"JDC" (space) message & send to 7575

کرنے کے کچھ ضروری کام

کالعدم تنظیموں کے فعال ممبران کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ اس سے ایک غلط تاثر یہ قائم ہوا ہے کہ کارروائی انڈیا کی طرف سے دیئے گئے ڈوزیئر کے مطابق ہو رہی ہے حالانکہ ان تنظیموں کو غیر فعال بنانا نیشنل ایکشن پلان کا حصّہ ہے اور انتہا پسندی کے خلاف یہ پلان پشاور میں آرمی پبلک سکول کے المیے کے فوری بعد بنا تھا۔ پنجاب حکومت کے ایک وزیر کے چند ہندو ا عتقادات کے متعلق توہین آمیز بیان کو پورے ملک میں ناپسند کیا گیا تو اُن سے فوری طورپر استعفیٰ لے لیا گیا۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف اقدام اور پنجاب کے وزیر کا استعفیٰ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان تبدیل ہو رہا ہے اور نئے پاکستان میں نہ انتہا پسندی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی دہشت گردی کی۔
کالعدم تنظیموں کے گرفتار شدہ افراد کی کل تعداد درجنوں میں ہے اور ان میں سے صرف دو لوگ ایسے ہیں جن کے نام انڈین ڈوزیئر میں شامل ہیں اور ویسے بھی ہم اس بات کے پابند ہیں کہ انڈیا ہمیں کسی بھی پاکستانی شہری کے پلوامہ حملے میں ملوث ہونے کا ثبوت دے،تو ہم تحقیقات کریں گے۔ اس کے علاوہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے دو تین اجلاس اس سال متوقع ہیں اور پیرس میں قائم یہ فورم خاص طور پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے ڈیل کرتا ہے ۔اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ہر صورت گرے لسٹ سے رہائی حاصل کریں لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اس فورم کو ثبوت اور دلائل کے ساتھ بتائیں کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے میں پرعزم ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک کی تیز معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی سرحدوں پر امن ہو یعنی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں۔ چین کے لیڈر ڈینگ زیاؤپنگ Deng Xiopeng نے اس بات کا ادراک 1980ء کی دہائی میں کر لیا تھا۔ چین نے سوویت یونین اور انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کئے۔ سرحدوں پر کشیدگی بہت کم ہو گئی تو ترقی کے شاندار دور کا آغاز ہوا۔ آج انڈیا اور چائنا کی باہمی تجارت نوے ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر رہی ہے۔ لہٰذا اگر پاکستان نے تیز اقتصادی ترقی کرنی ہے تو انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدوں پر مکمل امن ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے پاک ایران سرحد کی صورت حال بھی پچھلے تین ماہ سے خاصی خراب ہے اور وہاں بھی ایک دہشت گرد تنظیم کا نام لیا جا رہا ہے جو ایک نئے نام سے آپریٹ کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز ہمارے قومی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں لہٰذا یہ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے ان کی بیخ کنی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز نے صومالیہ، کولمبیا اور افغانستان کا کیا حال کیا۔
آج کی جنگیں غیر روایتی بن چکی ہیں اب اصلی تیر و تفنگ کی جگہ سوشل میڈیا کے تیر برسائے جاتے ہیں۔ دشمن کو پروپیگنڈا کے ذریعے بددل کیا جاتا ہے۔ لسانی اور مسلکی تفرقوں کو ہوا دی جاتی ہے۔ دشمن کے گھر میں بے یقینی اور باہمی نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کے ممبران میں بعض بکاؤ مال بھی ہوتے ہیں۔ دشمن انہیں خرید کر بہت ہی گھناؤنا کھیل کھیل سکتا ہے اور ایسا ہوتا ہم نے دیکھا ہے لہٰذا از بس ضروری ہے کہ ہر شہری بیدار رہے اور چوکس ہو تاکہ دشمن ہمارے اپنے ہی لوگوں کے ذریعے ہماری صفوں میں نہ گھس آئے۔ ایک بات ہم سب کو ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ملک میں صرف ایک ہی جیش ہو گی ایک ہی لشکر ہوگا اور وہ ہیں پاکستان کی مسلح افواج۔ اسلامی ریاست میں جہاد ڈیکلیئر کرنے کا حق بھی صرف حکومت کو ہے کسی مسلح جتھے کو نہیں۔ تمام اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب اور ایران اس بات سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔
دوسرا ضروری کام جو ہر صورت میں کرنا چاہئے وہ ہے اپنے تعلیمی نظام کی اصلاح اور بحالی۔ 1947 میں ہمیں پوری طرح فنکشنل تعلیمی ادارے ملے تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان دونوں عام سرکاری سکولوں میں پڑھے تھے وہ کسی پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول نہیں گئے تھے۔ پچھلے چالیس سالوں میں پاکستان میں بے شمار اعلیٰ سے اعلیٰ پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول کھلے۔ وہاں تعلیم پانے والے بچے فرفر انگریزی بولتے ہیں لیکن مذکورہ بالا دو سائنس دانوں کے پائے کا ہم ایک بھی سائنس دان پیدا نہیں کر سکے۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے تنگ ذہن لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے چند وزیر ایسے تھے اور اب بھی ہیں جنہیں مہذب بات کرنے کا سلیقہ نہیں۔ موجودہ تعلیمی نظام نے اس سوچ کو پروموٹ کیا ہے کہ مسلمان دوسرے تمام مذاہب کے لوگوں سے اعلیٰ و ارفع ہیں حالانکہ اعلیٰ اور ارفع انسان تب بنتا ہے جب وہ جھوٹ نہ بولے،دوسرے انسانوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ وہ تعلیمی نظام جو تنگ نظر اور متعصب انسان پیدا کرے وہ اچھا نظام نہیں ہو سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے میٹرک کی تاریخ کی کتابوں میں چندرگپت موریہ اور اشوک کے ادوارِ حکومت کا تفصیل سے ذکر ہوتا تھا۔ بدھ مت اور ہندو مت کے عقائد بھی ہمارے سلیبس کی کتابوں میں درج تھے اس کے باوجود ہمارے مسلمان ہونے پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں اسلام سے محبت ضرور کرنی چاہئے لیکن دوسرے ادیان سے نفرت نہیں۔ تیسری چیز جو فوری کرنے کی ہے وہ ہے اپنے اداروں کی استعداد یا صلاحیت (Capacity) کو بڑھانا۔ کیا وجہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ پانی کا مسئلہ ہو یا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں کیس پیش کرنے کا ہمارے افسر اور وکیل اعلیٰ پائے کی وکالت نہیں کر پاتے ؟کیا وجہ ہے کہ ایک جنگجو تنظیم بلوچستان میں ختم کر دی جاتی ہے اور چند ہی سالوں میں اس کی جگہ ایک نئی تنظیم آ جاتی ہے اور اتنی توانا ہو جاتی ہے کہ برادر ملک ایران سے ہمارے تعلقات خراب کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ ہمارے اپنے ادارے جو باقی ملک کی طرح بلوچستان میں بھی موجود ہیں وہ اس ناسور کی بروقت اطلاع کیوں نہ دے پائے تاکہ اس کو ابتدا ہی میں مسل دیا جاتا۔ ہمیں اپنے پیرا ملٹری اور سویلین اداروں کی استعداد بڑھانا ہوگی۔
میں اس بات کو دہراؤں گا کہ آج کی جنگ چومکھی لڑائی ہے۔ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ایک تنظیم کے سربراہ کے بارے میں قرارداد آنے والی ہے۔ بہرحال پاکستان نے معلوم ہوتا کہ اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ اس مرتبہ چین کی دوستی پر زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ ادھر ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ 2018ء میں پاکستان میں 8700 کے قریب مشکوک رقوم بھیجے جانے کے کیس سامنے آئے۔ ان میں ہنڈی حوالہ کے کیس بھی شامل ہیں اور ایان علی کی طرح نقد کیش سمگل کرنے کے کیس بھی ہیں۔ ان باتوں کو FATF کے اجلاس میں خوب اچھالا جائے گا۔ ایک اور امر جس کا یہ بین الاقوامی ادارہ غور سے جائزہ لے رہا ہے وہ یہ ہے کہ کالعدم تنظیموں کادائرہ عمل بارڈر سے کتنا قریب ہے۔ اس لحاظ سے کئی تنظیمیں سرحدی علاقوں میں فعال ہیں اور یہ پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ FATFکے علاوہ انڈیا پاکستان کے لیے آئی ایم ایف میں بھی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل، تعلیمی نظام کی بحالی اور اصلاح اور سرکاری اہل کاروں کی اہلیت اور استعداد بڑھانا وہ کام ہیں جو ہمیں ضروری کرنے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں