"KMK" (space) message & send to 7575

لانگ مارچ‘کنٹینر‘سیاسی یتیم اور کالی بلی

وکیل نے مقدمے کی تاریخ سے ایک دن پہلے اپنے موکل سے پوچھا کہ کیا اس نے ساری تیاری کر لی ہے؟ (یہ سوال حالانکہ موکل کو کرنا چاہیے تھا مگر کیا کیا جائے۔سب کچھ الٹ پلٹ ہو چکا ہے)۔ موکل کہنے لگا کہ اس نے سب کچھ بمطابق ہدایات کر لیا ہے۔وکیل نے پوچھا‘ کس کس کو ملے تھے؟موکل نے بتایا کہ اس نے وکیل صاحب کے بتائے ہوئے تمام لوگوں سے ملاقات کر لی ہے۔وکیل کی تسلی نہ ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا وہ سرکاری وکیل سے ملا تھا؟موکل کہنے لگا کہ نہ صرف یہ کہ ملا تھا بلکہ ہدایات کے مطابق اسے خاموش رہنے کا نذرانہ بھی دے دیا ہے۔اور وہ اہلمد؟وکیل نے پوچھا۔اسے بھی پانچ ہزار روپے دے دیے ہیں۔نائب کورٹ کو یاد رکھا تھا؟بالکل یاد رکھا تھا اور اسے بھی دو ہزار روپے دے دیے تھے۔ بڑے صاحب کے گھر گئے تھے کیا بنا؟ بڑے صاحب نے دروازے پر آ کر مجھے دیکھا۔سلام دعا لی اور پھر اندر چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد ان کا ملازم باہر آیا اور مجھے لے کر بازار آ گیا۔وہاں اس نے ایک ریفریجریٹر ‘ ایک سپلٹ اے سی اور ایک واٹر ڈسپنسر پسند کیا۔میں نے ادائیگی کر دی۔اس نے سارا سامان ایک لوڈررکشے پر رکھا۔مجھ سے لوڈر کا کرایہ ادا کروایا اور سامان لے کر چلا گیا۔وکیل نے ساری تفصیل سننے کے بعد اطمینان کی سانس لی اور موکل کو کہنے لگا۔بشیر!ہن توں صبح عدالت وچ میریاں لڑنیاں ویکھیں(اب تم عدالت میں صبح میری لڑائیاں دیکھنا)۔
مجھے یہ لطیفہ ایک عرصے بعد یاد آیا ہے۔سڑکوں پر کنٹینر پڑے ہیں۔کارکنوں کو دھڑا دھڑ پکڑا جا رہا ہے۔موٹر سائیکلیں کئی دن پہلے سے تھانوں میں بند ہیں۔لاہور شہر سڑکوں پر لگے ہوئے کنٹینروں کے باعث بندرگاہ کا سا منظر پیش کر رہا ہے۔ایک روز پہلے مزید ایک سو اسی کنٹینر شہر میں لائے گئے ہیں۔شاہراہوں پر جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں۔موٹر وے بند کی جا چکی ہے۔اسلام آباد مکمل طور پر سیل کیا جا چکا ہے۔جگہ جگہ کنٹینر لگے ہوئے ہیں اور جہاں کنٹینر کی گنجائش نہیں تھی‘ وہاں خندقیں کھود کر ان میں پانی بھرا جا چکا ہے۔عدالت سے آنے والے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر لانگ مارچ کو ہی سرے سے غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔غرض تحریک انصاف کے تحت آزادی مارچ کے شرکاء کو ہر ممکنہ طریقے سے روکنے کے بعد وزیر ان باتدبیر فرما رہے ہیں کہ لانگ مارچ کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ وزراء کی لاف گزاف ایسوسی ایشن کے تازہ رکن رانا مشہود کے بیان پر یقین کیا جائے تو لگتا ہے کہ یہ سارے کنٹینر‘پولیس ناکے‘کارکنوں کی گرفتاریاں‘موٹر سائیکلوں کی پکڑ دھکڑ اور اسلام آباد میں خندقیں کھود کر ان میں پانی بھرنے کی ساری محنت صرف اور صرف اس عوام نے کی ہے جس نے عمران خان کا لانگ مارچ مسترد کیا ہے۔حکومت کا اس سلسلے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔گمان غالب ہے کہ صبح میرے عزیز دوست اور تائب شدہ جیالے جناب پرویز رشید صاحب فرمائیں گے کہ دس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرنے کے دعویدار عمران خان دس ہزار لوگ بھی اکٹھا نہیں کر سکے۔ عوام نے انہیں بری طرح مسترد کر دیا ہے۔
چودہ مارچ کو ہی انقلاب مارچ کا اعلان کر کے طاہر القادری عمران خان کے ساتھ اسی طرح زبردستی چپکنے کی کوشش کر رہا ہے جس طرح اس وقت ملکی سیاست میں چودھری برادران زبردستی مولانا طاہر القادری سے چپکے ہوئے ہیں۔ ویسے تو شیخ رشید بھی ان سے مختلف نہیں مگروہ اپنی میڈیا پرفارمنس اور زور بیان کے زور پر کسی یتیم خانے کے ایسے مہتمم لگتے ہیں جو حقیقتاً یتیموں کی کمائی پر مزے کر رہا ہوتا ہے مگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ سارے یتیموں کو پلے سے کھلارہا ہے۔ آپ یقین کریں مجھے چودھری برادران سے آمریت کی حمایت کی بنیاد پر بے تحاشا اختلاف ہیں مگر میں انہیں پاکستانی سیاست میں رواداری ‘مروت‘درگزر اور وسعت قلبی کا نمائندہ سمجھتا ہوں۔چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب کی وزارت عظمیٰ کے دوران کسی مخالف کو بھی بے جا تنگ نہیں کیا بلکہ میں ایک دو ایسے واقعات بھی جانتا ہوں کہ ان کا شدید ناقداپنا ذاتی کام لے کر ان کے پاس گیا اور بامراد واپس آیا۔خاندانی تعلقات‘ باہمی میل جول اور مشرقی روایات ابھی چودھری ظہور الٰہی کے گھرانے میں کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں لیکن جب میں انہیں اس سیاسی تنہائی کے دور میں طاہر القادری کے دردولت پر بے توقیر قسم کی حاضری اور عزت سے خالی سیاسی اتحادی کے طور پر مصروف عمل دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔خدا ایسی کسمپرسی اور بے توقیری کسی دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس سارے ہنگام میں حق پر کوئی بھی نہیں۔یہ بات درست کہ عمران کے کچھ مطالبے ناقابل عمل ہیں مگر 
جب آپ قابل عمل مطالبات پر غور نہ کریں‘جائز شکایات کو نہ سنیں‘ حقیقی خرابیوں کی درستی کے لیے عملی قدم نہ اٹھائیں اور لوگوں کی درست باتیں ‘ نہ مانیں تو پھر جہاں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہے‘ عقل کی باگیں بھی ہاتھ میں نہیں رہتیں۔میاں صاحب جو باتیں تیر کمان سے نکل جانے کے بعد کہہ رہے ہیں اگر یہی باتیں پہلے کہہ دیتے اور جو مطالبات وہ اب ازخود ماننے پر تیار ہیں اگر مناسب وقت پر مان لیتے تو انہیں بھی یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا کہ میک اپ کے باوجود ان کے چہرے کی پریشانی اور آنکھوں کے رتجگے چھپائے نہیں چھپ رہے۔میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص خوبی ودیعت فرمائی ہے کہ وہ بھلے وقت میں غلط فیصلہ اور خراب وقت پر درست فیصلہ فرماتے ہیں مگر اس سے فائدے کی بجائے نقصان اٹھاتے ہیں کہ اس قسم کے فیصلوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
اس سارے ہنگامۂ داروگیر میں یہ ہوا ہے کہ دروغ گوئی کا عصری امام اور ڈرامہ بازی کا پارلیمانی شاہکار‘ جعلی ڈگری فیم اور حضر ت نوحؑ کی لکھی ہوئی تفسیر کا قاری جمشید دستی تحریک انصاف میں شامل ہو گیا ہے۔مولانا طاہر القادری کی جانب سے اپنے انقلاب مارچ کو زبردستی آزادی مارچ کے ساتھ Toe chainکرنے اور اب جمشید دستی کی اس موقع پر تحریک انصاف میں آنکھ بچا کر شمولیت کرنا ایسی نحس بدشگونیاں ہیں کہ اس کا توڑ کسی چھوٹی موٹی خیرات یا صدقے سے ممکن نہیں ہے۔ان دونوں واقعات کے سارے بداثرات عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے ٹھیک نہیں۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ضعیف العقیدہ شخص کا راستہ کالی بلی کاٹ جائے۔
فیصل ٹائون سے سہیل انور کا فون آیا۔ کہنے لگا کہ ہم پچھلے سات دن سے باقاعدہ محاصرے میں تھے۔ان سات دنوں میں چار دن فون بند رہے۔گاڑی گھر سے نہیں نکل سکی کہ دونوں طرف کنٹینر تھے۔ولید اکیڈمی جاتا ہے‘ اسے پیدل کنٹینر پار کروا کر رکشے پر بھجواتے رہے ہیں۔ذلت و رسوائی کا یہ عالم ہے کہ کل میں اور میری اہلیہ پیدل چل کر شوکت علی روڈ پر واقع ایک سٹور میں جانے لگے تو آگے خار دار تار بچھی ہوئی تھی۔ پیدل گزر نے کا راستہ بھی نہیں تھا۔ہمیں پورے سات دن مشکلات میں مبتلا رکھا گیا اور اب حکومت نے مولانا کو مزے سے روانہ کر دیا ہے۔کیا صرف ہمیں ذلیل کرنا مقصود تھا؟میں نے کہا آپ مقدر والے ہیں کہ گھر بیٹھے بیٹھے اس محاصرے کے طفیل ایک طرح سے انقلاب مارچ کا حصہ تو بن گئے مگر ''شہادت‘‘سے بہرحال محروم رہ گئے کہ یہ دنیا کا واحد مارچ ہے جس میں ثابت قدم بھی شہادت سے سرفراز ہوں گے اور بھگوڑے بھی شہادت کی سعادت حاصل کریں گے۔ واپس بھاگنے اور پلٹنے والوں کو شہید کرنے کا فتویٰ اعلیٰ حضرت قادری صاحب نے صادر فرمایا ہے۔سہیل کہنے لگا مگر انہوں نے یہ فتویٰ بعدازاں واپس لے لیا ہے۔ میں نے کہا‘ اس طرح انہوں نے بے شمار لوگوں کو متوقع شہادت سے محروم کر دیا ہے اور ان بے شمار لوگوں میں وہ خود بھی شامل ہیں۔
آپ یقین کریں دو دن پہلے تک میں معاملات کے پُرامن حل کے لیے بڑا پُرامید تھا مگر کالی بلی کے راستہ کاٹ لینے کا شگون کچھ خوشگوار نظر نہیں آ رہا۔میرے جیسا رجائی (Optimistic) شخص بھی کل کے بارے میں اب پہلے جیسا پُرامید نہیں۔تاہم ازلی رجائیت مایوس بھی نہیں ہونے دے رہی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں