"KMK" (space) message & send to 7575

رب سوہنا کورٹ کچہری توں بچا وے

دنیا بھر میں سوشل میڈیا بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ایسے ہی ہے جیسے ''بندر کے ہاتھ بندوق‘‘ آ گئی ہو۔ سوشل میڈیا نے ایک پنجابی محاورے کے مطابق کسی کا ''پھکا‘‘ نہیں چھوڑا۔ ایسے ایسے انکشافات کہ رہے نام اللہ کا۔ ایسے ایسے القابات کہ عقل دنگ رہ جائے اور ایسے ایسے خطابات کہ بندہ شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ ملکی صورتحال پر تازہ ترین خبریں اور پھر ان پر تبصرے۔ لیکن ایک بات بہر طور کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور رکھتی ہے کہ ''زبان خلق کو نقارہِ خدا سمجھو‘‘۔ لوگ اس ذریعے سے اپنی اندر کی گھٹن نکالتے ہیں۔ گھٹن چونکہ بہت زیادہ ہے اور عام آدمی کی محرومیاں اس سے بھی سوا، لہٰذا جب ان محرومیوں اور نا انصافیوں کا غصہ وہ سوشل میڈیا پر نکالتے ہیں تو اعتدال کی حد سے گزر جاتے ہیں۔ یہ ردِ عمل اور غصہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ہدف بدلتا رہتا ہے۔ آج کل ایک بڑا معزز ادارہ اور اس کے ذمہ داران اس ''چاند ماری‘‘ کی زد میں ہیں اور ایسے ایسے پیغامات واٹس ایپ اور فیس بک پر آرہے ہیں کہ اگر ان کی بنیاد پر ازالہ حیثیت عرفی کے کیس درج ہونے لگیں تو ساری ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے پاس سننے کے لیے اور کچھ باقی نہ رہ جائے۔ 
ملک خالد روزانہ صبح نو بجے کے لگ بھگ فون کرتا ہے۔ چھٹی والے دن تھوڑا ترس کھاتا ہے اور دس ساڑھے دس بجے فون کرتا ہے۔ عموماً تازہ صورتحال اور خبروں پر بات ہوتی ہے۔ کبھی یہ گفتگو محض دو منٹ یا شاید اس سے بھی کم دورانیے پر مشتمل ہوتی ہے اور کبھی دس پندرہ منٹ پر۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ وہ چھوٹتے ہی سوال کرتا ہے اور پھر ایک آدھ منٹ بعد خود ہی اپنے سوال کا جواب دینا شروع کر دیتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ گفتگو ''ڈائیلاگ‘‘ نہیں بلکہ ''مونولاگ‘‘ یعنی یک طرفہ تقریر بن کر رہ جاتی ہے۔ گزشتہ ایک مہینے سے وہ روزانہ صبح ایک ہی سوال کرتا تھا۔ الفاظ دائیں بائیں ہو جاتے تھے مگر مفہوم وہی تھا کہ پاناما لیکس والے کیس کا کیا بنے گا؟ میں بھی روزانہ اسے الفاظ دائیں بائیں کر کے ایک ہی جواب دیتا تھا کہ کچھ نہیں بنے گا یا کم از کم وہ نہیں ہو گا جس کی وہ دل ہی دل میں توقع لگائے بیٹھا ہے۔ یا تو اس کیس پر کمیشن بن جائے گا یا حسب سابق ہر اہم کیس کی مانند اس کا بھی گول مول فیصلہ آ جائے گا۔
جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے ساتھ ہی پاکستان کے عوام نے عدلیہ سے وہ توقعات وابستہ کر لیں جو ممکنات میں سے نہیں تھیں۔ جسٹس (ر) افتخار چوہدری نے ارسلان افتخار والے کیس میں عوام کو بڑی وضاحت سے سمجھانے کی کوشش کی کہ میرٹ کا جو معیار آپ نے اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں مگر احمق عوام کو اشاروں کنایوں سے بات سمجھ ہی نہیں آتی۔ چوہدری صاحب نے بالآخر ایک کمشن بنا دیا اور جب کمشن نے تاریخی حوالوں سے ثابت شدہ پریکٹس کے برخلاف واقعتاً کچھ کرنے کی کوشش کی تو چوہدری صاحب کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ والا کمشن تو حقیقتاً کچھ کرنے جا رہا ہے، لہٰذا انہوں نے سب کچھ گول مول کر دیا۔
اپنے افتخار چوہدری صاحب کے بارے میں خدا جانے کیسے مشہور ہو گیا کہ وہ بڑے انصاف پسند ہیں۔ اس معاملے میں کسی تعلق، رشتہ داری اور سفارش کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کے بارے میں مشہور ہو گیا کہ وہ ایسے انصاف پسند ہیں کہ سب کو ''ایک آنکھ‘‘ سے دیکھتے ہیں۔ تاہم جب اپنے بیٹے کا معاملہ آیا تو پتا چلا کہ بعض بدخواہوں نے محض میڈیکل بنیادوں پر ان کے بارے میں یہ افواہ اُڑا رکھی تھی وگرنہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے معاملے میں دونوں آنکھیں استعمال کرنے پر قادر تھے۔
ہم جب چھوٹے تھے تو بڑی بوڑھیوں سے دو تین دعائیں بڑی کثرت سے سنتے تھے کہ ''شالا صحت دی بادشاہی تھیوے‘‘ (اللہ کرے تجھے صحت کی بادشاہی ملے) یعنی تم صحت مند رہو۔ دوسری یہ کہ ''شالا خاتمہ ایمان تے تھیوی‘‘ (خدا کرے تمہارا خاتمہ ایمان پر ہو) اور یہ کہ ''رب سوہنا کورٹ کچہری توں بچاوے‘‘ (اللہ تعالیٰ تمہیں کورٹ اور کچہری کی ذلت سے محفوظ رکھے۔) بچپن میں یہ تینوں باتیں سر کے اوپر سے گزر جاتی تھیں اور ہم سوچتے تھے کہ بھلا ان دعاؤں کی کیا تک ہے؟ تب صحت کے بارے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا اس لیے یہ دعا بھی بڑی غیر اہم لگتی تھی۔ چند برس ہوتے ہیں، اچانک ایک دن صبح اُٹھ کر چلنے میں دقت اور اپنا بیلنس برقرار رکھنے میں ناکامی ہوئی تو پتا چلا کہ صحت کو بڑی بوڑھیاں ''بادشاہی‘‘ سے کیوں تشبیہ دیتی تھیں۔
پھر حیرانی ہوتی تھی کہ آخر ایمان کی سلامتی کی دعا دینے کا کیا جواز ہے؟ اللہ نے ایمان دیا ہے تو خاتمہ ایمان پر ہی ہو گا۔ تاہم یہی دعا نماز جنازہ میں پڑھی تو اس کی اہمیت کا پتا چلا۔ جب ہم دعا کرتے ہیں کہ ''اے اللہ ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے اسلام پر زندہ رکھ، اور ہم میں سے جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے‘‘۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس دعا کا اصل مفہوم اور اہمیت کا اندازہ تب ہوا جب کئی صاحب ایمان لوگوں کو گمراہ ہوتے دیکھا۔ تب سے یہ پوری طرح سجھ میں بھی آئی اور کثرت سے کرنے کی توفیق بھی ہوئی۔
کورٹ کچہری کی ذلت سے بچنے کی دعا کی اہمیت اور افادیت تو تقریباً روز ہی دکھائی دیتی ہے۔ صبح اخبار اُٹھائیں، کبھی عدالت میں جانا پڑے، کبھی خود انصاف کی ضرورت پڑ جائے اور کسی عدالت زدہ سے ملاقات ہو جائے، غرض ہر روزکوئی نئی کہانی سننے کو ملتی ہے، جس کے بعد یہ یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اور حصول انصاف کا سارا میکنزم اب اس قابل نہیں کہ کسی شریف اور کمزور آدمی کو انصاف فراہم کر سکے۔ لوگ عشروں سے حصول انصاف کے لئے عدالتوں میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی دوسری اور تیسری نسل عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے مگر انصاف اب بھی اتنا دور ہے جتنا تب جب ان کی پہلی نسل مقدمہ دائر کرنے عدالت میں آئی تھی۔
امریکہ کی آبادی بتیس کروڑ جبکہ پاکستان کی آبادی انیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 1789ء میں چھ تھی، 1807ء میں یہ تعداد سات، 1837ء میں نو اور 1863ء میں دس کر دی گئی۔ 1866ء میں تب کے چیف جسٹس چینر نے یہ تعداد دوبارہ کم کر کے سات کر دی اور تین ریٹائر ہونے والے ججز کی جگہ نئے جج تعینات نہ کرنے کی ہدایت کی۔ ایک جج 1866ء میں دوسرا 1867ء میں ریٹائر ہو گیا؛ تاہم 1869ء میں یہ تعداد دوبارہ نو کر دی گئی۔ 1937ء میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے یہ تعداد بڑھا کر پندرہ کرنے کی کوشش کی مگر کانگرس میں یہ بل مسترد ہو گیا۔ تب سے اب تک امریکہ میں ججز کی تعداد بشمول چیف جسٹس نو ہے اور یہ ججز تا عمر جج رہتے ہیں تا وقتیکہ ان میں سے کوئی ازخود ریٹائر ہو جائے، مستعفی ہو جائے یا مواخذے کے نتیجے میں فارغ کر دیا جائے۔ یہ نو جج پورے امریکہ کے کیس نمٹاتے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ سال میں صرف دس قومی تہواروں پر چھٹی کرتی ہے۔ اس سال کرسمس اتوار کو آرہا ہے، لہٰذا سپریم کورٹ سوموار کو بند ہو گی۔ امریکہ میں ججز نہ تو گرما یا سرما کی چھٹیاں مناتے ہیں اور نہ ہی کوئی کیس اس لیے موخر کرتے ہیں کہ اسے دوسرا بنچ سنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بتیس کروڑ آبادی والے ملک میں کل نو جج ہیں اور زیرِ التوا کیس نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ہماری آبادی انیس کروڑ یعنی امریکی آبادی کا قریباً ساٹھ فیصد، ججز کی تعداد تقریباً دو گنی اور زیرِ التوا کیسز کی تعداد بلامبالغہ لاکھوں میں ہے۔
افتخار چوہدری کے دور کو عدلیہ کے نئے دور کا آغاز قرار دیا گیا اور سوموٹو کا رواج عام ہوا۔ عوام میں اخبارات کے ذریعے شہرت کی داغ بیل ڈالی گئی اور اس دوران ایک دو کیسز کے علاوہ تمام ہائی پروفائل کیسز پر ایسے گول مول فیصلے آئے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر فریق خوش نکلا کہ فتح اسے نصیب ہوئی ہے جبکہ حقیقت میں کسی کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ کراچی میں امن و امان والا کیس اس کی روشن مثال ہے۔ ایک صاحب کا فرمانا ہے کہ عمران خان بھولا بادشاہ ہے جو کسی فیصلے کی توقع لگائے بیٹھا ہے۔ دوسرا دوست کہنے لگا، عمران خان کا یہ اعتماد بے جا نہیں، ہماری عدالتوں سے انصاف بہرحال مل رہا ہے۔ انصاف میں دیر ایک الگ بات ہے لیکن انصاف کا دروازہ بہرحال بند نہیں ہوا۔
سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس خوش فہمی پر ہنسا جائے یا رویا جائے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں