"KMK" (space) message & send to 7575

عوام کی جان ہوتی کس لیے ہے؟

ملتان کی سیاسی قیادت ہمیشہ سے ہی تقریباً اسی قسم کی رہی ہے۔ جی حضوری اور چاپلوسی میں درجۂ عرفان پر فائز۔ اس بار بھی اس نے ثابت کیا کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ ویسے تو شہر میں مسلم لیگ ن کی سیاسی قیادت سیاسی شکست خوردگان پر مشتمل ہے اور ان کے پاس لینے دینے کے لیے ہے ہی کچھ نہیں سوائے مستقبل کی امیدوں کے۔ تاہم وہ اس کے باوجود تخت لاہور کے حکمرانوں کے اسی طرح وفادار اور کاسہ لیس ہیں جس طرح یہاں کے پرانے صوبیدار تخت دہلی کی غیر مشروط اطاعت کیا کرتے تھے۔ اکیلے بیٹھے ہوئے تقریباً تمام ایم این اے اور ایم پی اے ملتان میں میٹرو بس منصوبے کے بارے میں نہ صرف اپنے تحفظات کا اظہار کرتے تھے بلکہ بعض تو اس کے شدید ناقد تھے۔ ان کا خیال ہے کہ ملتان کو فی الوقت میٹرو بس کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں ایک دو منتخب نمائندگان جن کا تعلق ملتان شہر سے نہیں بلکہ ملتان کے نواحی حلقہ ہائے انتخاب سے ہے وہ اس بس کے حامی تھے۔ اس کی وجوہ یہ ہیں کہ انہیں پتہ ہے‘ ان کے ووٹر اس بس منصوبے کے دوران ہونے والی توڑ پھوڑ‘ کاروباری مشکلات اور جائیداد کی قیمتوں میں اتار چڑھائو سے متاثر نہیں ہوں گے اور دوسری وجہ یہ کہ ان کے دیہاتی علاقوں سے شہر آنے والے ووٹروں کو اس بس کے طفیل ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر آ جائے گی۔ وگرنہ دیگر نمائندگان اس منصوبے کے دلی طور پر خلاف تھے۔ 
مگر حسب معمول انہوں نے جب وزیراعلیٰ عرف خادم اعلیٰ کے منہ سے اس منصوبے کا ذکر سنا تو فوراً ہی داد کے ڈونگرے برسانے شروع کردیے اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ان کے اس عظیم الشان تحفے کی شان میں قصیدہ گوئی شروع کردی۔ تیس ارب روپے کے اس میگاپراجیکٹ میں سے اگر افسر اور نمائندے ٹھیکیداروں سے مل کر جائز قسم کا کمیشن بھی کھا لیں تو پرانی روٹین کے مطابق یہ پانچ فیصد ہونا چاہیے۔ ویسے تو اب افسروں اور عوامی نمائندوں کے کمیشن کا معیار اتنا اوپر چلا گیا ہے کہ ٹھیکیداروں کی باں باں ہو گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کام کا معیار اتنا ناقص ہے کہ اسے کام کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ بات کمیشن کی ہو رہی تھی۔ اگر اس میگاپراجیکٹ میں سے پانچ بلکہ دس فیصد کمیشن بھی نکال لیا جائے تو باقی ستائیس ارب روپے بچتے ہیں اور اگر یہ ستائیس ارب روپے ہی ایمانداری سے ملتان پر لگا دیے جائیں اور صرف ملتان کی سڑکیں کھلی کر دی جائیں تو ملتان میں اگلے بیس سال کے لیے میٹرو بس کی شاید کوئی ضرورت نہ رہے۔ مگر اس بار خادم اعلیٰ پر میٹرو کا خبط سوار ہے۔ لاہور میں میٹرو ٹرین‘ راولپنڈی میں میٹرو بس اور ملتان میں بھی۔ 
ملتان میں دو سڑکیں گزشتہ دور میں ایسی بنی ہیں کہ جی خوش ہو جاتا ہے۔ ایک پرانا بہاولپور روڈ اور دوسری بوسن روڈ (بوسن روڈ میں چھ نمبر چونگی چوک کا معاملہ چھوڑ کر)۔ چھ نمبر چونگی چوک کا معاملہ بھی یہ ہے کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی ملتان میں متعین ٹیم کو تعمیر و ترقی سے زیادہ کمیشن وغیرہ سے سروکار تھا اور انہیں ہمہ وقت ٹھیکیداروں سے اپنے بڑھتے ہوئے حرص اور لالچ کے مطابق کمیشن پر کمیشن وصول کرنے سے غرض تھی۔ ادھر ٹھیکیداروں کو ان کی لاگت کا اصل زر بھی توڑ توڑ کر تھوڑا تھوڑا مل رہا تھا۔ ٹھیکیداروں کو پلے سے خرچ کرنے پڑ رہے تھے۔ ادائیگیوں کی رفتار انتہائی سست تھی اور کام چل نہیں رہا تھا۔ ایسے میں ٹھیکیدار بے چارے کیا کرتے؟ ادھر پنجاب حکومت نے وزیراعظم پیکج میں جو اپنا حصہ ڈالنا تھا وہ اس میں ہمہ وقت لیت و لعل کرتی رہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی جگہ پر کام تقریباً بالکل رُک گیا۔ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی اور بیوروکریسی نے منصوبے میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کر کے نکال دی۔ ناقص منصوبہ بندی‘ گھٹیا معیار اور غیر معیاری مٹیریل کے استعمال نے رہا سہا بیڑہ بھی غرق کردیا۔ چھ نمبر چونگی چوک انہی ملی جلی خرابیوں کا نتیجہ ہے جو ابھی تک کئی سال گزرنے کے باوجود یہ چوک موہنجوداڑو کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ گزشتہ سات سال سے پنجاب میں خادم اعلیٰ کی گڈگورننس کا راج ہے اور یہ چوک ان کی جنوبی پنجاب سے محبت اور گڈگورننس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 
لاہور کی میٹرو بس ستائیس کلو میٹر‘ راولپنڈی کی غالباً تیئس کلو میٹر اور ملتان کی تیس کلو میٹر طویل ہے۔ یہ تیس کلو میٹر پورے ملتان کا رنگ روڈ بنتا ہے۔ ملتان میں فی الوقت مسئلہ میٹرو بس نہیں‘ سڑکوں کی کشادگی کا ہے۔ سارے شہر کی سڑکیں تنگ ہیں اور گزشتہ سڑسٹھ برس میں یعنی قیام پاکستان کے بعد ان میں نہ ہونے کے برابر بہتری آئی ہے۔ سارا شہر تنگ اور پریشان ہے اور کشادگی چاہتا ہے۔ میں خود اپنے آبائی گھر جاتے ہوئے بیسیوں بار سوچتا ہوں۔ ہر بار پہلے روٹ کا سوچتا ہوں اور پھر روانہ ہوتا ہوں لیکن ہر بار دوران سفر مجھے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس بار بھی روٹ کا انتخاب کرنے میں غلطی ہوئی ہے نتیجتاً واپسی پر دوسرا روٹ اختیار کرتا ہوں اور راستے میں سوچتا ہوں کہ پہلے والا روٹ نسبتاً زیادہ بہتر تھا۔ میٹرو بس کا جو روٹ بنا ہے وہ پہلے سے ہی تقریباً کشادہ سڑکوں پر ہے سوائے ہمایوں روڈ سے چودہ نمبر چونگی تک۔ اس تین کلو میٹر کے علاوہ باقی سارا روٹ ایسا ہے جس پر پہلے سے ٹریفک یا ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ مختصراً یہ کہ میٹرو بس پر تیس ارب لگانے سے ان فوائد کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہو سکتا جو مجموعی طور پر شہر پر خرچ ہونے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ 
میٹرو بس منصوبے کے لیے جو کمیٹی بنی ہے اس میں رانا محمودالحسن اور طارق رشید بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں حضرات شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی سے علی الترتیب شکست کھا کر گھر بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک خادم اعلیٰ کی جوہرشناس نظر نے ان کا انتخاب کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں مخدوم رشید اور شہر کے نواح سے منتخب ہونے والا ''مخدوم شکن‘‘ ایم این اے بھی اس کمیٹی کا ممبر ہے جس کی بنیادی وجہ شہرت پہلے بس اڈوں سے بھتہ وصولی تھی‘ آج کل قبضہ گروپ کی سرپرستی ہے۔ ایک ایم این اے کا تعلق شجاعباد سے ہے اور اس کا اصرار ہے کہ میٹرو بس منصوبہ بہاولپور چوک سے ناگ شاہ چوک تک سات کلو میٹر بڑھا دیا جائے۔ سات کلو میٹر سے مراد ہے دو تین ارب روپے۔ یہ سات کلو میٹر ایسے ہیں جہاں دور دور تک سواری نظر نہیں آتی۔ اس کا مطمح نظر صرف یہ ہے کہ شجاعباد سے آنے والے اس کے ووٹروں کو‘ خواہ وہ دن بھر میں سو ڈیڑھ سو ہی کیوں نہ ہوں‘ چوک ناگ 
شاہ سے شہر لانے کے لیے میٹرو بس موجود ہو۔ حالانکہ جو شخص شجاعباد سے ملتان پبلک ٹرانسپورٹ پر آ رہا ہو وہ سیدھا جنرل بس سٹینڈ پر اترتا ہے اور وہاں سے آگے شہر میں جہاں جانا چاہے‘ جا سکتا ہے۔ مگر سارا مسئلہ صرف ووٹروں کو خوش رکھنے کا ہے خواہ اس کے لیے پورا منصوبہ برباد ہی کیوں نہ ہو جائے۔ 
5جون کو خادم اعلیٰ نے ملتان میں جونہی میٹرو بس منصوبے کا اعلان کیا‘ وہاں موجود تمام منتخب و غیر منتخب نمائندوں نے داد کے ڈونگرے برسانے شروع کردیے۔ بے روزگاری‘ مہنگائی‘ بھوک اور افلاس نے ملک کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔ فی الوقت لوگوں کو بنیادی ضرورت کی بے شمار ایسی چیزیں درکار ہیں جو میٹرو بس سے کہیں زیادہ ضروری ہیں۔ ملک قرضوں کے انبار تلے دبا ہوا ہے اور مغل شہنشاہوں جیسے ہمارے حکمران غیر ضروری میگاپراجیکٹس پر زور دے رہے ہیں۔ حکمرانوں کا کیا ہے؟ وہ اس ملک کے غریبوں کے لیے چند سو ارب روپے کے اور قرضے چھوڑ جائیں گے۔ یہ قرضے میری اور آپ کی اگلی نسلوں کو ادا کرنے ہیں۔ دنیا میں لوگ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے سہولتیں‘ آسانیاں‘ خوشحالی اور ترقی کی بنیادیں چھوڑ کر جانے میں مصروف ہیں اور ہمارے حکمران ہمارے لیے بھوک‘ بے روزگاری‘ دہشت گردی‘ مہنگائی اور قرضوں کا طومار چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ منصوبے بنانے والے اور ان کی نگرانی کرنے والے بہرحال خوش ہیں کہ ان کا کمیشن تو نقد وصول ہو جائے گا۔ قرضوں کا کیا ہے جہاں یہ قوم پہلے سے کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہوئی ہے دو چار کھرب کا اور اضافہ ہو گیا تو کون سی قیامت آ جائے گی؟ جہاں ہم پہلے قرضوں کے پہاڑ تلے دبے ہوئے ہیں تھوڑا اور وزن پڑنے سے کوئی جان تو نہیں نکل جائے گی؟ اور اگر نکل بھی گئی تو کیا ہے؟ عوام کی جان ہوتی کس لیے ہے؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں