"KMK" (space) message & send to 7575

لندن میں کراچی والے سے مکالمہ

کل انور مسعود صاحب بال بال ہی بچے۔ بقول ان کے‘ ان کا کچھ دیا کام آ گیا۔ کل وہ لندن میں تھے اور لندن میں بھی کہاں؟ اللہ دین پر۔ اللہ دین ریسٹورنٹ ہے۔ لندن کے علاقے ہینڈن میں واقع یہ ریسٹورنٹ ایم کیو ایم کا پسندیدہ نہیں بلکہ سمجھیں اپنا ریسٹورنٹ ہے۔ ایم کیو ایم کا سیکرٹریٹ اس ریسٹورنٹ سے حالانکہ آدھ گھنٹے کی مسافت پر ہے مگر سیکرٹریٹ کا سارا کھانا اسی اللہ دین کبابش سے جاتا ہے۔ بقول فہد کے‘ الطاف حسین صاحب کا کھانا بھی اسی ریسٹورنٹ سے جاتا ہے۔ کل وہاں ہم نے انور مسعود سمیت کھانا کھایا اور آج صبح ایم کیو ایم کے برطانیہ میں لیڈر اور الطاف حسین کے دست راست محمد انور کو منی لانڈرنگ کے سلسلے میں پولیس پکڑ کر لے گئی۔ انور مسعود خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کر رہے ہیں کہ چھاپہ کل نہیں پڑا وگرنہ کیا پتہ نام کی مماثلت کے باعث وہ پکڑے جاتے۔ بعد میں غلط فہمی دور ہونے پر واپس تو آ جاتے مگر تب تک جو ہونا تھا‘ ہو چکا ہوتا۔ احتیاطاً انور مسعود لندن سے لیوٹن آ گئے ہیں۔
فہد یہاں کی بڑی کہانیاں سناتا ہے۔ کراچی سے تعلق ہے۔ رہتا یہاں لندن میں ہے اور ایم کیو ایم سے اس کے تعلقات کچھ ٹھیک نہیں۔ اردو سپیکنگ ہے اور مہاجر ہے مگر خود کو مہاجر کے بجائے پاکستانی سمجھتا ہے۔ عرصے سے یہاں مقیم ہے اور خاصا خوشحال ہے۔ ہر دوسرے تیسرے ماہ کراچی جاتا رہتا ہے اس لیے کراچی کے حالات سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی آگاہ ہے۔ ایم کیو ایم کے برطانیہ کے رہنما محمد انور کی گرفتاری پر ہنس کر کہنے لگا: اب دیکھتے ہیں کہ الطاف حسین اور دیگر رہنما محمد انور سے لاتعلقی کا اعلان کیسے کرتے ہیں؟ میں نے پوچھا کہ اس بات سے اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ کہنے لگا صولت مرزا سے تو الطاف حسین سمیت سب لیڈران نے لاعلمی اور لاتعلقی کا اعلان فرما دیا تھا اب بھلا وہ کل تک لندن میں موجود ایم کیو ایم کے سیکرٹریٹ کے سارے معاملات چلانے والے محمد انور سے کیسے لاعلمی یا لاتعلقی کا اعلان کریں گے؟ پھر وہ کہنے لگا محمد انور کی ضمانت ہو جائے گی۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: برطانوی اداروں کے بارے میں آپ کس خوش فہمی کا شکار ہیں۔ لندن میٹرو پولیٹن پولیس یا سکاٹ لینڈ یارڈ وغیرہ وہاں میرٹ سے آنکھ چرا لیتی ہیں جہاں ''قومی مفاد‘‘ کا معاملہ آن پڑے۔ میں نے کہا یہ معاملہ کیسے قومی مفاد قرار پا سکتا ہے؟ فہد کہنے لگا آپ کو پتہ سارا ہے مگر آپ جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں۔
اللہ دین کبابش میں بڑا شغل لگا۔ فہد نے وہاں موجود ایم کیو ایم کے نوجوانوں سے چونچ لڑانی شروع کردی۔ لندن میں کسی کو کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ وہاں کوئی سیکٹر انچارج علاقے کو کنٹرول نہیں کرتا۔ کسی کو کوئی دھمکی نہیں دے سکتا۔ کوئی بھتے کی پرچی نہیں بھجوا سکتا۔ کسی کے گھر کے باہر نشان نہیں لگتا اور کوئی ٹارگٹ کلرز سے خوفزدہ نہیں ہے۔ فہد نے ایک جاننے والے سے پوچھا کہ حلقہ 246 میں کیا بن رہا ہے؟ جواب ملا کہ ہم جیت رہے ہیں۔ فہد میری طرف دیکھ کر کہنے لگا‘ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس حلقے میں اب بھی ایم کیو ایم کو عددی برتری ہے۔ نبیل گبول جتنے ووٹ شاید کنور نوید نہ لے سکے مگر یہ زیادہ مشکل الیکشن بہرحال نہیں ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں لوگوں کو یعنی اپنے ورکرز کو نوازا ہے اور سرکار کے خرچے پر نوازا ہے۔ فہد کا جاننے والا کہنے لگا‘ ہم نے کسی کو سرکار کے خرچے پر نہیں نوازا۔ فہد کہنے لگا اور وہ ''چائنا کٹنگ‘‘ سے نوازنا سرکاری خرچے پر نوازنا نہیں تو اور کیا ہے؟ جواباً وہ کہنے لگا کہ ہم نے غریبوں کو ہی نوازا ہے کسی وڈیرے کو‘ امیرزادے کو یا سردار کو نہیں نوازا۔ فہد کہنے لگا: اب معاملہ غریب اور امیر کے درمیان آن پڑا ہے مگر نوازنے والی بات تو آپ مان رہے ہیں۔ سرکار کی زمین کو اپنے ورکروں میں بانٹنا نوازنا نہیں تو اور کیا ہے؟ وہ کہنے لگا: ہم مڈل کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ہماری لیڈر شپ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ ہمارے ووٹر مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو روزگار دینا کوئی بری بات نہیں۔ فہد کہنے لگا: بری بات واقعی نہیں مگر صرف پارٹی وفاداری پر سٹیل ملز‘ واٹر بورڈ‘ کراچی پورٹ ٹرسٹ حتیٰ کہ پولیس میں بھرتی کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ اور یہ کیا ڈرامہ ہے کہ آپ کی لیڈر شپ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے؟ کبھی رکھتی ہوگی۔ اب ساری لیڈر شپ کروڑ پتی اور ارب پتی ہے۔ یہاں الطاف بھائی کی رہائش کا خرچہ‘ مکانوں کی خریداری‘ ماہانہ کونسل ٹیکس کی ادائیگی اور دیگر معاملات بھلا لوئر مڈل کلاس کیسے چلا سکتی ہے؟ اور بھی کچھ تفصیل سننی ہے؟
وہی نوجوان کہنے لگا: ہمارا کوئی نمائندہ ڈوئل نیشنلٹی ہولڈر نہیں ہے۔ ہم فراڈ سے اسمبلیوں میں نہیں گئے۔ فہد کہنے لگا: ارے جائو! کسی اور کو بیوقوف بنائو۔ نادیہ گبول دوہری شہرت رکھتی تھی اور اسی بنا پر اسمبلی سے فارغ ہوئی تھی۔ اس کے پاس برطانوی شہریت
بھی تھی اور پاکستانی بھی۔ فرحت محمد خان کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے تھا۔ یہ دو ممبران اسمبلی تو آپ کے تھے۔ آپ لوگ بات تب تک نہیں مانتے جب تک سورج کی روشنی کی طرح ساری دنیا میں نہ پھیل جائے۔ وہ کہنے لگا‘ تم غلط کہتے ہو۔ ہم نے کبھی غلط بیانی نہیں کی۔ فہد کہنے لگا‘ جب الطاف بھائی کو منی لانڈرنگ کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا آپ لوگ آخری دم تک کہتے رہے کہ وہ پولیس سٹیشن نہیں گئے بلکہ گھر میں نظربند ہیں۔ دو تین گھنٹوں بعد پولیس نے پریس کانفرنس کر کے بتایا کہ انہیں علی الصبح پانچ بجے تھانے لے گئے تھے۔ پولیس کی پریس کانفرنس میں تو اور بھی باتیں تھیں جو بتانے کے قابل نہیں۔ میرے پاس تو تصویریں تک پڑی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔
ہوٹل آ کر میں نے فہد سے پوچھا کہ یہ ''چائنا کٹنگ‘‘ والا کیا معاملہ ہے۔ یہ کیا چیز ہے اور کس بلا کا نام ہے؟ فہد کہنے لگا‘ ہوا یوں کہ کراچی کے ہر پوش اور مہنگے علاقے میں پارک ہوا کرتے تھے۔ ایک طرف کروڑوں کے بنگلے اور سامنے سرسبز پارک۔ ایم کیو ایم نے یوں کیا کہ یہ پارک اسی اسی گز کے پلاٹوں میں کاٹ کر اپنے لوئر مڈل کلاس ورکروں کو الاٹ کر دیے۔ اسی گز کے پلاٹ کا مطلب ہے تقریباً اڑھائی مرلے۔ اس اڑھائی مرلے کے پلاٹ پر آنے والا کون تھا؟ غریب آدمی۔ یہاں اس کلاس کے آتے ہی کیا ہوا؟ گلی کی نکڑ پر جوا چل رہا ہے۔ اونچی آواز میں گالی گلوچ ہو رہی ہے۔ نشئی حضرات موج میلہ کر رہے ہیں۔ پوش علاقے کا سارا کلچر بدل گیا۔ کروڑوں کے بنگلے کے سامنے کوڑے کا ڈھیر لگ گیا۔ پھیری
والے اور ٹھیلے والے نے سامنے ڈیرہ لگا لیا۔ کروڑوں کے بنگلے کی قیمت آسمان سے زمین پر آ گری۔ پانچ کروڑ کا بنگلہ ڈیڑھ کروڑ میں فروخت ہوا اور خریدنے والوں نے بڑی پلاننگ سے سب کچھ خرید لیا۔ لوئر کلاس کے ورکر کو اسی گز کا پلاٹ مل گیا اور مڈل کلاس والے کو چار پانچ کروڑ کا بنگلہ ایک ڈیڑھ کروڑ میں مل گیا۔ یہ کام سارے کراچی میں ہوا۔ کس کس علاقے کا نام لوں۔
میں نے پوچھا‘ کراچی میں ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہے؟ فہد کہنے لگا: کراچی سے ایم کیو ایم کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں! اسے کٹ ٹو سائز کیا جا سکتا ہے‘ مگر دیوار سے لگا کر نہیں‘ منصفانہ آپریشن سے‘ جس میں دیگر عسکری ونگ رکھنے والی پارٹیوں پر بھی قانون کی برابر نظر پڑے۔ آپریشن بلاتخصیص ہو اور حسب سابق والے مفادات سے بالاتر ہو کر ہو۔ کراچی کو یرغمال بنانے والے ہر شخص اور ہر پارٹی کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔ مجرموں کو کسی رعایت کے بغیر قانون کے شکنجے میں کسا جائے‘ پھر آزادانہ الیکشن ہوں اور بس۔ اگر ایم کیو ایم کو کراچی سے مکمل طور پر فارغ کرنے کی کوشش کی گئی تو معاملات بائونس بیک ہوں گے۔
میرے کمرے سے نکلتے ہوئے فہد کہنے لگا۔ آپ میری بات لکھ لیں صولت مرزا کو پھانسی نہیں ہوگی۔ میں نے کہا: میں تمہاری اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ دیر سویر کی بات اور ہے لیکن اب معاملات کم از کم اس ایک مسئلے پر وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی اتنی آسان نہیں۔ فہد کہنے لگا: آپ بھی یہاں آتے جاتے رہتے ہیں اور میں تو یہیں ہوں۔ گھوڑا بھی موجود ہے اور میدان بھی۔ اگلی ملاقات تک صورتحال واضح ہو جائے گی۔ دیگر بہت سارے معاملات کی طرح‘ مقتول کے وارث معافی دے دیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟ آپ کو تو پتہ ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں