"KMK" (space) message & send to 7575

پانچ روز نیپال میں…(2)

چندرا گیری کی بلند پہاڑی پر نصب پرتھوی نرائن کے سنہرے مجسمے کے پاس کھڑے ہو کر میں نے سامنے نیچے پھیلے ہوئے کٹھمنڈوپر نظر دوڑائی۔ پہاڑیوں کے درمیان دُور تک پھیلا ہوا شہر‘ اپنے ارد گرد کے منظر نامے کے طفیل خاصا خوبصورت لگ رہا تھا۔ کم از کم چندرا گیری کی بلند قامت پہاڑی سے شہر ویسا ہی خوبصورت لگ رہا تھا‘ جیسا کہ پرتھوی نرائن کو 1743ء میں لگا تھا۔ بعض چیزیں وقت گزرنے پر بھی تبدیل نہیں ہوتیں۔ چندرا گیری سے کٹھمنڈوکا منظر بھی ایسی ہی چیز ہے۔
کٹھمنڈوکے نواح میں ہمالیہ کی ترائی میں ''گورکھا ریاست‘‘ کے نوجوان حکمران پرتھوی نرائن نے 1743ء میں اس کے آخری سرے پر واقع بلند و بالا پہاڑی چندرا گیری کی چوٹی پر چڑھ کر جب شہر پر نظر دوڑائی تو پہاڑوں کے درمیان گھرے ہوئے اس شہر کی خوبصورتی اور منظر نامے نے اسے مسحور کر دیا۔ اس نے اسی وقت کھڑے کھڑے فیصلہ کیا کہ وہ ایک دن کٹھمنڈوپر قبضہ کرے گا‘ باون کے لگ بھگ ریاستوں پر مشتمل سارے علاقے پر اپنی حکومت کرے گا اور اس شہر کو اپنی راجدھانی کا پایہ تخت بنائے گا۔ اس نے اس پہاڑی پر کھڑے ہو کر سوچا اور اپنی ریاست میں جاتے ہی اس سوچ پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ اس نے اپنی گورکھا ریاست اور کٹھمنڈوکے درمیان حائل ریاست ''نواکوٹ‘‘ پر حملہ کر دیا۔ پہلا حملہ ناکام رہا اور نوجوان حکمران کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن اس نے ہار نہ مانی اور اگلے ہی سال ایک بار پھر نواکوٹ پر چڑھائی کر دی۔ اس بار قسمت اس پر مہربان تھی۔ نواکوٹ پر قبضہ کرتے ہی اس کے اور کٹھمنڈوکے درمیان حائل رکاوٹ دُور ہو گئی۔ تب کٹھمنڈوبذات ِخود چار چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا۔ مجھے یہ ساری تفصیلات راستے میں آتے ہوئے نیپال اکیڈمی کا جنرل سیکرٹری پروفیسر جگت پرساد بتا چکا تھا۔
کٹھمنڈوپر قبضے سے پرتھوی نرائن شاہ نے اردگرد کی تمام ریاستوں پر اپنا قبضہ مستحکم کیا۔ کٹھمنڈوکو چاروں طرف سے گھیرنے کے بعد پرتھوی نرائن نے اس شہر پر حملوں کا آغاز کیا اور مختصر سے عرصے میں اس کی چاروں ریاستوں؛ کانتی پور‘ للت پور‘ بھکتا پور اور کرتی پور پر قبضہ کر لیا۔ ان حملوں اور فتوحات کا آغاز معرکہ کرتی پور سے ہوا۔ یہ نیپال کو ایک ملک یا ریاست بنانے کا آغاز تھا۔ باون چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل وادیٔ نیپال پہلی بار ایک مستحکم اور متحدہ ملک کی صورت میں معرض وجود میں آئی۔ اس ملک کا نام نیپال رکھا گیا۔ پرتھوی نرائن کے کریڈٹ پر یہ بات جاتی ہے کہ ایک نہایت ہی پرُآشوب دور میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کی سینکڑوں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو یکے بعد دیگرے ہڑپ کر رہی تھی‘ وہ ہمالیہ کی گود میں ساری وادی میں بکھری ہوئی ریاستوں کو یکجا کرنے میں مصروف رہا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا رخ ادھر بھی کر لیتی‘ مگر پرتھوی راج نے یہ کام ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے کر کے نیپال پر اپنا قبضہ بھی مستحکم کر لیا اور اسے انگریزوں کی کسی متوقع مہم جوئی سے بھی بچا لیا۔ دوسرا کام اس نے یہ کیا کہ فاتحین کی عام روایات سے ہٹ کر اس نے اس نئے ملک کو گورکھا ریاست کا نام دینے کی بجائے اسے نیپال کا نام دیا‘ جس سے قبیلوں کے درمیان نام کے مسئلے پر پیدا ہونے والی کسی بھی چپقلش کا خاتمہ ہو گیا اور نیپال ایک اکائی کے طور پر سامنے آیا۔ بلا شبہ پرتھوی نرائن شاہ کو جدید نیپال کا بانی کہا جاتا ہے۔
میں پرتھوی نرائن کے مجسمے کے پاس کھڑا تھا ‘جب کٹھمنڈوکی شاعرہ اور صحافی سنیتا نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مجسمہ کس کا ہے؟ میں نے کہا: یہ مجسمہ نیپال کے پہلے غیر متنازع حکمران پرتھوی نرائن کا ہے‘ جو جدید نیپال کا بانی ہے۔ اسے نیپال کی تاریخ میں وہی اہمیت اور مقام حاصل ہے ‘جو جرمنی کو ایک علیحدہ شناخت دینے اور اسے ایک آزاد ‘ خود مختار اور قومی ریاست بنانے میں پرنس بسمارک کو حاصل ہے۔ سنیتا کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں نے اسے پروفیسر جگت پرساد سے حاصل شدہ تازہ تازہ معلومات کے حملے سے ایک دم پریشان کر دیا تھا۔ اس نے اگلا کوئی سوال کرنے کی بجائے مجھ سے پوچھا کہ یہاں سے کٹھمنڈوکیسا نظر آ رہا ہے؟ میں نے کہا: سچی بات تو یہ ہے کہ کٹھمنڈوبس یہیں سے خوبصورت نظر آ رہا ہے‘ وگرنہ اس میں دارالحکومتوں والی کوئی بات نہیں‘ سوائے اس کے کہ بہت بڑا ہے‘ بلکہ نیپال کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس کی آبادی پندرہ بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے‘ تاہم برصغیر کے اکثر شہروں کی طرح بلا کسی منصوبہ بندی اور ڈیزائن کے بنا ہے۔ اس شہر میں تمام تر تعمیرات اسی طرح وجود میں آئی ہیں‘ جس طرح ملتان وغیرہ میں آئیں۔ نہ کوئی روک ٹوک اور نہ کوئی طویل منصوبہ بندی کا بکھیڑا‘ لیکن چندرا گیری سے بہر حال خوبصورت نظر آتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر ایک پیالے کی مانند ہے اور ارد گرد کی پہاڑیوں کا لینڈ سکیپ اسے قدرتی حسن فراہم کرتا ہے۔ چندرا گیری سے دیکھنے کے بعد اس پر پرتھوی نرائن کے حملے کو کسی حد تک جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے‘ تب یہ شہر ایسا بے ڈھنگا‘بے ترتیب اور بے طرح پھیلا ہوا نہ ہو۔ ویسے اتنے فاصلے اور بلندی سے اکثر چیزیں ویسی نظر نہیں آتیں ‘جیسی حقیقت میں ہوتی ہیں۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر آپ پرتھوی نرائن کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ میں ہنسا اور کہا کہ اس بات کا دارومدار اس چیز پر ہے کہ میں چندراگیری پر کس عمر میں آتا۔ اگر تو اس عمر میں آتا‘ جو اس وقت میری ہے تو حملہ کرنے کا خیال کرنے کی بجائے یہ سوچ کر پریشان ہوتا کہ کسی نہ کسی طرح اس بلندی پر آ گیا ہوں‘ اب واپس کیسے جائوں گا؟ لیکن اس سے بھی زیادہ ممکن ہے کہ آدھے راستے سے ہی واپس چلا گیا ہوتا۔ یہ حملہ وملہ تو تب سوچتا ‘اگر اوپر چڑھ سکتا۔ اب تو آسانی ہے کہ کیبل کار کے ذریعے یہاں آ گیا ہوں۔ تب کون اتنی اونچائی پر چڑھتا؟ ہاں ‘اگر تب میں بھی پرتھوی نرائن کی عمر کا ہوتا‘ جو محض بیس سال کا تھا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا ‘جو اس نے کیا تھا۔ وہ پوچھنے لگی: آپ کو چندرا گیری کا مطلب معلوم ہے؟ میں نے کہا: اللہ جانے نیپالی میں اس کا کیا مطلب ہے؟ لیکن ہمارے ہاں پنچابی میں ''چندرا‘‘ نکمے‘ نالائق اور بالکل فالتو سے آدمی کو کہتے ہیں اور ''گیری‘‘ دراصل داد گیری وغیرہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگی: چندرا سنسکرت میں چاند اور گیری پہاڑی کو کہتے ہیں۔ اس نے سوال کیا: آپ چاند کو کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا: اردو میں چاند‘ پنجابی میں ''چن‘‘ اور سرائیکی میں ''چندر‘‘ کہتے ہیں‘ جو سنسکرت کے ''چندرا‘‘ کے نزدیک ترین ہے۔
چندرا گیری‘ کٹھمنڈوکے ساتھ ہی جڑی ہوئی پہاڑی ہے‘ جس طرح دامن کوہ والی مارگلہ کی پہاڑیاں‘ اسلام آباد سے جڑی ہوئی ہیں‘ لیکن چندرا گیری کی اونچائی ان سے زیادہ ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کی اونچائی سولہ سو میٹر کے لگ بھگ ہے ‘جبکہ چندرا گیری کی بلندی اڑھائی ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ کیبل کار اپنے نیچے والے سٹیشن سے آپ کو ایک ہزار میٹر ‘یعنی تقریباً تین ہزار دو سو میٹر کی بلندی پر لے جاتی ہے۔ میرے ساتھ پاکستان سے محمد حسن حسرت کٹھمنڈوآئے تھے۔ حسن حسرت ''بلتی‘‘ زبان میں تحقیق و ادب کے حوالے سے اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور بلتستان کی تاریخ و جغرافیہ پر دسترس رکھتے ہیں۔ وہ میرے ہمراہ کٹھمنڈومیں ہونے والی دوسری ''چین و جنوبی ایشیائی لٹریچر فورم‘‘ کے زیر اہتمام ''ٹرانس ہمالین لٹریری اینڈ کلچرل کونیکٹیویٹیز‘‘ (Trans-Himalayan literary and cultural connectivities) پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اس کانفرنس کا اہتمام ''نیپال اکیڈمی‘‘ نے کیا تھا ‘جو دراصل ادب کے ساتھ ساتھ آرٹ اور کلچر کی نمائندہ ہے۔ پچپن سال پہلے بننے والی اس اکیڈمی کا وسیع و عریض دفتر شہر کے عین درمیان میں واقع ہے اور بہت بڑے رقبے پر ہے‘ جس میں ایک ملٹی پرپز ہال‘ میٹنگ رومز‘ کانفرنس ہالز اور لائبریری کے علاوہ انتظامی بلاک ہے اور اس کا سربراہ چانسلر اور نائب وائس چانسلر ہے۔ اس کے لائف ممبران میں پروفیسر‘ محقق‘ تاریخ دان‘ آرٹ و کلچر سے منسلک نامور لوگ‘ ریٹائرڈ بیورو کریٹس‘ سفارتکار اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں‘ جن کی تعداد بیسیوں میں ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ چین‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ اور نیپال کے مقامی ادیب اور محققین شریک تھے۔ بھارت کا وفد اس بار بھی غیر حاضر تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں