گیا اس کا نام بابری تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ نام اصلی نہیں کیونکہ اصلی نام لکھنے سے محبوب کی دل آزاری ہو سکتی تھی۔ بابر نے اپنے محبوب کے لیے فارسی میں شعر کہے جو بابر نامہ میں درج ہیں۔ بابر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ اپنے معشوق کے چہرے پر نظریں نہیں جما سکتا تھا۔ جب کبھی یہ لڑکا بابر کے سامنے آتا تو بادشاہ کو گفتگو کے لیے الفاظ نہ ملتے‘ بقول فیض کہنے کو اُن کے سامنے بات بدل بدل جاتی تھی۔ ایک روز بابر اپنے مصاحبوں کے ساتھ ایک کوچے سے گزر رہا تھا کہ وہ لڑکا اچانک سامنے آ گیا۔ بابر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ بے حد کنفیوژ ہو گیا۔ بقول مصنف اسے دیکھنا اور اس سے بات کرنا دونوں میں بے حد دشواری تھی۔ وہ اس بات کا بھی برملا اظہار کرتا ہے کہ اس عشق میں وہ متعدد بار برہنہ سر اور ننگے پائوں پھرتا رہا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بابر ہم جنس پرست تھا۔ شاید یہ بات کسی حد تک صحیح ہو کیونکہ بابر کی شادی ہو چکی تھی‘ مگر بیوی سے قربت اور محبت کا رشتہ استوار نہیں ہو سکا تھا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ بابر کا یہ عشق بڑی حد تک افلاطونی تھا۔ مشرقی سوسائٹی میں اور خاص طور مسلم معاشروں میں لواطت یعنی ہم جنس پرستی کو بہت قبیح فعل تصور کیا جاتا ہے‘ اس لیے جو لوگ اس فعل کا ارتکاب کرتے ہیں وہ اس بات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ بابر کا کھل کر یہ قصہ بیان کرنا اس کی معصومیت کی دلیل ہے۔ ایک جگہ بابر اپنے پہلے اتالیق شیخ مجید بیگ کا ذکر بڑے اچھے الفاظ سے شروع کرتا ہے۔ شیخ مجید بیگ کو بابر کے والد کے دربار میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ تعریفی الفاظ کے بعد بابر لکھتا ہے کہ اس شخص میں لواطت والی شیطانی عادت مگر تھی۔ ا گر بابر خود ہم جنس پرست ہوتا تو وہ اس فعل کو شیطان سے تشبیہہ نہ دیتا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں