"KMK" (space) message & send to 7575

منی لانڈرنگ سے استعفوں تک

لندن جائوں اور فہد سے ملاقات نہ ہو؟ ایسا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے‘ وجہ یہ نہیں کہ فہد مہمان نواز ہے‘ دھیان رکھتا ہے‘ گھماتا پھراتا ہے اور وقت دیتا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ مزے کی گفتگو کرتا ہے‘ دلچسپ اور کراری گفتگو۔ لندن آنے والے بہت سے ''معززین‘‘ کی حقیقت کے بارے میں‘ بڑی نامور شخصیات کے بارے میں اور سب سے بڑھ کر کراچی کے بارے میں۔ کراچی کے بارے میں گفتگو سے مراد کراچی کے سیاسی‘ سماجی اور ادبی سمیت سب پہلو۔ سیاسی معاملات زیادہ کہ یہ اس کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس معاملے میں اس کی یادداشت بڑی اچھی ہے‘ سال مہینے سب کچھ اُسے یاد ہیں۔ مجھے اس کی یادداشت پر حیرت ہوتی ہے کہ میں اس معاملے میں بڑا گھامڑ ہوں۔ مہینہ وغیرہ تو دور کی بات‘ سال یاد نہیں رہتا۔ زندگی کے نہایت اہم واقعات کے سال یاد نہیں۔ کیا کیا گنوائوں؟ اس وجہ سے بڑے قریبی لوگوں کے سامنے شرمندگی ہوتی رہتی ہے اور بے شمار مرتبہ ناراض لوگوں کو منانا پڑا۔ اب لوگ میری اس کمزوری کے عادی ہو گئے ہیں۔ مگر فہد کی یادداشت ایسی ہے جسے انگریزی میں ''فوٹوگرافک میموری‘‘ کہتے ہیں۔ 
فہد سے ویسے تو ہر موضوع پر گفتگو ہوتی ہے مگر کراچی اس کا نہ صرف یہ کہ پسندیدہ موضوع ہے بلکہ اسے اس موضوع پر عبور حاصل ہے۔ کراچی اور خاص طور پر کراچی کی سیاست اور حالات پر بات ہوگی تو ایم کیو ا یم کا ذکر ہونا لازم ہے۔ ایم کیو ایم کی بات ہوگی تو پھر الطاف بھائی کا ذکر ہوگا‘ الطاف بھائی کا ذکر ہوگا تو بات لندن پہنچے گی اور یہ سب کچھ فہد کی گفتگو کا پسندیدہ موضوع ہے مگر وہ ان تمام ظاہری حالات و واقعات سے ہٹ کر تبھی گفتگو کرتا ہے جب موڈ میں ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ موڈ میں کبھی کبھار آتا ہے۔ جب موڈ میں آئے تو اپنے موبائل میں محفوظ شدہ کاغذات‘ وڈیو کلپس اور مختلف آڈیو ریکارڈنگز سنواتا ہے۔ زیادہ جوش میں ہو تو ایک دو مخصوص نمبروں پر فون کر کے ای میل پر کچھ منگوا لیتا ہے مگر ایسا کم کم ہوتا ہے۔ گزشتہ دورہ لندن کے دوران اس سے کئی ملاقاتیں ہوئیں مگر بمشکل ایک ملاقات میں اس پر موڈ طاری ہوا۔ میں نے اس موڈ کے دوران اسے کہا کہ باتیں کرنا بڑا آسان ہے مگر جب ثبوت مانگا جائے تو جواب میں اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ میں نے کئی لوگوں سے بڑی باتیں سنی ہیں مگر ثبوت کی طرف کوئی نہیں آتا۔ بھلا اب زبانی کلامی بات پر کیا لکھا جائے؟ میں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ تم لندن میں الطاف بھائی کی پراپرٹی کی بات کرتے ہو‘ ثبوت ہے تو بتائو۔ جس سے پوچھیں وہ کہتا ہے کہ کونسل کے دفتر سے پتہ چل سکتا ہے۔ فلاں ویب سائٹ سے معلومات مل سکتی ہیں مگر کوئی پلہ نہیں پکڑاتا۔ کہنے لگا میں جو بات کرتا ہوں اس کا ثبوت دوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے ایک فون ملایا اور کسی فائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ فائل اسے ای میل کردی جائے۔ پندرہ منٹ بعد اس نے وہ فائل مجھے ٹرانسفر کردی۔ دس صفحات کی اس فائل میں الطاف بھائی کے نام پانچ مکانوں کی پوری تفصیل تھی‘ جن کی مالیت کم از کم پینتیس لاکھ پونڈ یعنی پچاس کروڑ روپے سے زائد تھی اور کسی مکان پر نہ تو قرض تھا اور نہ ہی وہ مارگیج پر تھا یعنی ان کی مکمل ذاتی پراپرٹی تھے۔ اسی ملاقات میں اس نے ''چائنا کٹنگ‘‘ کی اصطلاح سے نہ صرف روشناس کروایا بلکہ اس کی مکمل تفصیل بھی بتائی جو میں نے اپنے کالم میں لکھی۔ بے شمار لوگوں کے لیے تب چائنا کٹنگ ایک بالکل نئی چیز تھی‘ بہت سے دوستوں نے اس کی تفصیلات بھی پوچھیں‘ بعد میں تو یہ معاملہ بالکل ہی عیاں ہو کر رہ گیا۔ 
اس بار تین چار ملاقاتوں کے دوران اس پر وہ موڈ تو طاری نہ ہوا کہ وہ کسی فائل کو آپ کے سامنے دھر دیتا؛ تاہم کہنے لگا ایک فائل ہے ستر پچھتر صفحات کی ہے کبھی موقع ملا تو دکھائوں گا۔ میں نے بھی اصرار نہ کیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ ابھی اس سے فائل لینا بڑا مشکل کام ہے جب اس کا دل کرے گا تبھی معاملہ کسی سرے لگے گا۔ لیکن اس بار اس سے کراچی کے حالات پر کھل کر بات ہوئی۔ میں نے زیادہ گفتگو کرنے کے بجائے سوال زیادہ کیے۔ میں نے پوچھا محمد انور کی صحت کا کیا حال ہے؟ سنا ہے صحت ٹھیک نہیں ہے اسی لیے انہیں لندن سیکرٹریٹ کے معاملات سے تھوڑا سائڈ پر کیا گیا ہے۔ کیا یہ بات واقعی درست ہے؟ فہد ہنس کر کہنے لگا۔ انور سے کہیں زیادہ الطاف بھائی کی اپنی طبیعت خراب ہے۔ ان کی صحت زیادہ ٹھیک نہیں۔ انور صاحب کی صحت الطاف بھائی کی صحت سے بہتر ہے‘ باقی میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں نے پوچھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کو پیچھے کیا جا رہا ہے؟ فہد کہنے لگا منی لانڈرنگ والے معاملات میں شاید محمد انور کا معاملہ الطاف بھائی سے زیادہ سیریس ہے کہ لندن سیکرٹریٹ کے انتظامی اور مالی معاملات کو محمد انور براہ راست دیکھتے تھے۔ الطاف بھائی ان چیزوں سے ذاتی طور پر تھوڑا فاصلے پر رہتے تھے۔ دفتر کے تمام تر مالی امور کے نگران اور انچارج کم از کم کاغذوں کی حد تک محمد انور تھے۔ ایسے میں کسی متوقع مشکل وقت سے الطاف بھائی اور خاص طور پر پارٹی کو بچانے کی غرض سے انہیں یعنی محمد انور کو بتدریج دفتری معاملات سے الگ کیا جا رہا ہے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ انہیں صرف زبانی کلامی حد تک تنظیمی اور مالی معاملات سے دور کیا جا رہا ہے تاکہ کل کلاں کسی بات کے ثابت ہو جانے پر ملبہ ان پر ڈالا جا سکے اور اس علیحدگی کو اسی تناظر میں بتا کر اپنی پوزیشن صاف کی جا سکے۔ ایم کیو ایم ایسے معاملات میں سمجھدار ہے اور بروقت ایسے لوگوں سے علیحدگی کا اعلان کر کے اپنی پوزیشن صاف کر لیتی ہے۔ 
پھر کہنے لگا یہاں منی لانڈرنگ والا معاملہ گو کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے زیادہ سنگین نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ منی لانڈرنگ والے معاملے پر برطانوی تحقیقاتی ادارے زیادہ توجہ صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ انہیں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے معاملے کو حل کرنے کے لیے جن گواہوں اور ملزموں کی ضرورت ہے وہ پاکستان میں ہیں اور پاکستانی اداروں کے پاس ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ برطانوی قانون ان ملزموں کی پاکستانی اداروں کی تحویل میں دی گئی گواہیوں اور اعترافات کو نہیں مانتا۔ لہٰذا سکاٹ لینڈ یارڈ وغیرہ کی ٹیموں کی پاکستان آمد کے کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔ اب رہ گئی بات کہ ان ملزموں کو برطانیہ کے حوالے کردیا جائے تو صورتحال یہ ہے کہ یہ ملزمان برطانیہ آتے ہی اپنے اعترافی بیانات سے مکر جائیں گے اور سارا معاملہ ٹھس ہو کر رہ جائے گا۔ وہ یہاں آ کر کہیں گے کہ انہیں گزشتہ بیس برسوں سے ایجنسیوں کی تحویل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ سیف ہائوسز میں رکھا گیا۔ برسوں ان کی گرفتاری یا ان کے کسی ادارے کی تحویل میں ہونے کا اقرار نہ کیا گیا۔ ان کے بارے میں دنیا میں محض افواہوں پر کام چلایا گیا اور کسی کو بھی حقیقت میں پتہ نہ چلا کہ یہ کہاں ہیں؟ کس کی تحویل میں ہیں اور دیگر معاملات کیا ہیں؟ اب بھلا سالوں بعد اچانک افغانستان بارڈر پار کرتے ہوئے ڈالی جانے والی ان کی گرفتاری پر برطانیہ میں کون یقین کرے گا؟ سارے معاملات مشکوک ہیں۔ ایسی صورت میں ان گواہوں اور ملزموں کو برطانیہ کے حوالے کرنے کے نتائج الٹے بھی نکل سکتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں ان ملزمان کو برطانیہ کیسے بھیجا جا سکتا ہے کہ ان کے بیانات الٹا مصیبت کھڑی کر سکتے ہیں۔ اس حساب سے دیکھیں تو منی لانڈرنگ والا معاملہ زیادہ سیریس ہے لیکن یہ بھی عین ممکن ہے کہ برطانیہ ''وسیع تر قومی مفاد‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے کو گول ہی کردے۔ میں نے پوچھا کہ اس بات سے اس کی کیا مراد ہے؟ فہد کہنے لگا‘ بس آپ خود سمجھدار ہیں‘ میں زیادہ کیا بتائوں؟ 
میں نے پوچھا اور استعفوں کا کیا بنے گا؟ فہد کہنے لگا وہی بنے گا جو الطاف بھائی کے ایم کیو ایم کی قیادت سے استعفی دینے کے اعلان کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ میں نے پوچھا اس بات کا اسمبلیوں سے استعفے دینے سے کیا موازنہ؟ فہد کہنے لگا یہ استعفے بھی الطاف بھائی کے درجنوں استعفوں کی طرح واپس لے لیے جائیں گے۔ میں نے کہا کہ کراچی میں ہونے والا آپریشن برائے صفائی تو رکے گا نہیں کہ وہ سول حکومت کے اختیار میں نہیں ہے‘ جن کے اختیار میں ہے وہ روکنے کے نہیں۔ آپرشن نے رکنا نہیں تو استعفے کیسے واپس ہوں گے؟ فہد کہنے لگا‘ اگر متحدہ والوں نے ضمنی الیکشن لڑنے ہیں تو بھلا ان استعفوں کی کیا تُک ہے؟ اگر ضمنی الیکشن نہیں لڑنے تو سینیٹ کی ساری سیٹیں پیپلز پارٹی لے جائے گی۔ مستعفی ہونے کے بعد ساری بارگیننگ پاور ختم ہو جائے گی‘ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔ کوئی نہ کوئی بہانہ یا کوئی نہ کوئی جواز خواہ وہ کتنا ہی بودا یا نامعقول ہی کیوں نہ ہو یہ استعفے واپس ہو جائیں گے یا کر دیے جائیں گے۔ ویسے متحدہ نے بھی استعفے اس یقین کے ساتھ دیے تھے کہ پی ٹی آئی کے استعفوں کی طرح (خواہ مہینوں لٹکانے کے بعد) صلح کا کوئی ذریعہ تو ضرور نکل آئے گا لہٰذا استعفے دے دیے گئے۔ سپیکر اگر پی ٹی آئی کے استعفوں پر قانون کو الماری میں بند کر کے معاملہ لٹکا سکتا تھا تو اب کیوں نہیں؟ 
فہد میری طرف دیکھ کر کہنے لگا‘ پچھلی بار میں نے تمہیں کہا تھا کہ ایک کالم لکھ کر نمبر بنا لو مگر تمہاری ازلی سستی کے باعث یہ موقعہ تمہارے ہاتھ سے نکل گیا۔ تم میرے ساتھ استعفوں والے معاملے پر شرط لگاتے ہو؟ میں نے کہا بہتر ہوگا کہ تم مجھے میرے ہوٹل چھوڑ آئو‘ فی الحال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں‘ جب ہوگا بتا دوں گا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں