"KMK" (space) message & send to 7575

ہزاروں برس پرانا المیہ

گزشتہ کئی دن سے‘ جب بھی کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں تو ارادہ کرتا ہوں کہ آج سیاست سے ہٹ کر کسی غیر سیاسی موضوع پر کالم لکھوں گا مگر انسان کا ارادہ تو بس ارادہ ہوتا ہے۔ اسے پورا تو میرا مالک کرواتا ہے‘ تبھی تو فاتح خیبر نے کہا کہ ''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا‘‘۔ جہاں شیر خدا اپنے ارادوں پر اپنی مرضی سے عمل نہ کر سکتے ہوں ہم جیسے‘ جو ان کے پائوں کی دھول سے بھی ادنیٰ ہیں‘ بھلا اپنے ارادوں پر کیسے پورے اتر سکتے ہیں؟ سو پھر ایک سیاسی کالم حاضر خدمت ہے۔ ارادہ ہے کہ اگلی بار ضرور بہ ضرور غیر سیاسی کالم لکھوں گا‘ لیکن یہ میرا ارادہ ہے۔ اس میں برکت تو میرا مالک ہی ڈالے گا۔
صورتحال یہ ہے کہ ہر روز صبح اگر دو چار لوگ مسلم لیگ ن وغیرہ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار نہ کریں تو تھوڑی حیرانی ہوتی ہے۔ اب روزانہ صبح دو تین موجودہ اور سابق ایم این اے یا ایم پی اے حضرات کا پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان بالکل معمول کی بات بن گیا ہے۔ یہ اب ''بریکنگ نیوز‘‘ کے درجے سے کہیں نیچے کی خبر ہے۔
اب پی ٹی آئی میں آنے والے کچھ نئے پنچھی ایسے بھی آ رہے ہیں جیسے کسی زمانے میں ٹیکسٹائل ملز میں کوئی ویونگ ماسٹر یا سپننگ ماسٹر آتا تھا۔ کسی سپننگ ملز میں کوئی نیا سپننگ ماسٹر آتا تھا وہ اپنے ساتھ پورا سپننگ سٹاف لے کر آتا تھا۔ وہ جب آتا تھا تو پورے لائو لشکر سمیت آتا تھا۔ پوری شفٹ چلانے کے لئے درکار سٹاف کے ہمراہ۔ جہاں وہ جاتا تھا وہاں کا سپننگ ماسٹر بھی جاتے ہوئے اپنے ساتھ پوری شفٹ کی شفٹ لے گیا ہوتا تھا۔ یہ نظام اسی طرح چلتا تھا۔ لیکن سیاست میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے اور اس کی ایجاد کا سہرا بھی پی ٹی آئی کے سر جاتا ہے۔ اس سے پہلے اکیلا دکیلا آدمی بھاگ جاتا تھا اور بالکل انفرادی حیثیت میں لوٹا بنتا تھا لیکن پی ٹی آئی میں حالیہ شمولیت کی لہر نے اس لوٹا سازی کے فن کو معراج بخشی ہے۔ کئی بڑے لوٹے آتے ہوئے اپنے ساتھ چھوٹے لوٹے ''سٹپنی‘‘ کی طرح بطور پیکج ڈیل ساتھ لائے ہیں۔ اس سے اس حلقے کے پرانے پی ٹی آئی ورکرز کا بالکل ہی تختہ ہو گیا ہے اور عمران خان کے انصاف اور میرٹ نامی اصولوں کی دھجیاں ذرا اچھی طرح سے بکھری ہیں۔ ابھی کل ہی ٹی وی کے چینلز پر عمران خان کا بیان چل رہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو اور سب کو ایک جیسے مواقع ملنے چاہئیں۔
کیا انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ رانا قاسم حلقہ این اے 159 میں اچانک وارد ہو اور نہ صرف یہ کہ این اے 159 سے پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی کی ٹکٹ اچک لے بلکہ اپنے نیچے صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹیں پی پی 221 اور پی پی 222 کے لئے سپننگ ماسٹر کی طرح دونوں امیدوار بھی ساتھ لائے۔ اب شنید ہے کہ ان دونوں صوبائی حلقوں میں لال خان جوئیہ اور اکرم کنہوں رانا قاسم کے ساتھ امیدوار ہوں گے۔ میں نے کسی دوست سے پوچھا کہ اب ان دونوں صوبائی حلقوں پر بھی گھس بیٹھیے قابض ہو گئے تو پی ٹی آئی کے پرانے کارکن اور امیدوار کہاں جائیں گے؟ جواب ملا: جہاں دیگر درجنوں قومی اور صوبائی حلقوں کے پرانے کارکن جائیں گے۔
رانا قاسم نون سے ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ 2008ء کے الیکشن قریب تھے اور چوہدری پرویز الٰہی ممکنہ امیدواروں سے ملاقاتیں بھی کر رہے تھے اور ٹکٹ بھی عنایت فرما رہے تھے۔ ایک دوست جو خود بھی تب امیدوار تھا وہاں موجود تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ جلال پور کی ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ یہ ہوا کہ قومی اسمبلی پر رانا قاسم کو ق لیگ کی ٹکٹ ملی اور نیچے دونوں صوبائی نشستوں پر دیوان عاشق بخاری اور اس کے بیٹے کو ٹکٹ عطا ہوئی۔ دیوان صاحبان دو صوبائی نشستوں یعنی پی پی 205 اور پی پی 206 پر ق لیگ کی ٹکٹ ملنے پر وزیر اعلیٰ کے سامنے تو خاموش رہے‘ لیکن کمرے سے باہر نکل کر رانا قاسم نون کہنے لگا: یہ پنجاب کا واحد حلقہ ہو گا جہاں ہم بلا مقابلہ جیتیں گے۔ اس کے بعد دیوان صاحبان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لئے اڑ گئے اور بالآخر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 153 کا مسلم لیگ ق کی ٹکٹ حاصل کر لی۔ اس پر رانا قاسم نون نے قومی نشست کے لئے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ رانا قاسم نون آزاد الیکشن لڑا اور جس نشست سے وہ بلا مقابلہ الیکشن جیتنے کا خواب دیکھ رہا تھا وہاں سے دیوان عاشق بخاری سے ہار گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ رانا قاسم نون نے اس نشست سے تین جنرل الیکشنز میں حصہ لیا۔ ہر بار مختلف پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑا اور ہر بار ہارا۔ واحد الیکشن 2016ء کا ضمنی الیکشن تھا جو مسلم لیگ ن کی طرف سے لڑا اور جیتا۔ تب یہ سیٹ دیوان عاشق کے نا اہل ہونے پر خالی ہوئی تھی۔ مسلم لیگ ن نے دیوان عاشق کے بیٹے کو ضلع کونسل ملتان کا چیئرمین بنوا دیا اور معاملہ ٹھیک ہو گیا۔ لیکن اس دفعہ معاملہ ٹھیک نہیں رہے گا۔ مسلم لیگ نون کا کوئی امیدوار ابھی تک سامنے نہیں آیا مگر قاسم نون کے لئے معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا وہ خود اور پی ٹی آئی والے سمجھ رہے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی اسی سے ملحقہ حلقہ این اے 158 سے امیدوار ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ ابھی صوبائی اسمبلی کا صرف ایک امیدوار‘ جو مڑل برادری سے ہے‘ میسر ہے اور دوسرا امیدوار نہیں ہے۔ ممکن ہے مسلم لیگ ن کا ایک ایم پی اے‘ جو اپنے ایم این اے جاوید شاہ سے ناراض ہے‘ ادھر چلا جائے‘ مگر اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ فی الحال اس حلقہ سے تین امیدوار ہیں یعنی سید یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی سے، پی ٹی آئی سے ابراہیم خان اور مسلم لیگ ن سے جاوید علی شاہ، چوتھا ممکنہ امیدوار جو آزاد ہو سکتا ہے ابھی ٹھنڈا ہو کر بیٹھا ہے۔ یہ نواب لیاقت علی ہے۔ اگر یہ چوتھا امیدوار میدان میں آ گیا تو سید یوسف رضا گیلانی کی لاٹری نکل آئے گی اور وہ آسانی سے یہ سیٹ جیت سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ابراہیم خان کے ساتھ ہو گا۔ رانا سہیل کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے ابراہیم خان کے نیچے والی دونوں صوبائی نشستوں پر معاملہ ٹھیک ہو گیا ہے۔ لیکن ابھی الیکشن میں کافی دن پڑے ہیں اور اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ملتان میں میاں نواز شریف کا جلسہ کافی شاندار تھا۔ اس جلسے کے طفیل جاوید ہاشمی بالآخر مسلم لیگ ن میں باقاعدہ آ گئے۔ ان کی یہ آمد بڑی ''کھڑکی توڑ‘‘ قسم کی تھی یعنی انہوں نے اپنی مستقل مزاجی، ہفتہ وار پریس کانفرنس اور یکطرفہ میاں صاحب کی محبت میں ڈوبے ہوئے بیانات کے زور پر مسلم لیگ ن کی کھڑکی کو ذاتی صلاحیتوں کے طفیل توڑا اور مسلم لیگ ن میں زیردستی داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی ہفتہ وار پریس کانفرنس سے یاد آیا کہ وہ اپنی پریس کانفرنسوں، تقریروں اور بیانات کے بارے رد عمل میں روزانہ کی بنیاد پر اپنی عوامی حمایت کو مزید کم کر رہے ہیں۔ انہیں بخولی علم ہے کہ انہیں اب ''کسی‘‘ نے اندر نہیں کرنا اس لیے وہ کھل کھیل رہے ہیں۔ تاہم یہ سب چیزیں ان کے اپنے خلاف جا رہی ہیں لیکن انہیں شاید اس کا علم نہیں۔ اور جب بندہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھ لے تب وہ کسی کی سنتا بھی نہیں۔ انسان کا یہ المیہ صدیوں نہیں ہزاروں برس پرانا ہے۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں