"KMK" (space) message & send to 7575

وقت کم ہے اور مقابلہ سخت

چھوٹے بھائیوں جیسا ایک شفیق مانچسٹر سے جڑے ہوئے قصبے اولڈھم میں بھی رہتا ہے۔ لاس اینجلس والے شفیق کی داڑھی نہیں ہے مگر میں اسے کبھی کبھارمولوی کہہ کر پکارتا ہوں، ادھر یہ عالم ہے کہ اولڈھم والے شفیق کی مکمل شرعی داڑھی ہے اور وہ باقاعدہ مولانا ہے مگر میں نے اسے کبھی مولانا پکارا ہے اور نہ سمجھا ہے۔ وہ میرے ایک عزیز دوست کا بھانجا ہے اور اسی حوالے سے وہ پہلے دن سے ہی اس محبت کا مستحق ٹھہرا ہے جس سے ہمارے ہاں چھوٹے مستفید ہوتے ہیں۔
شفیق اولڈھم کی ایک مسجد کا امام ہے‘ نوجوان ہے اور عام روایتی مولویوں سے یکسر مختلف۔ زندہ دل، روشن خیال اور زندگی کے جدید تقاضوں کے قدم سے قدم ملانے والا۔ میں ایک عرصے سے برطانیہ جا رہا ہوں اور اولڈھم سے جڑے ایک اور قصبے آشٹن انڈر لائن میں ٹھہرتا ہوں۔ یہ گریٹر مانچسٹر کا حصہ ہے۔ مانچسٹر برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ برمنگھم والے اس پر اعتراض کرتے ہیں اور خود دوسرے نمبر کے دعویدار ہیں۔ یہ مانچسٹر اور برمنگھم والوں کا باہمی جھگڑا ہے اور میں اس میں فریق نہیں ہوں۔ مانچسٹر بہت پھیلا ہوا ہے‘ شہر تو خیر ہے ہی بڑا؛ تاہم گریٹر مانچسٹر بہت بڑا بن جاتا ہے۔ گریٹر مانچسٹر میں اس سے جڑے ہوئے کئی قصبے آ جاتے ہیں۔ آشٹن انڈر لائن، اولڈھم، راچڈیل، بری، بولٹن، سٹاک پورٹ ٹریفورڈ اور ویگان اس کی Boroughs کہلاتی ہیں۔ آشٹن انڈر لائن دراصل ٹیم سائیڈ کے نام سے Boroughکہلاتی ہے۔ آپ Boroughs کو مانچسٹر ضلع کونسل کی یونین کونسلز سمجھ لیں۔ مانچسٹر میں ایشین کی تعداد کل آبادی کا سات فیصد سے زائد ہے۔
میرا شفیق سے تعارف اپنے پرانے دوست اور کلاس فیلو محسن شاہین کی وساطت سے ہوا۔ اس بات کو کئی سال ہوگئے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ میں جب بھی برطانیہ آتا ہوں شفیق سے ملاقات ہوتی ہے اور وہ ہر بار تکلف کرکے کھانے پر بلاتا ہے۔ کبھی گھر اور کبھی کسی ریسٹورنٹ میں۔ میں ایک آدھ دن کے لئے آشٹن آئوں تو شفیق کو پتا
نہیں چلنے دیتا کہ وہ پھر تکلف کرے گا۔ اس بار برطانیہ میں ہمارے مشاعروں کے ٹی وی چینلز پر اشتہار ہی اتنے چلے تھے کہ ہر شخص کو علم ہوگیا کہ میں اور انور مسعود صاحب برطانیہ آ رہے ہیں۔ برطانیہ پہنچنے سے پہلے زریں گل کا فون ملتان میں ہی آ گیا اور اس نے ہمیں ہمارا سارا شیڈول بتا کر کہا کہ آپ کے پاس سات اپریل کی شام فارغ ہے ۔ لہٰذا یہ کھانا آپ لوگ میرے ساتھ کھائیں گے۔ برطانیہ اترا تو اگلے ہی روز شفیق کا فون آ گیا‘ اس سے وعدہ کیا کہ تیرہ اپریل کو مشاعروں سے فراغت ہو جائے گی‘ اس کے بعد ملاقات بھی ہوگی اور کھانے کی دعوت بھی۔ یہ بھی ہوا کہ چھ اپریل کو کارڈف مشاعرہ پڑھ کر روانہ ہوگئے اور دو دن بعد کالم چھپنے سے اگلے روز کارڈف کے رہنے والے ایک مہربان کی ای میل آ گئی‘ وہ ہم دونوں سے نہ مل پانے کے باعث ملول تھا۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس بار سارا پروگرام ہی بڑا دوڑ بھاگ والا تھا۔ تیرہ دن میں گیارہ مشاعرے۔ دو دن کا آرام اور آرام بھی کب؟ لمبے سفر کے درمیان سفری آرام کا وقفہ۔
شفیق نے کھانے کا کہا اور میں نے حسب معمول ہاں کردی۔ شفیق نے پہلے اولڈھم بلایا‘ وہاں گئے تو اس نے اپنی مسجد میں ہونے والی توسیع دکھائی۔ اب اس باقاعدہ طورپر بنی ہوئی مسجد میں بیک وقت پندرہ سو لوگوں کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہوگی۔ تہہ خانے میں خواتین کی کلاسوں کا بندوبست ہے۔ شفیق بتا رہا تھا کہ اس وقت پچیس خواتین قرآن اور تفسیر پڑھ رہی ہیں۔ کئی بچوں نے حفظ مکمل کیا ہے۔ ناظرہ اورترجمہ کا بندوبست ہے اور درجنوں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں سے کئی بچے مدینہ یونیورسٹی جا چکے ہیں۔ ساتھ ہی پرانی مسجد تھی جو مکان میں تبدیلیاں کرکے مسجد بنائی گئی تھی۔ اب نئی مسجد باقاعدہ نقشے کے تحت بنائی جا رہی تھی۔ مسجد دیکھنے کے بعد ہم راچڈیل روانہ ہوگئے۔
راچڈیل پہنچے تو پتا چلا کہ شفیق کے برادر نسبتی مدثر نے باقاعدہ ایک چھوٹی سی تقریب کا بندوبست کرکے رکھا ہے۔ یہ تقریب ''ڈیپلش کمیونٹی سنٹر‘‘ میں تھی۔ میں اس ہال میں بارہا جا چکا ہوں۔ آخری بار‘ تین چار سال قبل بچوں کی ایک ورکشاپ تھی اور میں وہاں مہمان خصوصی تھا۔ وہاں بچوں سے قریبی طور پر پہلی بار براہ راست رابطہ ہوا تو پتا چلا کہ نوے فیصد بچے اردو اور پنجابی بولنے سے قاصر ہیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کیا اور اس کے بعد ہر جگہ برطانیہ میں رہنے والے والدین سے بچوں کو اردو پنجابی سکھانے پر زور دینا شروع کیا۔ گزشتہ رات والے پروگرام میں '' ڈیپلش کمیونٹی سنٹر‘‘(Deeplish Community Center) کے انچارج سہیل کا بڑا ہاتھ تھا۔ سہیل سے بھی دو تین سال کے بعد ملاقات ہوئی۔ راچڈیل کے سکول میں اردو زبان کو شامل کروانے کی جدوجہد کا مرکزی کردار سعید ڈاربھی آیا ہوا تھا۔ سعید ڈار ان لوگوں میں سے ہے جو پچاس سال قبل برطانیہ آئے تھے۔ سعید ڈار بوڑھا ہو چکا ہے مگر ابھی تک کمیونٹی کے حوالے سے بڑا متحرک ہے۔ راچڈیل کی ٹائون کونسل میں ساٹھ کونسلر ہوتے ہیں‘ ان میں سے نوکونسلر پاکستانی ہیں۔ رات کھانے میں سات کونسلر آئے ہوئے تھے۔ سابق میئرراچڈیل سلطان ڈوگر چیچہ وطنی کا رہنے والا ہے اور اس سے پرانی سلام دعا ہے۔
گفتگو کے دوران میں نے انہیں بتایا کہ مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں اردو ڈگری کا کورس شروع ہو چکا ہے۔ اس کے لئے اردو کے استاد شیراز علی نے بڑی محنت اور کوشش کی ہے۔ اس نے ایک اور پاکستانی استاد مسعود ہاشمی نے کورس ڈیزائن کیا ہے۔ ابتدائی (Beginners) ، انٹرمیڈیٹ اور ایڈوانسڈ کی سطح پر کورسز متعارف کروائے گئے ہیں۔ ڈگری کلاسز میں آپشنل زبان کے طور پر اب اردو بھی اختیار کی جا سکتی ہے اور اس وقت مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں فرنچ، جرمنی اور سپینش زبان کے بعد اردو چوتھی بڑی تعداد میں پڑھی جانے والی اختیاری زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔
ایک گفتگو کے دوران مجھے شیراز علی نے بتایا تھا کہ یہاں ہونے والی ایک تحقیق کے بعد پاکستانی والدین کو باقاعدہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف اس کی مادری زبان سکھائیں ، انگریزی ہم خود سکھالیں گے۔ پاکستانی والدین اپنے بچوںکو جو انگریزی سکھاتے ہیں اس کا تلفظ وغیرہ اتنا خراب ہوتا ہے کہ سکول میں بچے پر دگنی محنت کرنی پڑتی ہے... ایک بار اس کے غلط تلفظ کو اس کے دماغ اور زبان سے ختم کرنے میں اور دوسری بار اسے درست تلفظ اور زبان سکھانے میں۔ بچے کا تلفظ (Accent) بارہ سال کی عمر سے پہلے بنتا ہے نہ کہ اس کے بعد۔ پاکستانی والدین کا اپنا تلفظ غلط ہوتا ہے‘ وہ ساری عمر درست نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دراصل اس عمر سے گزر چکے ہوتے ہیں جہاں درست تلفظ بنتا ہے‘ اس کے ساتھ وہ اپنے بچوں کا تلفظ بھی خراب کرتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ آپ اپنے بچے کی انگریزی ہم پر چھوڑ دیں‘ ہم اسے درست تلفظ والی انگریزی سکھائیں گے۔ آپ براہ کرم اسے اپنی مادری اور قومی زبان سکھائیں۔ دو یا دو سے زیادہ زبانیں جاننے والے بچے ایک زبان جاننے والے بچے سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ آخر یہاں پاکستانی بچے سکول یا کالج میں جرمن، فرنچ اور سپینش زبان بھی تو پڑھتے ہیں؟ وہ اردوکیوں نہیں پڑھ سکتے؟ آپ انہیں گھر میں اردو یا پنجابی بولنے پر مجبور کیوں نہیں کرتے؟ نئی نسل کے اکثر بچے اپنے ماں باپ کی زبان صرف سمجھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں۔ اس میں معاشرے یا سکولوں کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ میں ذاتی طور پر یہ چیز دیکھ چکا ہوں کہ یہاں برطانیہ میں سکھوں نے پنجابی کو پوری طرح سنبھال رکھا ہے۔ ان کے بچے فرفر پنجابی بولتے ہیں۔ میں نے کم از کم کسی سکھ کو پنجابی بولنے میں کسی دقت کا سامنا کرتے نہیں دیکھاخواہ وہ چھوٹا سا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح میرا دوسرا تجربہ لاس اینجلس کا ہے۔ یہاں میکسیکو سے آئے ہوئے سپینش بولنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد ہے۔ یہ لوگ اب گزشتہ تین چار نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ان کے بزرگوں کو امریکہ آئے ہوئے چالیس پچاس سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے مگر انہیں ابھی تک انگریزی نہیں آتی۔ میرا موضوع یہ بزرگ نہیں بلکہ نئی جنریشن ہے۔ سارے نوجوان اور بچے بازاروں میں فراٹے دار انگریزی بولتے ہیں اور گھر میں ایک لفظ انگریزی کا نہیں بولتے۔ صرف سپینش بولتے ہیں‘ عالم یہ ہے کہ زبان سے جڑے ہوئے ان لوگوں کیلئے لاس اینجلس کے ٹام بریڈلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہونے والے اعلانات پہلے سپینش میں ہوتے ہیں اور پھر انگریزی میں۔
یہاں کے سرخ پاسپورٹس ہولڈر بچوں کا پاکستان سے صرف اردو کا تعلق باقی رہ جائے گا بشرطیکہ والدین نے اس سلسلے میں اپنا کردار انجام دیا وگرنہ ان کی آنکھیں بند کرتے ہی نئی جنریشن کا پاکستان سے تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ میری یہاں کے والدین سے درخواست ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور آج سے ہی اپنی کمی کوتاہی کے ازالے کی کوشش کریں۔ وقت بالکل ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ابھی تک اردو بولنے والی جنریشن موجود ہے اور کچھ لوگ پاکستان سے آ رہے ہیں وگرنہ کھیل ختم ہوچکا ہوتا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں