امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے بیانات پر تو بعد میں بات کرتے ہیں، فی الحال تو آئی ایس پی آر کے ردعمل پر مجھے ایک بات یاد آ ئی ہے۔ ایک خاتون خانہ نے جسے اپنے گھر میں ہنسی خوشی بستے ہوئے تقریباً پچیس برس گزر چکے تھے اور ان اڑھائی عشروں میں اسے اپنے گھر میں دنیا کی ہر سہولت اور آسائش میسر رہی‘ ایک دن بٹن ٹانکنے کے لئے سوئی کی ضرورت پڑی۔ کافی تلاش کی مگر بدقسمتی سے سوئی نہ ملی۔ جھنجھلا ئی ہوئی خاتون خانہ نے شوہر کی طرف دیکھا اور طعنہ مارا کہ یہ گھر بھی کیا ہے؟ یہاں تو مجھے کبھی سوئی بھی نصیب نہ ہوئی۔ جماعت اسلامی کو فوج کا طعنہ بھی تقریباً اسی نوعیت کا ہے۔ آئی ایس پی آر نے ہزاروں شہداء کی توہین پر اس جماعت کے امیر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے جو بذات خود ہزاروں شہداء کی امین ہے اور فوج کی غیر مشروط حمایت کے الزام میں فوج کی بی ٹیم کے طعنے سنتی رہی ہے۔ ادھر یہ جماعت پینسٹھ سالوں میں پہلی بار فوج کی پالیسی پر تنقید کے جرم میں مطعون ہو رہی ہے اور دوسری طرف بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کی حمایت کرنے کے جرم میں اس کے ارکان کو نام نہاد ’’جنگی جرائم‘‘ کے نام پر پھانسیوں کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ بانوے سالہ پروفیسر غلام اعظم پابند سلاسل ہیں‘ پھانسی کی کوٹھڑی میں مقید ہیں۔ پوری جماعت اسلامی بنگلہ دیش پاکستان اور پاکستان آرمی سے محبت اور اس کا ساتھ دینے کے جرم میں مصائب و آلام کا شکار ہے۔ اس کے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اس کی رجسٹریشن ہائی کورٹ نے منسوخ کر دی ہے۔ جماعت اسلامی عجب بدقسمتوں کی جماعتوں ہے کہ کہیں پاک فوج سے محبت کرنے اور ساتھ دینے کے جرم میں جبرو قہر کا نشانہ ہے اور کہیں اسی فوج پر اپنے تنقیدی نقطہ نظر کے باعث میڈیا ٹرائل کا شکار ہے۔ جماعت اسلامی سے بغض رکھنے والے اس پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کو غدار قرار دینے کا اور پاکستان دشمن ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ رہ گئی بات سید منور حسن کی، تو حقیقت یہ ہے کہ میں نے وہ پروگرام بغور دیکھا ہے۔ اس میں سید منور حسن نے نہ تو فتویٰ لگایا ہے اور نہ ہی فیصلہ دیا ہے، سید منور حسن نے بڑے جھجکتے ہوئے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا تھا اور اس کے لئے اینکر نے انہیں باقاعدہ مجبور کر دیا تھا۔ میں ذاتی طور پر سید منور حسن کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، کم از کم ان کی رائے کے ایک حصے سے تو مجھے سو فیصد اختلاف ہے اور ایک حصے سے جزوی۔ شاہ صاحب درویش منش آدمی ہیں اور جھوٹ ،مکر، فریب اور فی زمانہ منافقت سے کوسوں دور ہیں ۔ وہ گول مول یا دوسرے لفظوں میں ڈپلومیٹک جواب بھی دے سکتے تھے یا ہیر پھیر والے الفاظ استعمال کر سکتے تھے مگر وہ سید منور حسن تھے مولانا فضل الرحمن نہیں۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ میں سید منور حسن کی رائے سے تقریباً ستر فیصد اختلاف کرتا ہوں اور محض تیس فیصد سے اتفاق لیکن یہ میرا بھی ذاتی نقطہ نظر ہے اور اسے کسی طور کوئی فیصلہ، فتویٰ یا اختلافی بیان نہیں سمجھا جانا چاہیے، لیکن بیان بازی پڑھ کر کم از کم یہ معلوم ہوا کہ فتویٰ کے خلاف بولنے والوں کا اپنا انداز بھی کسی فتوے سے کم نہیں تھا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جماعت اسلامی کے امیر کے اس بیان کے تناظر میں جماعت اسلامی کو غدار، پاکستان دشمن اور فوج کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس پر غداری کا مقدمہ چلانے، جماعت پر پابندی کا مطالبہ کرتے اور سید منور حسن سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے نظر آئے ہیں جو خود پاکستان کی سالمیت کے خلاف بیانات دینے، ریاستی اداروں کے خلاف باقاعدہ جنگ کرنے، قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کے اہلکاروں کے قتل اور فوجی افسروں پر بہیمانہ تشدد کی پوری تاریخ رکھتے ہیں۔ میں سید منور حسن کے بیان کی نہ تو صفائی دے رہا ہوں اور نہ ہی اس کی توجیہات پیش کر رہا ہوں‘ ملت اسلامیہ کو قوم سمجھنے والی جماعت کے امیر کا نقطہ نظر پاکستانی قوم کی سمجھ میں ذرا مشکل سے ہی آ سکتا ہے۔ سید منور حسن نے امریکی جنگ میں مصروف فوج کا حوالہ مشروط اور اپنے نقطہ نظر کو اسی مشروط حوالے سے جوڑ کر دیا تھا اورپورے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو یہ کسی فیصلے یا فتوے سے زیادہ کسی صورتحال کا منطقی تجزیہ ہے ۔ انہوں نے جو بات بڑے نرم الفاظ میں کہی ہے انہیں مطعون کرنے والے لوگوں کی اکثریت یہی بات ان سے کہیں سخت انداز و الفاظ میں اپنی نجی محفلوں میں تو کرتی ہے مگر انہیں عام پبلک میں کرنے سے گھبراتی بھی ہے اور شرماتی بھی ہے۔ عجیب قوم ہے ’’کتے کی شہادت‘‘ کو مذاق میں ٹال دیتی ہے اور حکیم اللہ محسود کے لئے شہادت کا لفظ استعمال ہونے پر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ قوم پچھلے کئی عشروں سے فتویٰ شہادت دینے کی عادی ہو چکی ہے۔ قاتلوں کو، قومی مجرموں کو، غداروں کو اور ہر طرح کے الٹے سیدھے مرنے والوں کو ہر شخص نے اپنے اپنے حساب سے شہادت عطا کر رکھی ہے، اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ کل کے شہید آج کے ہلاک شدگان ہیں اور کل کے ہلاک شدگان آج کے شہید ہیں۔ کل کے مجاہد آج کے دہشت گرد ہیں اور کل کے دہشت گرد آج کے نجات دہندہ ہیں۔ جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر کے شہداء کا سٹیٹس بدلا تھا تب تو آئی ایس پی آر نے کشمیر میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو درجہ شہادت سے نکالنے پر کسی سے معافی طلب نہیں کی تھی۔ جب کشمیر اور افغانستان میں ’’جہاد‘‘ کرنے والوں کو جنہیں خود امریکہ ’’مجاہدین‘‘ کہتا تھا دہشت گرد قرار دیا اور پاکستانی حکومت نے اسی امریکی فیصلے کے تناظر میں انہیں دہشت گرد اور درانداز کا سٹیٹس عطا کیا تب تو کسی نے مجاہدین کا رتبہ کم کرنے پر کسی سے معافی کا مطالبہ نہیں کیا تھا اب کس بات کی معافی؟۔ بلاول بھٹو کا عجب قصہ ہے۔ وہ بھی اچانک پاک فوج کی حمایت میں سید منور حسن جیسے محب وطن پر ملک دشمنی اور غداری کا الزام لگا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی بذات خود پچھلے پچیس سال سے جنرل ضیاء الحق کی موت کے بارے میں جو جو کچھ کہتی رہی ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے حالانکہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو جب جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوئے تھے تو وہ بحیثیت سپاہی اپنی وردی میں تھے، خیر پور ٹامیوالی سے وہ ابراہام ٹینک کی کارکردگی کی مشقیں دیکھ کر واپس لوٹ رہے تھے‘ بطور فوجی اپنی ڈیوٹی دے کر آ رہے تھے اور انہیں امریکہ نے مروایا تھا۔ پیپلز پارٹی والوں کے نزدیک وہ جو کچھ ہیں وہ سب کو معلوم ہے۔ پیپلز پارٹی والے ضیاء الحق کو شہید کہنے والوں کا منہ نوچنے پر آ جاتے ہیں۔ آج وہ لبرل ازم کی آڑ میں مذہبی جماعت پر ذاتی فتووں کے تبرے بھیج رہے ہیں۔ آج صبح ڈاکٹر نواز اعوان ملا تو کہنے لگا ہمارے علاقے میں جنگ عظیم اول کے دوران انگریزوں کی خاطر لڑنے والوں اور مارے جانے والوں کے بارے میں بزرگ جو نظریات رکھتے تھے وہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں بیان بھی نہیں کئے جا سکتے۔ ملک عزیز میں شہادت اور اینٹی شہادت فتوے دینا شاید سب سے آسان کام ہے لیکن شہادت کے فتوے تقسیم کرنے والوں کو اس بات کا صحیح ادراک ہی نہیں کہ شہادت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں اور فیصلہ کرنا انسانی نہیں خدائی اختیار ہے ۔ اور اس کا حقیقی اجر بھی اسی نے دینا ہے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جو سپاہی شرح صدر سے یہ نیت رکھتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے دفاع اور دین کی سلامتی کے لیے لڑ رہا ہے وہ بلا شبہ شہید ہے۔ جو فوجی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی نہیں،پرائی لڑ رہا ہے اور وہ اپنے دین کی نہیں بلکہ پرائے مفاد کی سلامتی کے لیے لڑ رہا ہے اس کی شہادت کے بارے میں کسی فتوے کی ضرورت ہی نہیں۔ سارا معاملہ نیت کا ہے اور یہ وہ معاملہ ہے جس سے عالم الغیب بخوبی آگاہ ہے اور وہی شہادت کا اجر یا ہلاکت کا عذاب دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک پر جتنا برا وقت اس وقت ہے اس کا صحیح اندازہ بھی شاید کسی کو نہیں اور ہم ہیں کہ بالکل بے معنی اور لایعنی بحثوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔ ہلاکو بغداد کو تاراج کر رہا تھا اور علماء کوّے کے حلال اور حرام ہونے جیسی ’اعلیٰ و ارفع‘ بحث میں مشغول تھے ۔ ملک کی سالمیت دائو پر لگی ہوئی ہے اور ہم کتے کی شہادت جیسے ’’فکر انگیز‘‘ موضوع پر توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ ہماری حالت پر رحم کرے۔