"JDC" (space) message & send to 7575

سنکیانگ میں چینی کامیابیاں

سنکیانگ چین کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑاعلاقہ ہے۔ اس کا ایریا پاکستان سے تقریباً ڈیڑھ گنا بڑا ہے مگر آبادی صرف 22 ملین ہے۔ ٹوٹل آبادی کا 46 فیصد اوغر مسلمان ہیں جو ایک ترکی لہجہ بولتے ہیں۔ سنکیانگ کی اہمیت ہمارے لیے یوں بھی زیادہ ہے کہ یہاں سے سی پیک کا آغاز ہوتا ہے۔ سنکیانگ ہمارے گلگت بلتستان سے آگے شروع ہو جاتا ہے۔ یہ علاقہ معدنی دولت سے مالا مال ہے اور تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ 2009ء سے لے کر 2016ء تک یہ صوبہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار رہا مگر اب اس پر مکمل قابو پا لیا گیا ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے اس صوبے کی کہانی دلچسپی سے خالی نہیں۔میں دو مرتبہ سنکیانگ گیا ہوں۔ ارمچی اور کاشغر میں گھوم پھر کر خوب دیکھا ہے۔ مغربی میڈیا میں یہ پراپیگنڈا عام ہے کہ سنکیانگ میں علیحدگی پسند تحریک زوروں پر ہے اور چین اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اوغر آبادی میں سے ایک ملین سے زائد لوگوں کو بیگار کیمپوں میں قید کیا ہوا ہے اور انہیں مذہبی شعائر ادا کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ عام الزام یہ بھی ہے کہ سنکیانگ میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔
مندرجہ بالا الزامات کا حقیقت سے دور دور کا تعلق نہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں انتہا پسندی اور دہشت گردی ہوئی وہاں De-radicalization Centre بنائے گئے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سعودی عرب میں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردوں کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں انسانیت دوستی کا درس دیا گیا۔ چین میں ایسے سنٹر ضرور موجود ہیں لیکن ان کا بڑا مقصد بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو مختلف قسم کی Skills یعنی مہارتیں سکھانا ہے۔ کوئی بجلی کا کام سیکھ رہا ہے تو کوئی ہیوی مشینری کا استعمال سیکھ رہا ہے۔ سنکیانگ میں ترقی کی رفتار بہت تیز ہے‘ لہٰذا ہنر مند ہاتھوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ پچھلے سال وہاں دیہی علاقوں میں ترقی کی شرح نو اعشاریہ سات رہی۔ شہروں میں اس سے بھی زیادہ ترقی ہو رہی ہے۔ چین میں اس وقت فی کس سالانہ آمدنی آٹھ ہزار ڈالر سے ذرا اوپر ہے جبکہ سنکیانگ میں سالانہ فی کس آمدنی 3188 ڈالر ہے یعنی اب بھی پانچ ہزار ڈالر سالانہ کا فرق ہے۔ چین کی لیڈر شپ نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ اس علاقے کو ترقی اور خوشحالی میں باقی ملک کے برابر لانا ہے پچھلے سات سال میں اس علاقے کے دس فیصد لوگ سطح غربت سے اوپر آئے ہیں۔ یہاں امید کے دیے جلنے لگے ہیں۔
اقتصادی ترقی اور تعلیم انتہا پسندی کا تیر بہدف توڑ ہیں۔ آج سنکیانگ میں کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہیں۔ سب سکول جا رہے ہیں۔ وہ نوجوان جو مختلف فنی مہارتیں سیکھ رہے ہیں وہ عام لوگوں سے زیادہ اجرت لیتے ہیں۔ میں گزشتہ سالوں میں جب ارمچی اور کاشغر گیا ہوں اس مختصر عرصے میں وہاں واضح فرق نظر آیا۔ پورا صوبہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ 2016ء کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔
عام طور پر مغربی میڈیا یہ الزام لگاتا ہے کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کو مذہبی شعائر ادا کرنے کی آزادی نہیں۔ اس پراپیگنڈہ کا زمینی حقائق سے دور دور کا تعلق نہیں۔ صوبے میں مساجد کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے چینی حکومت ہر جوڑے کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت دیتی ہے یہ قانون سنکیانگ کی اقلیتوں پر لاگو نہیں۔ ان لوگوں کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔چینی حکومت سنکیانگ کی آبادی بڑھانا چاہتی ہے وہ اوغر کلچر اور روایات کو محفوظ کرنے کے لیے بھی مؤثر اقدام کر رہی ہے۔
سنکیانگ اور ہمارے صوبہ بلوچستان میں خاص مشابہت ہے۔ دونوں کا رقبہ وسیع ہے اور آبادی نسبتاً کم ہے۔ دونوں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہے ہیں۔ ان دونوں علاقوں میں معدنی دولت وافر ہے۔ دونوں سی پیک منصوبے کا اہم جزو ہیں۔ چین کی حکومت نے باقی تمام صوبوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے بجٹ میں سنکیانگ کی ترقی کے لیے فنڈ مختص کریں۔ ایسے صوبوں کی تعداد 19 ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام بڑے شہروں کو سنکیانگ کے ایک ایک شہر کے ساتھ جڑواں شہر بنا دیا گیا ہے۔ ان شہروں کی میونسپل کارپوریشن سنکیانگ میں اپنے جڑواں بھائی کے لیے ترقیاتی فنڈز بھیجتی ہیں۔ ہمارے تین صوبے اور درجن بھر بڑے شہر بلوچستان اور اس کے شہروں کے لیے ایسا ہی ایثار دکھا سکتے ہیں۔ اس سے قومی یکجہتی فروغ پائے گی۔ بلوچستان اور دیگر صوبوں میں مفاہمت بڑھے گی۔ بلوچستان میں بھی سنکیانگ کی طرح ترقی کے واضح امکانات ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ وہاں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کے لیے مزدور سوات سے جاتے ہیں۔ 2012ء میں مجھے بلوچستان جانے کا موقع ملا‘ وہاں ایک بلوچ پولٹری فارمر نے بتایا کہ میں اپنے فارم کے لیے لیبر پنجاب سے منگواتا ہوں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ بلوچستان میں غربت بھی ہے اور بے روزگاری بھی۔
سنکیانگ میں چینی حکومت نے کامیابی سے بے روزگاری کم کی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ سی پیک کے حوالے سے بلوچستان میں بھی ووکیشنل ادارے بن رہے ہیں جو نوجوانوں کو مختلف قسم کی تربیت دیں گے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ سنکیانگ کی اپنی برآمدات پچھلے چند سالوں میں دو گنا بڑھی ہیں۔ نت نئی صنعتیں لگ رہی ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت قازقستان اور دیگر سنٹرل ایشیا کے ممالک کے ساتھ سڑک اور ریلوے کے ذریعے رابطے بہتر ہوئے ہیں۔ ہمارا بلوچستان ترقی کرے گا تو یہاں سے بے شمار اشیا ایران اور افغانستان ایکسپورٹ ہوں گی اور خوش حالی آئے گی۔ بلوچستان میں سنکیانگ دونوں میں گیس اور کوئلے کے ذخائر ہیں‘ قیمتی دھاتیں ہیں‘ لیکن ایک لحاظ سے بلوچستان کو برتری حاصل ہے اور وہ ہے سمندر پر وقوع اور ایک لمبا مکران کوسٹ جہاں سیاحت کی ترقی کے واضح امکانات ہیں۔ سنکیانگ سمندر سے دو ہزار کلو میٹر دور ہے۔ سی پیک کے منصوبے کا مقصد ہی گوادر کے ذریعے سنکیانگ کی روز افزوں انرجی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ مستقبل میں ارمچی‘ کاشغر اور گوادر ایک دوسرے کی خوش حالی میں حصہ ڈالیں گے۔
پچھلے ہفتے اسلام آباد میں ایک مقامی ریڈیو کے تعاون سے سنکیانگ کے حوالے سے ایک Webinar منعقد ہوا۔ ٹیکنالوجی کی ترقی اور کورونا کی آمد سے ویبینار خاصے مقبول ہو رہے ہیں۔ آپ اس سیمینار میں گھر بیٹھے بٹھائے شرکت کر سکتے ہیں۔ اس ویبینار کا اہتمام پاک چائنا فرینڈ شپ فورم نے کیا تھا۔ گروپ کیپٹن ریٹائرڈ سلطان محمود حالی منتظم اعلیٰ بھی تھے اور اینکر بھی۔ موصوف متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور درجنوں مرتبہ چین جا چکے ہیں۔ وہ سنکیانگ کے بھی کونے کونے سے واقف ہیں۔ اس ویبینار میں مجھے سپیکر کی حیثیت سے بلایا گیا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر شافعی حالی نے سنکیانگ کی اقتصادی اہمیت بہت تفصیل سے بیان کی۔ ڈاکٹر شافعی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ پھر میں نے سنکیانگ میں چین کی کامیابی کے حوالے سے گفتگو کی۔ نسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر انجینئر ضمیر اعوان نے چین اور سنکیانگ کی اصلی صورت حال بتائی۔ اعوان صاحب چین میں کئی سال رہ چکے ہیں۔ ویبینار کی صدارت سینیٹر نثار میمن نے کی۔ لنچ کے بعد ایک اور سیشن ہوا، جس میں چین اور نیوزی لینڈ سے سپیکر آن لائن بولے۔ چین کے بارے میں بالعموم اور سنکیانگ کے بارے میں بالخصوص یہ دن بھر کا پروگرام نہایت مفید اور کامیاب رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں