"KMK" (space) message & send to 7575

ایک یوٹرن کا معاملہ

غالباً اس روز اگست کی یکم یا دو تاریخ تھی۔ میں اسلام آباد میں تھا۔ ایک فون آیا، نمبر میرے لیے بالکل نیا تھا مگر نے حسبِ عادت اٹھا لیا۔ دوسری طرف ایک صاحب تھے ،کہنے لگے میں ڈی سی او ملتان کا پی آر او فلاں بول رہا ہوں، آپ خالد مسعود صاحب ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں میں ہی خالد مسعود ہوں۔ کہنے لگا ڈی سی او صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا خیریت ہے؟ کہنے لگا کہ ملتان کے ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا میں فی الوقت اسلام آباد میںہوں ، دو تین دن بعد ملتان آئوں گا۔ سوموار کو یعنی پانچ اگست کو ملاقات ہوسکتی ہے۔ ملتان کی بہتری کے سلسلے میں میں ہمہ وقت حاضر ہوں۔ تقریباً تین چار گھنٹے کے بعد ایک سرکاری نمبر سے فون آیا۔ ایریا کوڈ ملتان کا تھا۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف ڈسٹرکٹ آفیسر ڈویلپمنٹ تھا۔ کہنے لگا آپ سے ملنا مقصود ہے۔ وجہ دریافت کی تو پتا چلا کہ وہ بھی ملتان کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ملنا چاہتا ہے۔ میں نے وہی جواب دیا کہ سوموار کو ملاقات ہوسکتی ہے۔ اگلے روز ایک جانے پہچانے نمبر سے فون آیا۔ یہ ہمارے ایک دوست کا فون تھا جو کمشنر آفس میں متعلقہ شعبے کے ڈائریکٹر ہیں۔ پوچھنے لگے کہ کہاں ہو؟ جواب دیا کہ اسلام آباد میں ہوں۔ کب آئو گے؟ بتایا کہ اتوار کو ملتان پہنچ جائوں گا۔ پوچھنے لگے سوموار کو کمشنر صاحب سے ملاقات ہوسکتی ہے؟ میں نے کہا پہلے مجھے یہ بتائیں کہ ملتان کے سرکاری افسروں کو ایک دم اس طرح سے کس لیے مطلوب ہوں؟ میں ان سرکاری افسروں میں سے کسی کو پہلے کبھی نہیں ملا، بلکہ یہ افسر چھوڑ میں ان سے پہلے والے افسران سے بھی نہیں ملا۔ ان سب کو ایک دم مجھ سے ملنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ ہمارے دوست نے ہنس کر کہا، تم نے چند روز قبل ملتان پر کوئی کالم لکھا ہے جس میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ کچھ اعتراضات کیے ہیں اور مختلف محکموں کی کارکردگی پر روشنی ڈالی ہے۔ لاہور سے اس سلسلے میں فون آیا تھا لہٰذا اس حوالے سے تم سے ملاقات کرنا مقصود ہے۔ میں نے کہا کہ اس سلسلے میں ڈی سی او ملتان بھی ملنا چاہتا ہے۔ ڈی او ڈویلپمنٹ بھی ملنا چاہتا ہے اور اب کمشنر بھی ملنا چاہتا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ایک ہی میٹنگ کرلی جائے؟ وہ کہنے لگے آپ کمشنر صاحب سے مل لیں ،باقی دیکھا جائے گا۔ اتوار کو میں ملتان پہنچا اور سوموار کو کمشنر سے ملنے اس کے دفتر چلا گیا۔ کمشنر صاحب کو ائیرپورٹ جانے کی جلدی تھی۔ غالباً وزیراعلیٰ نے ملتان آنا تھا۔ ملاقات ہوئی، اس میں ملتان کے جاری ترقیاتی منصوبوں کی خامیوں اور خرابیوں پر کم از کم میری جانب سے تفصیلی روشنی بھی ڈالی گئی اورتمام تر خامیوں اور خرابیوں کا ذکر ہوا۔ خصوصاً ایک ’’یوٹرن‘‘ کا بہت تفصیل سے تذکرہ ہوا۔ بوسن روڈ پر ایمرسن کالج کے سامنے بنے ہوئے خطرناک یوٹرن کو فوراً درست کرنے پر بات ہوئی۔ میں نے دیگر شہروں میں بننے والے یوٹرنز کی مثالیں بھی دیں۔ کاغذ پر نقشہ بنا کر خرابی واضح کی اور اس کو درست کرنے کے عمل کو نقشے سے واضح کیا۔ کمشنر ملتان نے چند روز میں کم از کم اس یوٹرن کو ٹھیک کروانے کا وعدہ کیا اور ائیرپورٹ روانہ ہوگئے۔ اسی روز ڈی سی او کے پی آر او کا فون آگیا کہ ڈی سی او آپ سے کل صبح آٹھ بجے ڈی سی او ہائوس میں ملنا چاہتے ہیں۔ میں اگلے روز صبح ڈی سی او ہائوس پہنچ گیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ ملتان میں جاری ترقیاتی کاموں میں موجود خرابیوں کو جس حد تک ٹھیک کروایا جاسکتا ہے کروایا جائے۔ملتان میں ایک عرصے سے جاری ان ترقیاتی منصوبوں پر بڑی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ سالوں سے جاری ان سست رفتار منصوبوں کی تاثیر پر بات کرنا لاحاصل تھا کہ جو ہوچکا وہ ہوچکا ،اصل مسئلہ آئندہ کاہے۔ بوسن روڈ پر تجاوزات، سروس روڈ کی خرابیوں اور محکمہ ٹائون پلاننگ کی نااہلی پر بات ہوئی۔ ڈی سی او نے میری تمام باتوں سے اتفاق کیا۔ رشید آباد فلائی اوورکے نیچے والی سڑکوں کی عدم تعمیر کے بارے میں اطلاع دی کہ کل سے ان پر کام شروع ہوچکا ہے۔ کمہاراں والاچوک فلائی اوور کے نیچے ٹریفک کی خرابیوں، سڑکوں کی غلط تعمیر اور فلائی اوور کے عین نیچے پڑے ہوئے کاٹھ کباڑ اور تعمیراتی ملبے کے بارے میں یقین دہانی کروائی کہ چند روز میں یہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔ میں نے ڈی سی او کو کہا جو خرابیاں ہوچکی ہیں اور اب ناقابل اصلاح ہیں ،چلیں اس پر تو سمجھوتہ ہوسکتا ہے مگر جو خرابیاں ہونے جارہی ہیں یا قابل درستی ہیں ان کو تو ٹھیک کیا جائے۔ ڈی سی او نے میری بات سے اتفاق کیا اور ایسی خرابیوں کے بارے میں استفسار کیا۔ میں نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اب سروس روڈز کھلی نہیں ہوسکتیں مگر ان پر تجاوزات کو تو ختم کروایا جاسکتا ہے۔ وہ کون کروائے گا؟ بوسن روڈ پر ایمرسن کالج کے سامنے درمیانی ڈیوائڈر اچانک پھیل کر سڑک کے اندرآگیا ہے۔ یہاں پہلے فلائی اوور نے اترنا تھا ،اب وہ منصوبہ ختم ہوگیاہے ،اس بے تکے پھیلائو کا کیا جواز ہے؟ ڈی سی او کہنے لگا بات درست ہے۔ مجھے بھی یہ محسوس ہوا تھا مگر میں نے زیادہ غور نہیں کیا۔ یہ واقعی درست ہونا چاہیے۔ میں نے کہا آپ نے ایمرسن کالج کا ایک غلط یوٹرن دیکھا ہے؟ ضلع کا حاکم آفیسر کہنے لگا، دیکھا ہے۔ میں نے کہا آپ کو کوئی خرابی نظرآئی؟ جواب ملا ،بظاہر تو کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ میں نے نقشہ بنا کر بتایا کہ کیا خرابی ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک یوٹرن ہے۔ یہاں میں خود دیکھ چکا ہوں کہ بیسیوں ایکسیڈنٹ ہوچکے ہیں۔ درجنوں موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں اس انجینئرنگ کے شاہکار یوٹرن کا شکار ہوچکی ہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ نامعقول، خراب اور غلط یوٹرن نہیں دیکھا۔کل کلاں اگر اس جگہ پر کوئی حادثہ ہوا اور اس میںکسی کی جان چلی گئی تو اس کی ذمہ داری آپ لوگوں پر ہوگی۔ ڈی سی او نے کم از کم اس یوٹرن کو چند روز میں درست کروانے کا وعدہ کیا۔ دو روز بعد این ایچ اے کے ملتان دفتر سے کسی مجاہد نامی شخص نے فون کیا جو خود کو ڈائریکٹر بتا رہا تھا۔ اس نے اس یوٹرن کی خرابی کے بارے میں مجھ سے پوچھا جو میں نے بتا دیا۔ وہ شخص اگرانجینئر تھا تو مجھے حیرانی ہے کہ اسے ڈگری کس نے دی تھی۔ وہ خرابی سمجھ ہی نہیں رہا تھا۔ اسے بتایا کہ اس یوٹرن کے کنارے گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں ٹکرانے کے باعث تباہ ہو چکی ہیں۔ کیا آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ کہیں نہ کہیں تو یہ خرابی ہے۔ بمشکل تمام وہ مانا کہ واقعی یہ یو ٹرن غلط بنا ہوا ہے۔ اس نے بھی اس یوٹرن کو چند روز میں ٹھیک کرانے کا وعدہ کیا اور ایک آدھ دن میں منعکسی شیشے لگانے کی یقین دہانی کروائی۔ یہ مسئلہ فوری طور پر Cat Eyes لگانے سے بہتر ہوسکتا تھا۔ آج اس بات کو ایک ماہ چوبیس روز گزر چکے ہیں۔ تجاوزات پہلے سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ کمہاراں والا چوک فلائی اوور کے نیچے ایک رتی برابر اصلاح نہیں ہوئی۔ بوسن روڈ کا درمیانی ڈیوائڈر اسی طرح بلاوجہ پھیلا ہوا ہے اور ٹریفک انجینئرنگ کی بدترین مثال بوسن روڈ کا اکلوتا یوٹرن اسی طرح اپنی تمام تر خرابیوں کے ساتھ موجود ہے۔ میں کمشنر، ڈی سی او، این ایچ اے کے افسران کو خرابی کے بارے میں بتایا چکا ہوں۔ اگر اس یوٹرن پر حادثے میں کوئی شخص جاں بحق ہوگیا تو درج بالا تمام افسران پر دفعہ تین سو سولہ ت پ کے تحت نامزد پرچہ درج ہونا چاہیے ۔یہ عاجز اس کا مدعی بننے کے لیے تیار ہے ۔کسی سرکاری افسر کو کسی عام آدمی کی جان کی رتی برابر پروا نہیں ہے۔ ملتان کے ترقیاتی کاموں میں خرابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین خرابی چھ نمبر کا فلائی اوور ہے۔ یہ فلائی اوور بننا چاہیے مگر اس طرح نہیں جس طرح بن رہا ہے۔ اگر یہ بن گیا تو آسانی کے بجائے خرابی کا باعث بنے گا مگر اس ملک میں کوئی شخص نہ غلطی ماننے پر تیار ہے اور نہ ہی اپنی درستی کرنے پر۔حقیقت یہ ہے کہ اس ترقیاتی پیکیج میں سب کچھ پہلے کی طرح ہی جاری و ساری ہے۔ کمیشن کھائے جارہے ہیں۔ معیار پر سودے بازیاں ہورہی ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کوئی اور کھا رہا تھا اور اب کوئی اور کھا رہا ہے۔خلق خدا اَن گنت کہانیاں سنا رہی ہے ۔بہتری کیسے آسکتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں