"KMK" (space) message & send to 7575

پھر وہی حلقہ این اے 153

قارئین ایک بار پھر وہی شجاع آباد اور جلال پور پیروالہ کا‘ حلقہ این اے 153 ہے۔ مجھے گمان ہے کہ آپ لوگ بھی شجاع آباد اور جلالپور پیروالہ سے اسی طرح تنگ آ چکے ہونگے جس طرح میں خود وہاں کی سیاست سے ہوں ‘مگر کیا کیا جائے؟ کل وہاں ضمنی الیکشن ہے اور لوگوں کو میرے بارے میں عجب غلط فہمی ہے کہ مجھے جنوبی پنجاب کی سیاسی حرکیات سے آگاہی ہے۔ میں اس بات سے کئی بار اپنی برا￿ت کا اظہار کر چکا ہوں‘ اعلان لاتعلقی کر چکا ہوں اور اپنی کم علمی اور کم فہمی کا اقرار کر چکا ہوں ‘مگر لوگ میری سننے کے بجائے اپنی منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں سچائی کا اظہار کرتا ہوں مگرمیرے بارے میں حُسن ظن رکھنے والے اسے کسر نفسی قرار دے کر مجھ سے اس علاقے کی سیاست کے بارے میں رائے طلب کرتے ہیں اور پھر اس پر یقین کرنے کی معصومانہ حرکت بھی۔ یہی حال اب بھی ہے۔ میں ویسے ہی زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ کا مالک نہیں ہوں کہ اس میں ہر طرف ایک پنجابی محاورے کے مطابق کھبّی دکھا کر سجی مارنے کا چلن ہے اور یہ ضمنی الیکشن تو ویسے بھی جلالپور پیروالہ اور شجاع آباد کے علاقے سے متعلق ہے ‘جہاں منافقت کو خوبی نمبر ایک کی حیثیت حاصل ہے اور وفاداریاں تبدیل کرنا نہ کوئی برا جانتا ہے اور نہ ہی شرمندگی محسوس کرتا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس حلقے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کا مکمل پینل الیکشن لڑ رہا ہے۔ آپ یقیناً میری اس بات پر کنفیوژ بلکہ پریشان ہو گئے ہونگے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ آپ کی پریشانی بالکل بجا ہے۔ اس الیکشن میں جو مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے دیوان عاشق حسین بخاری کی جعلی ڈگری کے باعث خالی ہونے والی نشست پر ہو رہا ہے مسلم لیگ نون‘ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار میدان میں ہیں۔ ان تینوں امیدواروں پر مشتمل یہ انتخابی معرکہ پورا کا پورا پیپلز پارٹی کا پینل ہے۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے قاسم نون ‘ پیپلز پارٹی کی طرف سے ملک محمد اکرم کنہوں اور پی ٹی آئی کی طرف سے ملک غلام عباس کھاکھی امیدوار ہیں۔ میں نے کہا ہے کہ یہ پورا کا پورا پیپلز پارٹی کا پینل ہے جو اس بار تین پارٹیوں میں بٹ چکا ہے۔آئیے میں آپ کو اصل صورتحال سمجھائوں۔
2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے اسی حلقے میں مسلم لیگ نون کی طرف سے دیوان عاشق بخاری‘ پی ٹی آئی کی طرف سے سعید خورشید اور پیپلز پارٹی کی طرف سے رانا قاسم نون امیدوار تھے۔ دیوان عاشق بخاری 94298 ووٹ لے کر کامیاب ہو گیا۔ صرف 5705 ووٹ سے ہارنے والے قاسم نون نے عدالتی جنگ شروع کر دی اور بالآخر دیوان عاشق بخاری کو اسمبلی کی نشست سے فارغ کروا کر دم لیا۔ این اے 153 کے نیچے صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی پی 205 اور پی پی 206 ہیں ۔2013ء کے الیکشن میں حلقہ پی پی 205 میں مسلم لیگ نون کی طرف سے مہدی عباس لنگاہ‘ پی ٹی آئی کی طرف سے حاجی محمد بخش اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ملک غلام عباس کھاکھی امیدوار تھے۔ اسی طرح حلقہ پی پی 206 میں مسلم لیگ نون کی طرف سے نغمہ مشتاق لانگ‘ پی ٹی آئی کی طرف سے ایوب گھلو اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ملک محمد اکرم کنہوں امیدوار تھے ۔ان دونوں صوبائی حلقوں سے مہدی عباس لنگاہ اور نغمہ مشتاق لانگ جو مسلم لیگ نون کے امیدواران تھے علی الترتیب کامیاب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اس حلقہ پر رانا محمد قاسم نون، صوبائی حلقوں پی پی 205 پر ملک غلام عباس کھاکھی اور پی پی 206 پر ملک اکرم کنہوں امیدوار تھے۔ یعنی اس حلقے سے 2013ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ایک قومی اور دو صوبائی حلقوں کے امیدوار رانا قاسم‘ ملک عباس کھاکھی اور ملک اکرم کنہوں پر مشتمل پورا پینل اس بار قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 153 سے تین جماعتوں کی طرف سے لڑ رہا ہے۔ مسلم لیگ نون کے جیتے ہوئے امیدوار دیوان عاشق بخاری کو اسمبلی سے نااہل کروانے والا پیپلز پارٹی کا امیدوار اب مسلم لیگ نون کا امیدوار ہے۔ پیپلز پارٹی کے اسی امیدوار کے نیچے ملک غلام عباس کھاکھی جو 2013ء میں پیپلز پارٹی کی طرف سے صوبائی اسمبلی کا امیدوار تھا اس بار اپنے سابقہ پینل کے سربراہ رانا قاسم نون کے خلاف تحریک انصاف کی طرف سے امیدوار ہے اور رانا قاسم نون کے ہی نیچے حلقہ پی پی 206 پر پیپلز پارٹی کا صوبائی امیدوار ملک محمد اکرم کنہوں اس بار قومی اسمبلی کے حلقہ میں اپنے سابقہ پینل کے سربراہ کے خلاف پیپلز پارٹی کی طرف سے امیدوار ہے ۔صرف ملک اکرم کنہوں اپنی سابقہ پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑ رہا ہے وگرنہ دیگر دونوں امیدوار وقت کی ہوا کے مطابق ''لوٹے‘‘ ہو چکے ہیں۔
میں نے اپنے ایک کالم میں بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ جلالپور پیروالہ میں مسلم لیگ نون کا امیدوار رانا قاسم نون ہو گا۔ رانا قاسم نون نے 2002ء کا الیکشن مسلم لیگ قاف کی طرف سے لڑا۔ 2008ء کا الیکشن آزاد لڑا‘ 2013ء کا الیکشن پیپلز پارٹی کی طرف سے لڑا اور اب مسلم لیگ نون کا امیدوار ہے۔ اگر اس دوران میں یعنی 2013ء اور 2016ء کے درمیان کوئی الیکشن ہوتا تو موصوف پی ٹی آئی کی طرف سے لڑتے کہ وہ اڑھائی سال پی ٹی آئی کے ساتھ رہے تھے اور وقت کی ہوا دیکھ کر مسلم لیگ نون میں آ گئے۔ اس دوران بڑے مزیدار واقعات ہوئے۔ دیوان عاشق بخاری کا صاحبزادہ دیوان عباس بخاری اسی دوران یوسی چیئرمین منتخب ہو چکا تھا اور ضلع ناظم کے لیے امیدوار تھا۔ دوسری طرف ساتھ والے حلقے این اے 152 سے منتخب مسلم لیگی ایم این اے جاوید علی شاہ اپنے کزن مجاہد علی شاہ کو ضلع ناظم بنوانا چاہتا تھا۔ لہٰذا اس نے دیوان عباس بخاری کو ایم این اے کا ٹکٹ دلوانے کے لیے ذاتی کوششیں شروع کر دیں۔ دوسری طرف شجاع آباد کے ایم پی اے رانا اعجاز نون نے اپنے والد رانا شوکت نون کے لیے ضلعی نظامت کی بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ دونوں حضرات یعنی جاوید علی شاہ اور رانا شوکت نون اس کوشش میں تھے کہ این اے 153 سے دیوان عباس بخاری ایم این اے کے لیے مسلم لیگ نون کا امیدوار بن جائے تاکہ ضلعی 
نظامت کے لیے ان کی راہ صاف ہو جائے۔ ایم پی اے رانا اعجاز نون کی عزیزہ اور حلقہ پی پی 206 سے منتخب ایم پی اے نغمہ مشتاق لانگ پی پی 205 سے مسلم لیگ نون کی طرف سے منتخب ایم پی اے مہدی عباس لنگاہ وغیرہ نے بھی دیوان عباس بخاری کے لیے کوششیں کیں تاکہ رانا قاسم نون سے جان چھوٹ سکے ۔مگر میاں صاحبان نے سب مقامی مسلم لیگیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود رانا قاسم نون کو ٹکٹ عطا فرما دی ۔اس دوران سب سے مزیدار کام جاوید علی شاہ نے کروایا اور کسی طرح بہلا پھسلا کر دیوان عباس بخاری سے یونین کونسل کی چیئرمینی سے استعفی دلوایا تاکہ وہ صرف اور صرف ایم این اے کا امیدوار بن کر رہ جائے اور اس کے ضلعی ناظم بننے کا امکان مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ رانا قاسم نون کو مسلم لیگ نون کی ٹکٹ ملنے کے بعد دیوان عباس بخاری کے پاس کوئی دوسری آپشن نہ رہی کہ وہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے ۔لہٰذا وہ آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا رہا اور اعلان کرتا رہا کہ وہ ظلم ‘زیادتی‘ ناانصافی اور بدمعاشی کے خلاف ہر حال میں الیکشن لڑے گا اور حلقے کو ظالموں اور لٹیروں سے ہر حال میں بچائے گا۔ لوگوں کو حق کے لیے اکسانے اور ظلم و زیادتی کے خلاف آخری حد تک جا کر لڑنے کے دعویدار دیوان عباس بخاری کو میاں شہبازشریف نے ڈھیلے منہ سے شاید یہ کہہ دیا کہ وہ اسے ضلع ناظم بنوانے پر غور کر رہے ہیں۔ دوسرے ہی دن اپنے تمام تر دعووں پر چار حرف بھیج کر دیوان صاحب نے رانا قاسم نون کی حمایت کا اعلان کر دیا اور الیکشن کمشن کو اپنے یونین کونسل کی چیئرمینی سے دیا گیا استعفیٰ واپس لینے کی درخواست دے دی۔ اس طرح یہ عظیم رہنما جلالپور پیروالہ کو ظلم و زیادتی سے بچانے اور لٹیروں سے محفوظ رکھنے کے عزم سے دستبردار ہو کر ظلم و زیادتی کے کاندھے سے کاندھا جوڑ کر الیکشن مہم میں شامل ہو گیا۔
میں نے جلالپور پیروالہ میں اپنے ایک دوست کو فون کر کے پوچھا کہ اب اس کا کیا ارادہ ہے؟ وہ پوچھنے لگا کس قسم کے ارادے کی بات کر رہے ہو؟ میں نے کہا تم رانا قاسم کے بارے میں جو کہتے رہے ہو وہ مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں ‘سب کچھ ریکارڈ پر ہے اور تمہیں ہمیں سب کو معلوم ہے ۔تم دیوان کے ساتھ تھے ‘اب دیوان، رانا قاسم کے حق میں بیٹھ گئے ہیں ‘اب تم کیا کرو گے؟ کہنے لگا ہم نیوٹرل ہیں ۔میں نے کہا خان تم چالیس پچاس مربعوں کے جاگیردار ہو ‘کوئی مزارع ٹائپ لاوارث اور بے وسیلہ شخص نہیں ہو‘ تمہاری قاسم نون سے پرانی مخالفت ہے ‘تم دیوان کے ساتھ تھے یہ ٹھیک ہے ‘لیکن اب دیوان میدان میں نہیں۔ تم دیوان کے ساتھی تھے اگر وہ خود الیکشن لڑتا ‘اب وہ خود بیٹھ گیا ہے ۔اصولاً اب تم آزاد ہو‘دیوان تمہیں آگے نہیں بیچ سکتا۔ تم کچے روٹ کے بس کی سواری نہیں کہ کنڈیکٹر نے جب چاہا دوسری بس والے کو بیچ دی۔ اب تم کیا کرو گے؟ کہنے لگا میں ملتان آ کر گھر بیٹھ جائوں گا۔ میں نے پوچھا اور تمہارا چھوٹا بھائی؟ کہنے لگا کہ وہ اب دیوان کے ساتھ قاسم کی کمپین کرے گا۔ میں نے پوچھا بڑا بھائی؟ بولا کہ بھائی صاحب نیوٹرل ہو کر ڈیرے پر بیٹھے رہیں گے ۔میں نے کہا نیوٹرل ہونا تو رانا قاسم کے حق میں ہے۔ کہنے لگا کہ ہاں بات تو ایسی ہی ہے۔ میں نے کہا تم ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم جس کے دوست ہیں اس کے دوست ہیں اور جس سے مخالفت ہے اس کے مخالف ہیں۔ اب مخالفت کہاں گئی؟ کہنے لگا مجبوریاں ہوتی ہیں۔ میں نے کہا خان ! اللہ کا دیا سب کچھ ہے ‘رقبہ ہے‘ عزت ہے‘ پیسہ ہے‘ دبدبہ ہے‘ سیاسی طاقت ہے۔ کس چیز کی کمی ہے؟ دل میں جس کو گالیاں دے رہے ہو اسی کے ساتھ چل رہے ہو ۔کھسیانی سی ہنسی ہنس کر کہنے لگا‘بس تم مجھے بھی اب ان شجاع آبادیوں کی صف میں شامل کر لو جن کے بارے میں تم ہمیشہ لکھتے رہتے ہو۔ میں نے فون بند کر دیا۔
پی ٹی آئی والے دوست فون کر کے پوچھتے ہیں کہ این اے 153 میں کیا بن رہا ہے؟ میں کہتا ہوں ‘شجاع آباد اور جلالپور پیروالہ کا کچھ پتا نہیں کہ کس کے ساتھ وعدہ کریں‘ کس کے ساتھ دعائے خیر کریں‘کس کے ساتھ گھر گھر جا کر ووٹ مانگیں اور کس کے ساتھ صبح پولنگ سٹیشن پر کھڑے ہوں ‘مگر مجھے اتنا ضرور پتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے یہ سارا الیکشن پولنگ ڈے سے پہلے ہی ہائی جیک کر لیا ہے۔ غلام عباس کھاکھی میرا بڑا عزیز دوست ہے مگر اس کے ہاتھ میں کم از کم اس الیکشن تک جیت کی لکیر مجھے تو نظر نہیں آئی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں